کراچی کی یاد میں: چاہ
یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آرزو اتنی شدید بھی ہوسکتی ہے خصوصاً ایک جگہ کی آرزو- میرے وجود کا ایک ایک انچ کراچی کی چاہ میں تڑپتا ہے- کراچی میں جو کچھ چل رہا ہے وہ میں اپنی فیملی اور دوستوں کی نظر سے دیکھتی ہوں- میں نے اپنی ملاقاتوں میں اس شہر کے مزاج کا اندازہ لگایا ہے لیکن تلخ و شیریں وصال کا یہ موضوع اگلی داستان کے لئے ہے-
کراچی گرم مرطوب آب و ہوا کا شہر ہے- گرم مرطوب دن اور ہوادار خوشبودار شامیں- ہوا میں نمی اتنی کہ آپ اپنی جلد پر نمک کا ذائقہ محسوس کر سکتے ہیں- اس سے آپ کی جلد چمکنے لگتی ہے ( بھلے پسینے ہی کی وجہ سے سہی) اور آپ کے بال بکھرے بکھرے رہتے ہیں-
میرے خیال سے انسان کے جسم کا سب سے سرکش حصّہ، شہر کی خصوصیات اپنا لیتا ہے- دلچسپ، ڈراؤنا اور کبھی کبھی تنہا بھی، لیکن پھر بھی ایک مانوس سا شہر- اس شہر میں سے جوانی کا عرق ٹپکتا ہے اور اکثر جوانی کی ہی طرح یہ بھٹک بھی جاتا ہے-
یہاں آسمان ہمیشہ نیلا رہتا ہے- یہاں کے ساحل گرم موسم، خوشگوار ہوا اور پانی کے مناسب درجہ حرارت کے ساتھ سکون بخش ہیں- میں اپنی ایک فرنچ بولنے والی دوست کو کراچی میں الائنس فرانکیس لے گئی، وہاں اس نے ایک فرنچ سٹاف ممبر سے باتیں شروع کر دی جو حال ہی میں پیرس سے یہاں آیا تھا- بعد میں اس نے مجھے اس گفتگو کا ترجمہ کر کے سنایا- اس فرانسیسی کو کراچی خوبصورت لگا، اس کا نیلا آسمان، گرم موسم پیرس کے برعکس اسے پسند آیا جہاں ہر وقت ٹھنڈ، اندھیرا اور بارش ہوتی رہتی ہے- یہاں گرمیوں کا وسط چل رہا تھا اور دن کے وقت کافی گرمی ہوتی تھی-
مجھے اس کی باتیں مضحکہ خیز لگیں، سب سے پہلے تو کراچی کا پیرس سے موازنہ ہی ایک کراچی والے کے لئے ایک انوکھی چیز ہے، کراچی کا موازنہ دنیا کے سب سے خوبصورت اور رومانوی شہر سے! اس کے علاوہ، کراچی کی گرم دوپہر میں یہ سوچنا ہی محال لگتا ہے کہ کوئی اسے پیرس کی ٹھنڈ پر ترجیح دیگا- لیکن اب جبکہ میں خود ایک اجنبی دنیا کے ٹھنڈے، اندھیرے اور پراۓ آسمان تلے رہ رہی ہوں، میں اس وقت کی کہی باتوں سے اتفاق کرتی ہوں-
اس شہر میں ہمہ وقت پنپنے والے تشدد اور مشکلات کے ساتھ شاید آپ خود کو قیدی محسوس کریں- لیکن سچ تو یہ ہے کہ صبح کے دو بجے سڑکوں پر ٹریفک دیکھ کر عجیب سی آزادی محسوس ہوتی ہے-
فقط ایک بار میں نے کراچی کو خاموش اور تھوڑا پریشان حال دیکھا تھا جب میں سہراب گوٹھ میں 'آپریشن کلین اپ' اور اورنگی ٹاؤن میں ہونے والے قتل کے دوسرے دن ائیرپورٹ جا رہی تھی- وہ سنہ انیس سو اسی کے وسط کی بات تھی جب ضیاء الحق کا دور حکومت تھا، اور انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا.
ان کے بعد آنے والے بھی انہی کے نقش قدم پر چلے- کچھ نے ان سے بھی زیادہ ہاتھ صاف کیا- تب سے آج تک شہر روز بہ روز تشدد کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے- جب بھی تشدد کا کوئی طوفان اپنی پوری تباہی کے ساتھ شہر پر وارد ہونے والا ہوتا ہے اس سے پہلے ایک پراسرار سی خاموشی پورے شہر پر چھا جاتی ہے-
لاہور کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے جو کراچی میں رہتا تھا مجھے بتایا ، "باجی، کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے-" پنجاب سے تعلق رکھنے والے میرے والدین کے ملازم نے ایک بار کہا، "باجی، یہاں ایک ٹھیلے والا بھی بادشاہ ہے، کم از کم وہ کسی کا غلام تو نہیں ہوتا!"
مجھے میرے شہر کے بازار بھی بہت پسند ہیں، چاہے وہ کھارادر کا تنگ گلیوں والا بوہری بازار ہو یا زمزمہ- میں نے دور دراز کا سفر کیا ہے لیکن جیسی خدمات کراچی کے تاجر پیش کرتے ہیں ویسی کہیں اور نہیں دیکھیں- دکاندار، ٹھیلے والے آپ کی ہر طرح خدمت کی کوشش کریں گے لیکن اگر آپ جانا چاہیں تو آپ کو فوراً جگہ دے دیں گے-
میرے خیال سے یہ کراچی کے تاجر ہی ہیں، چاہے وہ ایک موچی ہو یا کوئی صنعتکار جو اس شہر کا اصل جوہر ہیں- آج کراچی جو کچھ ہے وہ انہی کا بنایا ہوا ہے، یہ ہی کراچی کی اصل روح ہیں-
یہ ایک بڑے دل والا شہر ہے- یہاں تہہ در تہہ نسلیں آباد ہیں جنہیں اس نے پناہ دی- لیکن بہت کم ہی ایسے ہیں جنہوں نے دھرتی ماں کے اس حصّے سے جو کچھ پایا اس کا صلہ لوٹایا ہو- میرے خیال سے وہ کسی اور جگہ کی خواہش کرتے ہونگے جسے اپنا گھر کہہ سکیں- ممکن ہے انکی اگلی نسل کراچی کو اپنا گھر سمجھے اور پھر وہ بھی اس شہر کی روح کا حصّہ بن جائیں-
ترجمہ: ناہید اسرار
مصنف میلبورن میں رہائش پزید ہیں. وہ پہلے ایک پبلشنگ ہاؤس میں بطور سب ایڈیٹر اور سرمایہ کاری تجزیہ نگار کا کام کر چکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔