نقطہ نظر

ہنگو ڈرون حملہ

پاکستان میں حقانی نیٹ ورک پر دوسرا حملہ، نئی مشکل صورتِ حال سے نمٹ سکیں گے؟

کسی بھی زاویے سے دیکھیں، یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے: گذشتہ پانچ برسوں کے دوران، خیبر پختون خواہ کے کسی سیٹلڈ ایریا پر یہ پہلا ڈرون حملہ ہے لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی، اس میں پاکستان کے لیے بیداری کی وجہ موجود نہیں۔ آغاز کرتے اس شرمندگی سے جس کا حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا۔

صرف ایک روز پہلے امورِ خارجہ پر وزیرِ اعظم کے نہایت سینئر مشیر نے سینٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ امریکا نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے معطل رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔

سرتاج عزیز نے احتیاط سے لفظوں کا چناؤ کیا تھا: انہوں نے کہا تھا کہ صرف مذاکرات کے دوران ٹی ٹی پی کو ہدف نہیں بنایا جائے گا اوراس وقت تو مذاکرات ہو نہیں رہے، لہٰذا ایسے میں، ذرا سختی سے کہیں تو، اطلاعات کے مطابق پاکستان کو کرائی جانے والی امریکی یقین دہانی کا اطلاق، حقانی نیٹ ورک سے منسلک مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر نہیں ہوتا۔

ایسے میں کہ جب حکومت پہلے سے مشتعل پاکستانیوں کو یہ یقین دہانیاں کرانے میں مصروف ہے کہ ڈرون حملوں کا خاتمہ جلد ہوجائے گا، اس طرح کے حملے ایک بار پھر مذمتی لب و لہجہ اختیار کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اگر یہ مذمت نرم ہوئی، جیسا کہ ہوگی، ایک بار پھر، یہ قومی گفتگو کے موضوع کو عسکریت پسندی سے ہٹا کر، ان چاہے ڈرون حملوں کی طرف موڑ دے گی اوراصل مسئلہ بنا حل ہوئے ہی رہ جائے۔

گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک سینئر حقانی رہنما کے قتل کے بعد، ہنگو ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کو، پاکستانی سرزمین پر نشانہ بنائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

اگر طویل عرصے سے لڑی جانے والی یہ غیر واضح جنگ، سن دوہزار چودہ میں ملک افغانوں کے حوالے ہونے کے باعث شدت اختیار کرتی ہے تو پھر کون کس کی طرف ہوگا اور پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے اس کے کیا معنیٰ ہوں گے؟

ایسے میں امکانی ضرورت کے پیشِ نظر، شمالی وزیرستان میں موجود اثاثوں کو محفوظ رکھنے کی خاطر، قبائلی علاقے میں آپریشن شروع کرنے سے ریاست ہچکچاتی ہے، جس کے اثرات پاکستان کی باقاعدہ سرزمین کے اوپر اکثر نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے اندر حقانیوں کو نشانہ بنائے جانے سے، ایک ایسا گروپ جو خطّے میں تباہی پھیلانے کی اہلیت ثابت کرچکا، کیا یہ اس کے حملوں میں شدت کے امکانات کو بڑھاتے ہیں؟

پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتاؤں میں، خواہ وردی والا ہو سویلین، کیا کوئی ایسا ہے جو اس نئی صورتِ حال سے اہلیت کے ساتھ نمٹ سکے؟ زیادہ وسیع طور پر، اگرچہ یہ کسی طور بھی کم اہمیت کے حامل نہیں، ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور عسکریت پسندی سے متعلق حکومت کی حکمتِ عملی کیا ہے؟

بڑے افسوس سے کہا جاتا ہے کہ اب مذاکرات کوئی حکمتِ عملی نہیں، ڈرون حملوں نے اسے مبینہ طور برباد کرڈالا لیکن پھر بھی عسکریت پسندی حقیقی اور فوری خطرہ ہے۔

اب ملک میں ایسے ان گنت علاقے ہیں جو عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانے اور جائے پناہ بن چکے۔ اس طرح کے خطرات کی موجودگی میں نہ تو کوئی شخص اور نہ ہی ریاست، مضبوط اور محفوظ ہوسکتی ہے۔

کیا ریاست کے کرتا دھرتاؤں میں ایسا کوئی ہے جو حقیقی قیادت کا اظہار کرنے پر آمادہ ہو۔

ڈان اخبار