نقطہ نظر

بغاوت ضروری ہے

جب کوئی عمل یا روایت اپنی ضرورت اور افادیت کھودیتی ہے تو اس کو نئے سرے سے قابل عمل بنانا ضروری ہوتا ہے

فلسفیوں اور دانشوروں کو دو طبقوں میں رکھا جاسکتا ہے: وہ جو موجودہ اداروں اور روایات کے حامی ہیں؛ اور دوسرے جو ان کے خلاف ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ وقت کے تقاضوں کے منافی اور سماج کے لئے نقصان دہ ہیں-

پرانے خیال کے حامل لوگ پرانی روایات کو اس لئے عزیزرکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں موجودہ نظام کو باقی رکھ کر ہی معاشرے کو مشکلوں سے بچایا جاسکتا ہے-

دوسری طرف ترقی یافتہ نقطۂ نظر ہے کہ روایات اور اقدار کو وقت کے ساتھ ساتھ ضرورتوں کے مطابق بدلتے رہنا چاہئے کیونکہ ہر شے حرکت میں ہے اور جب کوئی عمل یا روایت اپنی افادیت اور ضرورت کھودیتی ہے تو اس کو نئے سرے سے قابل عمل بنانا ضروری ہوتا ہے-

روائتی ہندوستانی دانشور ہندوؤں کے طبقاتی سسٹم کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس کی وجہ سے ہزاروں سال ہندوستانی معاشرے کے بنیادی طبقاتی ڈھانچے کو تحفظ ملا اور طبقاتی جدوجہد کو روک کر اس کی یکجائی کو قائم رکھا گیا-

لیکن بہت سے معاشروں نے اپنے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچوں میں تبدیلی کا عمل جاری رکھا جہاں باغی دانشوروں نے اداروں کی نئے سرے سے تعمیر میں ایک اہم رول ادا کیا جو اس زمانے کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتا تھا جس میں وہ رہ رہے تھے اور یہ سب کچھ کرنے کی ان کو اکثر بھاری قیمت ادا کرنی پڑی-

جب ان باغی دانشوروں نے پرانی روائتوں کو للکارا تو اس وقت کے معاشرے نے ان کی سخت مخالفت کی، ان کا بائیکاٹ کیا اور کچھ نے ان پر بغاوت کا الزام لگایا، ان پر مقدمہ چلایا گیا اور سزائیں دی گئیں-

مثال کے طور پر گیلیلیو (موت 1642ء) کے واقعہ کو لے لیجئے جس کو اس کے خیالات کی وجہ سے سزا ملی تھی- اس کو گھر کی چاردیواری کے اندر قید رکھا گیا تھا اور آئندہ مزید کچھ لکھنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی-

جب ڈیکارٹ (موت1650ء) کو فرانس میں رہنے میں خطرہ محسوس ہوا تو اس نے ہالینڈ میں پناہ لی جہاں اس نے اپنے کو قدرے آزاد محسوس کیا- اگرچہ اسپنوزا (موت1677ء) کو یہودیوں نے اسی ملک میں اپنے”ملحدانہ” خیالات کی وجہ لائق مذمت قرار دیا تھا-

فرانس میں، والٹیئر (موت 1778ء) کو پیرس سے شہر بدر کردیا گیا کیونکہ اس نے مذہبی اقلیت کی مدافعت کی اور چرچ کے خلاف آواز اٹھائی تھی- جب اس نے اپنا خاندانی نام اروئے چھوڑ کر والٹیئر رکھا، تو اشرافیہ کے ایک شخص نے اس پر اعتراض کیا اور نام بدلنے کی وجہ پوچھی تو والٹیئرکا جواب تھا کہ وہ ایک قابل نفرت نام کو چھوڑ کر ایک باعزت پہچان بنانا چاہتا تھا- اس شخص کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اپنے آدمیوں کو والٹئیر کو پیٹنے کا حکم دیا اور اسے بیسٹیل (Bastille) میں قید کردیا- اس کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ اسے پیرس چھوڑنا پڑیگا- تو والٹیئر چند سالوں کے لئے انگلینڈ چلا گیا-

اگران کی زندگی کو اپنے وطن میں خطرات ہوتے یا اگر ان کو ملک بدر کیا جاتا تو یوروپین باغی دانشور کسی دوسرے یوروپین ملک میں پناہ لے لیتے-

جب کارل مارکس (موت1883ء) کو پروشین حکومت نے ملک بدرکیا، تووہ پیرس چلا گیا جہاں سے اسے دوبارہ پروشین حکومت کی درخواست پر ملک بدر کیا گیا- وہاں سے وہ بلجیم چلا گیا اور آخر میں انگلینڈ میں مقیم ہوگیا-

ایمیلی زولا (موت 1902ء) نے انگلینڈ میں پناہ لی جب اس نے فرانس میں اپنے آپکو خطرہ میں محسوس کیا- یہ ڈریفس افیئر(Dreyfus Affair) کے دوران ہوا جب پورا فرانس تین دھڑوں فوج، چرچ اور آزاد سوچ رکھنے والے معاشرے میں بٹ گیا تھا-

ایک شہر سے دوسرے شہراور ایک ملک سے دوسرے ملک گھومتے ہوئے، آخرکار والٹیئر نے جنیوا اور فرانس کی سرحد پر ایک جائیداد خرید لی- جب کوئی بااختیار کیتھولک اہلکار اسے ہراساں کرتا تووہ اپنی جائداد کے اس حصہ پر چلا جاتا جو جنیوا میں واقع تھی اور اگر جنیوا کے پروٹیسٹنٹ افسران اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہتے تو وہ آرام سے فرانس والے حصہ میں چلا آتا- بہرحال وہ اتنا ہر دل عزیز شخص تھا کہ سارے یورپ سے لوگ اس سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے-

زیادہ تر باغی دانشوروں نے زندگی کی سخت ترین مصیبتیں سہتے ہوئے سنگین غربت کے حالات میں زندگی گزاری- روسو (موت1778ء) کومذہب کے بارے میں اپنے خیالات کی وجہ سے مشکل حالات سے گزرنا پڑا- اس کے گھر پر ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے پتھراؤ کیا- وہ اپنے گھر میں تنہا رہتا تھا اور ایک سادہ زندگی گزارتا تھا- گزر بسر کرنے کیلئے موسیقی اس کا سہارا تھی-

یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ معاشرہ عموماً ایسے لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کی روایات پر سوال اٹھاتے ہیں، ان کو باغی گردانتا ہے اور سزا دیتا ہے- اگرچہ کہ والٹئیر اور روسو کو اپنے زمانے کے ارباب اختیار کے ہاتھوں کافی ہزیمت اٹھانا پڑی تھی لیکن بعد میں فرانسیسی انقلاب کے دوران انہیں عزت سے نوازا گیا- انکے جسموں کو باعزت طور پر معبدوں میں دفن کیا گیا جو فرانس کی انقلابی حکومت نے اپنے ہیروؤں کو عزت دینے کیلئے بنایا تھا-

روسو کے سیاسی خیالات کوایک پہچان ملی اور فرانس میں انقلابیوں نے ان کو اپنے آئین کا حصہ بنایا- مارکس، جس نے اپنی ساری زندگی غربت اور تنہائی میں گزاری، شمالی لندن میں ہائی گیٹ قبرستان میں دفن ہے- اس کی قبر پر ہمیشہ تازہ پھول ملتے ہیں، یہ ان لوگوں کی طرف سے عقیدت کا اظہار ہے جو اس کو آج بھی یاد رکھتے ہیں اور ساری دنیا سے اس کی زیارت کرنے کیلئے اس کی قبر پر آتے ہیں-

تاریخ کے ہر دور میں باغی دانشوروں نے تبدیلی لانے میں ایک بہت اہم رول ادا کیا ہے لوگوں کو شعور دیکر ان کے جذبات کو ابھارا ہے کہ وہ فرسودہ روایات سے نجات پانے کیلئے آواز اٹھائیں-

قدامت پرست اداروں اور روائتوں کی جڑیں شائد پاکستان میں اتنی مضبوط ہیں کہ ان کو چیلینج کرنے والا کوئی باغی دانشور موجود نہیں ہے یا شائد دانشور ان سختیوں کو جھیلنے کے لئے تیار نہیں ہیں نہ ہی غصہ سے بھرے ہجوم کے قہروغضب کا سامنا کرنے کی ہمت ان میں ہے- ان کی غیرموجودگی میں ہمارا معاشرہ فرسودہ اقدار اور عقیدوں کے شکنجہ کی گرفت میں منجمد رہیگا-

ترجمہ: علی مظفر جعفری

مبارک علی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔