شریف ٹیم؟
جمہوریت کے استحکام کی جانب سفر کے چھ طویل برسوں کے بعد اب ملک کے پاس نیا فوجی سربراہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی زیادہ سینئر کا، کم با اختیار فوجی عہدے پر بطور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی تقرر کیا جاچکا۔ یہ دونوں تقرریاں اپنی کہانی خود اپنی زبانی سناتی ہیں۔
چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کو باری باری تینوں مسلح افواج کو دینے کے بجائے ایک بار پھر اس کے لیے برّی فوج سے انتخاب پر، وزیرِ اعظم نواز شریف فوج کی اس دلیل سے متفق نظر آئے ہیں کہ وہی ملک کے جوہری پروگرام کی نگراں ہے اور فوج کے زیادہ بااختیار ہونے کے لیے یہ عہدہ بھی اسی کے پاس رہنا چاہیے۔
چیئرمین جوائنٹس چیف آف اسٹاف کے عہدے پر طویل عرصے سے برّی فوج ہی اپنا حق جتائے چلی جارہی ہے، جس سے امکانی طور پر بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان زیادہ خوش نہیں ہوں گے لیکن حتمی تجزیے میں، اپنا دعویٰ جتانے کے لیے چھوٹی سروسز کو زیادہ موافق اور ٹھوس اثر و رسوخ نہیں مل سکا۔
تاہم واضح وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز جناب شریف کا دوسرا انتخاب رہے گا: جنرل راحیل شریف کی بطور نئے چیف آف آرمی اسٹاف تقرری۔
نئے سربراہ کے لیے، فوج کی قیادت کرنے والے تین سینئر ترین جنرلوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر، وزیرِ اعظم نے بنیادی طور پر سینیارٹی کو قبول کرنے کی کوشش کی تھی۔ متعدد زاویوں سے، جننرل شریف کا انتخاب جناب شریف کے محتاط رویے کو ظاہر کرتا ہے:
اگرچہ ذرائع ابلاغ میں فوج کے سینئر ترین، تین یا چار جنرلوں کے نام مسلسل زیرِگردش رہے اور متعدد گروپ ایک یا کسی دوسرے امیدوار کے حق میں لابی بھی کرتے رہے لیکن اُن سب میں جنرل شریف زیادہ فیورٹ یا ترجیحی امیدوار نہیں تھے۔
جنرل شریف اپنی فوجی صلاحیتوں کے ساتھ ایک کم اہم جنرل رہے ہیں، شاید اسی لیے وزیرِ اعظم شریف نے اُن کا انتخاب کر کے ایک جوا کھیلا ہے تاکہ شریف بمقابلہ شریف کے بجائے، وہ شریف ٹیم کے رکن کی حیثیت سے عہدے کے تین سالوں کے دوران اپنا کام کرتے رہیں۔
ملک کی خاطر، ضروری ہے کہ خطّے میں استحکام اور بالخصوص عسکریت پسندی کو شکست دینے کے واسطے، بامقصد اور جامع حکمتِ عملی کی تشکیل کی خاطر،جناب شریف کی ٹیم مل کر کام کرے۔ ہوسکتا ہے کہ شاید وزیر اعظم شریف دلیل دیں کہ اگلے چھ برسوں کے لیے ایک نئی سویلین حکومت کے ماتحت پالیسی تشکیل دی جائے۔
لیکن آج سے شروع کرنے کے لیے، یہ کوئی طویل معاملہ نہیں۔ جناب شریف کے منتخب کردہ، ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ ہیں۔ کیا اب وزیرِ اعظم قائدانہ صلاحیت کا اظہار کرتے ہوئے اُن وعدوں کو پورا کریں گے جو الیکشن کے دوران قوم سے کیے لیکن جون میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے اب تک، وہ انہیں پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں؟
کیا جنرل شریف سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کے کھیل سے دور رکھنے اور عسکریت پسندی کے خلاف فوج کو صفردرجہ عدم برداشت پالیسی اپنانے کی جانب مزید پیشرفت کریں گے؟
اب ان دونوں شخصیات کے کندھوں پر ذمہ داریوں اور قوم کی امیدوں کا بھاری بوجھ دھرا ہے۔