پاکستان

”کسی بھی جرم میں ملوث فوجی اہلکاروں کی تفتیش نہیں کی جاسکتی“

ایم آئی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی اہلکارکی پولیس یا سپریم کورٹ بھی تفتیش یا انکوائری نہیں کرسکتی۔

اسلام آباد: ملک کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، نے مل بروز منگل چھبیس نومبر کو لاپتہ شخص توصیف علی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے سامنے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت کسی بھی جرم میں ملؤث فوجی اہلکارکی تفتیش کی کوشش نہیں کی جانی چاہیٔے۔

یاد رہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے گیارہ جون کو یہ دلیل دی جاچکی ہے کہ کسی فوجی اہلکار یا کسی فوجی کارروائی پر پولیس، یا یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی تفتیش یا انکوائری نہیں کی جاسکتی۔

ملٹری انٹیلی جنس نے یہ موقف جسٹس ناصر الملک، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اقبال حمید الرحمان پر مشتمل سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے پیش کیا، جو توصیف علی عرف دانش کی اہلیہ عابدہ ملک کی درخواست پر تشکیل دیا گیا تھا۔

عابدہ ملک کی درخواست میں ملٹی انٹیلی جنس کے حاضر سروس افسر میجر علی احسن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان کے شوہر کی جبری گمشدگی میں پس پردہ شامل ہیں، چنانچہ وہ فوری طور پر ان کے شوہر کو عدالت کے سامنے پیش کریں، میجر احسن پہلے میجر حیدر کے نام سے جانے جاتے تھے۔

توصیف علی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حزب المجاہدین کے سرگرم رکن تھے، اور گزشتہ سال 23 نومبر سے لاپتہ تھے۔انہیں مبینہ طور پر میجر احسن نے اُٹھایا تھا۔ ان کی فون پر آخری بات چیت میجر احسن کے ساتھ ہوئی تھی، جو اس وقت کیپٹن تھے اور ایم-918 منگلاکنٹونمنٹ میں تعینات تھے۔

اس معاملے کی رپورٹ صادق آباد پولیس اسٹیشن میں پانچ دسمبر کو درج کرائی گئی تھی، اور انیس مارچ کو لاہور ہائی کورٹ میں اس کی سماعت کے بعد اس کو خارج کردیا گیا تھا۔

اپنی درخواست میں عابدہ ملک نے کہا تھا کہ گزشتہ سال بائیس نومبر کو تقریباً سہ پہر چار بجے ان کے شوہر سے فون پر ہونے والی آخری بات چیت میں فون کرنے والے کے ساتھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تھا، جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ وہ میجر احسن تھے۔اس کے اگلے ہی دن ان کے شوہر جمعہ کی نماز پڑھنے گئے اور اس کے بعد سے لاپتہ ہوگئے۔ توصیف علی نے اپنی گمشدگی سے قبل فرنیچر کا کاروبار شروع کیا تھا۔

سپریم کورٹ پہلے ہی سیکریٹری دفاع ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل آصف یاسین ملک کو یہ حکم دے چکی ہے کہ لاپتہ شخص کے تلاش کے حوالے سے تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ جس فوجی افسر پر اس گمشدگی کا الزام ہے، اس پر تفتیش میں پولیس کے ساتھ تعاون کیا جائے۔

ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ ابراہیم ستّی نے عدالتی بینچ کو آگاہ کیا کہ ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ تحریری صورت میں ایک لیٹر سپریم کورٹ کو ارسال کرچکا ہے، جس میں اس اسی بات کو دہرایا تھا کہ اس نے توصیف علی کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس حراست میں ہے۔

ایڈوکیٹ ابراہیم ستی نے ڈان کو بتایا کہ دو یا تین دن میں یہ لیٹر عدالت کے سامنے پیش کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک حاضر سروس فوجی آفیسر کے خلاف ایف آئی آر رجسٹرڈ کی گئی تھی، اس وقت ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے اس کا جائزہ لیا تھا، اگر اس کے ثبوت متعلقہ حکام کو فراہم کردیے جاتے تو آرمی ایکٹ کے تحت اس کے خلاف کیس شروع کیا جاسکتا تھا۔

ملٹری انٹیلی جنس کے اس لیٹر میں لاپتہ شخص کی اہلیہ کے اس دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ میجر حیدر میرپور میں ایم آئی کے لیے خدمات انجام دے رہے تھے۔

یہ لیٹر ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ سے وزارت دفاع کے ڈیفنس لیگل ڈائریکٹر کے راولپنڈی آفس کو بھیجا گیا تھا۔

عدالت کی کارروائی اس لیے ملتوی کردی گئی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر لاہور میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے لاپتہ فرد کے ایک اور مقدمے میں پیش ہورہے تھے۔

ایک دن پہلے عابدہ ملک کی طرف سے ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم نے پولیس کی تفتیش میں رکاوٹ پیدا کرنے اور میجر احسن کو تحفظ دینے کے الزام میں اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف توہین عدالت کی ایک درخواست سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی تھی۔

مدعی کے وکیل نے اس درخواست میں سیکریٹری دفاع، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ راشد محمود اور جی ایچ کیو کے ملٹری سیکریٹری لیفٹننٹ جنرل مظہر جمیل کو نامزد کیا تھا۔

آٹھ نومبر کو عدالت عالیہ نے حکومت کی اس درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس میں لاپتہ افراد کے معمے کو حل کرنے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مشتمل ایک نئی مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کی گزارش کی گئی تھی۔

اعلٰی فوجی حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست