اعلٰی فوجی حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست
اسلام آباد: جبری طور پر لاپتہ ایک شخص کی اہلیہ نے کل بروز پیر پچیس نومبر کو توہین عدالت کی ایک درخواست اعلٰی فوجی حکام کے خلاف جمع کرائی ہے، جس میں ملٹری انٹیلی جنس کے میجر علی احسن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر پولیس کی تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
یہ درخواست ایڈوکیٹ ریٹائرڈ کرنل انعام الرحمٰن نے عابدہ ملک کی طرف سے جمع کرائی، جس میں سیکریٹری دفاع ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل آصف یاسین ملک، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ راشد محمود اور جی ایچ کیو کے ملٹری سیکریٹری لیفٹننٹ جنرل مظہر جمیل کو نامزد کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پہلے ہی عابدہ ملک کی ایک درخواست پر فوری اقدام کے تحت ان کے شوہر توصیف علی عرف دانش کو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ میجر علی احسن جو میجر حیدر کے نام سے معروف ہیں، ان کے شوہر کی جبری گمشدگی میں ملؤث تھے۔
23 نومبر 2011ء سے لاپتہ ہونے والے توصیف علی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حزب المجاہدین کے لیے کام کرتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق وہ میجر حیدر کے ساتھ رابطے میں تھے۔ توصیف کو آخری کال میجر حیدر کی موصول ہوئی تھی، اس وقت وہ کیپٹن تھے اور ایم آئی-918 منگلا کنٹونمنٹ میں تعینات تھے۔
توصیف کی گمشدگی کی رپورٹ صادق آباد پولیس اسٹیشن میں گزشتہ سال پانچ دسمبر کو درج کرائی گئی تھی، اور لاہور ہائی کورٹ نے اسی سال انیس مارچ کو اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے اس مقدمے کو خارج کردیا تھا۔
اپنی درخواست میں عابدہ ملک نے گزشتہ سال بائیس نومبر کو ہونے والی ایک بات چیت کے دوران سخت الفاظ کے استعمال کا حوالہ دیا تھا، جو ان کے شوہر اور فون کال کرنے والے فرد کے درمیان ہوئی تھی، جس کے بارے میں ان کو یقین ہے کہ وہ میجر حیدر تھے۔ اس کے اگلے روز ان سے شوہر جمعہ کی نماز پڑھنے گئے اور اس کے بعد انہیں جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔
توصیف علی نے اپنی گمشدگی سے کچھ عرصہ پہلے ہی فرنیچر کا کاروبار شروع کیا تھا۔
انیس نومبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران عدالت عالیہ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ میجر احسن بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ ضلع آوران میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تعینات ہیں اور توصیف علی کی بازیابی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔
توہین عدالت کی اس درخواست میں اس کے ساتھ ساتھ درخواست گزار نے یہ استدعا بھی کی ہے کہ ایم آئی کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل نوشاد کیانی پولیس کی تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کے ذمہ دار تھے، جو خود پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ایک جرم ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ”یہ واضح طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ اعلٰی فوجی حکام میجر احسن کو غیرقانونی طور پر تحفظ دینے کی کوشش کررہے ہیں، اس طرح وہ عدالت میں زیرسماعت مقدمے کی کارروائی میں رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت اعلیٰ فوجی حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی کارروائی میں مدد کریں، خاص طور پر اس وقت جب کہ زیرِ سماعت معاملے میں ایک فوجی افسر پر سوالات اُٹھ رہے ہوں۔ ”تمام فوجی افسران کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انصاف کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کو ہرممکن مدد فراہم کریں۔“
تفتیش میں مبینہ طور پر رکاوٹ بننے کے حوالے سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوجی حکام نے ناصرف سپریم کورٹ کو گمراہ کیا اور قانونی کارروائی پر اثر ڈالنے کی کوشش کی، بلکہ اس معاملے کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ہی التوا میں ڈالنے کی متعصابانہ کوشش کی، اور اس کے علاوہ ہمیشہ کے لیے اپنی ساکھ کو مشکوک اور قابل اعتراض بناڈالا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ”نہایت احترام کے ساتھ گزارش کی جاتی ہے کہ توہین عدالت کے آرڈیننس مجریہ 2003ء کے سیکشن دو اور تین اور آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت مدعا علیہان کو شوکاز نوٹس جاری کیے جائیں۔“