نقطہ نظر

جمّی نے سوچا: قطار

قطار بنانا ایک انتہائی اہم معاشرتی اسکیم ہے جو صرف بہت ذہین افراد کے گروپس میں ممکن ہوتی ہے۔
|

دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارے پیارے دیس میں یہ روایت صرف زبردستی ہی ٹکٹنگ سسٹم یا کسی اور طریقے سے نافذ ہوتی ہے۔ بس اسٹاپ سے لے کر ایک عام دکان تک ہمارے ملک میں قطار میں لگنا سب ہی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

قطار بنانا ایک انتہائی اہم معاشرتی اسکیم ہے جو صرف بہت ذہین افراد کے گروپس میں ممکن ہوتی ہے، مگر پاکستان اس نعمت سے محروم ہے اور اگر کوئی فلسفیانہ انداز میں اس کی تفتیش کرے تو اس کا سادہ جواب یہ سامنے آئے گا کہ ہم متحد ہونے یا گروپ کی بجائے صرف انفرادی سطح تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

ہم دوسروں پر اعتماد نہیں کرتے، بینک کے اس تجربے کے بعد میں نے اگلی بار کیلئے قطار میں لگنے کا فیصلہ کیا اور مجھے پیچھے چھوڑ کر لوگ اس وقت تک آگے نکلتے رہے جب میں نے ایک پاس سے گزرنے والے شخص سے ایک سوال پوچھا۔ اپنے غصے کو چھپا کر چہرے پر مسکراہٹ لانا آسان کام نہیں، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ طریقہ کام کرگیا۔

متعدد افراد قطاروں میں میری طرح کافی کافی دیر تک کھڑے رہتے ہیں، کم از کم اس طرح ہم کچھ بہتر تو کر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ذہین گروپ کی تشکیل کا سائیکل شروع کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر کیا ہم اس کی کوشش کر رہے ہیں؟ نہیں تو میری مدد کریں اور ان الفاظ کو پھیلائیں۔


ڈان اردو کی جانب سے پیش ہے ایک فکر انگیز سلسلہ، "جمی نے سوچا".

جمی ایک عام پاکستانی ہیں جو مختلف چیزوں کے بارے میں سوچنے اور سوال کرنے کا شوق رکھتے ہیں.

اگلا سوال اگلے جمعے..

فیس بک پر جمی سے ملنے کے لیے کلک کریں

سجاد حیدر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عریش نیاز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔