نقطہ نظر

محرومِ توجہ

لاپتا بلوچوں کے ورثا کا کوئٹہ ۔ کراچی پیدل مارچ، جب ریاست کو فکر نہیں تو کوئی کیا کرے؟

اگر معاشرے کو اب تک اس کی پرواہ ہے تو پھر یہ ایسی تصویر بناتے ہیں جو کسی معاشرے کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہوگی: مردوں، عورتوں اور کمسن بچوں پر مشتمل تقریباً دو درجن خستہ حال لوگوں کا قافلہ کوئٹہ سے کراچی کے لیے پیدل چلا تھا۔

ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں چلنے والے قافلے کے شرکا نے ہاتھوں میں جو تصویریں اٹھا رکھی ہیں، یہ اُن کے وہ 'لاپتا' پیارے ہیں جنہیں سیکیورٹی اداروں یا انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا اور اب ان کا کوئی سراغ موجود نہیں۔

کراچی سے کوئٹہ تک اس پیدل مارچ کا اہتمام 'وائس آف مسنگ بلوچ پرسنز' یا 'لاپتا بلوچوں کی آواز' نامی ایک ایڈووکیسی گروپ نے کیا، لیکن کیوں؟

اس لیے کہ گذشتہ کئی برسوں سے لاپتا بلوچوں کا مسئلہ موجود ہے اور متعدد سیاسی جماعتوں کی جانب سے نیک نیتی کے ساتھ اٹھائے گئے فوری اقدامات اور سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود، اب تک ان کی بازیابی کے لیے کوئی بامعنیٰٰ پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔

تشدد زدہ اور گولیاں لگی، ان لاپتا لوگوں کی لاشیں صرف صوبہ بھر میں ہی نہیں، حتیٰ کہ کراچی تک سے مل رہی ہیں۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حقائق سامنے لانے کی ہدایات نظر انداز کرتی چلی جارہی ہے، تو یہ ہے مقدر لا پتا بلوچ افراد کے اہل ِخانہ کا۔

اب رہے شہری اور ریاست، تو دکھائی یہ دیتا ہے کہ وہ بلوچستان اور ان کی جائز شکایات، دونوں سے ہی اپنے ہاتھ دھوچکے۔ اب ایسے میں بد سے بدترین ہوتے بلوچستان کے حالات کا حقیقی ذمہ داری کسے ٹھہرائیں؟

بلاشبہ اس کے ذمہ دار وہی ہیں جوماورائے عدالت حراست میں رکھنے اور پھر انہیں قتل کرنے کے حربے آزماتے ہیں لیکن صرف انہیں موردِ الزام ٹھہرانا زیادہ منصفانہ نہ ہوگا، اس کے ذمہ دار وہ شہری، ریاست اور افسر شاہی بھی ہے جو اپنے آنکھوں کے سامنے ناانصافی دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی ہے۔

وجہ سیدھی سی ہے کہ مصائب کے مارے یہ لوگ نہ تو طاقتور ہیں اور نہ ہی اقتدار کی غلام گردشوں میں ان کے حمایتی موجود ہیں؟

اب تو صورتِ حال یہاں تک آ پہنچی کہ مارچ کے شرکا انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ساتھ بھی بات کرنے سے انکار کرچکے۔ 'وائس آف مسنگ بلوچ پرسنز' کے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے ہمیں کئی بار سنا لیکن کیا کچھ نہیں۔'

مارچ میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا کہ 'اگر کراچی میں ہماری آواز کسی نے نہیں سنی تو اسلام آباد جاؤں گا، اگر پھر بھی کچھ نہ ہوا تو میں پیدل سفر کرتا ہوا اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچوں گا۔' کیا ان پاکستانیوں کی دیکھ بھال اب اس طرح ہوگی؟

ڈان اخبار