منافع اور علاج
ہوسکتا ہے کہ مہنگائی کے پھیلتے دائرے میں موجود پاکستانیوں کو اس بدترین باب کا خدشہ نہ ہو لیکن ضروریات زندگی کی بڑھتی قیمتوں کے درمیان، اب دوا سازوں (ڈرگ مینو فیکچررز) نے بھی ادویات کی قیمتوں میں اٹھارہ فیصد اضافے کا مطالبہ کردیا ہے۔
زیرِنظر اخبار میں، گذشتہ روز شائع ہونے والی ایک خبر میں دواسازوں کے عزائم کو دیکھا جاسکتا ہے، جس میں پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے دھمکی دی ہے کہ 'اگر حکومت نے کسی دوا ساز کو ہراساں کیا تو پھر ہم ملک گیر ہڑتال کردیں گے۔'
پاکستان اور ملک سے باہر اس کاروبار کے پھیلاؤ کی بھاگ دوڑ میں حکومتی تعاون کے فقدان کے سبب، دواسازوں میں جو مایوسی پائی جاتی ہے اس کے پیشِ نظر، سخت لب و لہجہ اختیار کرنے پر انہیں جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن یہاں منافع کی کمی بھی ایک کہانی ہے، جو ہمیشہ تکنیکی طور پر، قیمتوں میں ردّ و بدل کا مناسب جواز فراہم کرتی ہے۔
دیگر کی نسبت، بعض حصوں میں یہ صرف زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں حکومت کے ساتھ تین اجلاس کرنے کے باوجود، دواسازوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے نرخوں میں اضافے پر نفی میں سر ہلادیا ہے۔
یہاں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت نے دس روز کے اندراندر نظر ثانی شدہ نرخوں کے اعلان کا وعدہ کیا ہے۔ اس دوران حکام تازہ دم ہو کر یہ وار کرسکتے ہیں جو لامحالہ طور پر، حکومت کی عوام دشمنی پر مبنی پالیسیوں کا ایک اور ثبوت ہوگا۔
ادویات کی قیمتوں میں اس طرح کے اضافے پر نہ صرف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوگا بلکہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی سیاست کرنے کی وجوہات ملیں گی اور وہ ضرور حکومت کو یہ یاد دلائیں گی کہ عوام کو علاج و معالجہ کی سستی سہولت فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
حتٰی کہ معروف سطح پر، دواسازوں اور لوگوں کی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہونے والی متواتر ملاقاتیں، اور ادویات سازوں کی طرف سے قیمتوں میں اضافے کی درخواستیں، اپنی جانب نہ صرف تنقید بلکہ اس تصور کی توجہ بھی مبذول کراسکتی ہیں کہ یہ شعبہ زیادہ منافع بخش ہے۔
ماہرین کی آراء اس عمومی نقطہ نظر کی حمایت کرتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں یہ شعبہ بہت زیادہ پُرکشش ثابت ہوا ہے۔ اقتصادی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ، اپنے اندر کامن سینس کی معقول مقدار رکھنے والی یہ ماہرانہ آراء، مناسب نقطہ نظر پر زور دیتی ہیں۔
ایک ایسے ملک میں کہ جہاں بہت ہی کم تعداد میں لوگوں کو صحت اور علا ج و معالجہ کی مکمل سہولتوں حاصل ہیں، وہاں حکومت کو کم ازکم مارکیٹ اور لوگوں کی قوتِ خرید کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوششیں تو کرنی ہی چاہئیں۔
تمام تر درکار اقدامات کے ساتھ، ایک تجویز یہ دی جاتی ہے کہ ادویات کے با آسانی قابلِ رسائی ہونے کی خاطر، جنرک ڈرگس کی آزادانہ تیاری کے واسطے، سرکاری لائسنس کے اجرا پر بھی ایک سمجھوتہ کرلیا جائے۔
اس طرح، دواسازوں کے مطالبات اور وہ ادویات جنہیں کم سے کم قیمت پر دستیاب ہوناچاہیے، ان کے درمیان حکومت کم ازکم یقینی توازن ضرور قائم کرسکتی ہے۔