دولت مشترکہ سربراہ اجلاس۔ میزبان ملک پر الزامات کی بوچھاڑ
کولمبو: کل بروز جمعہ چودہ نومبر کو دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس آج اپنی ماند پڑی ہوئی آب و تاب کے ساتھ آج شروع ہوگا، اس لیے کہ سری لنکا کے صدر مہندرا راجہ پاکسے نے جنگی جرائم کے الزامات پر جمعرات کو شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس اپنے ناقدین سے چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مہندرا راجہ پاکسے جو اس تین روزہ سربراہی اجلاس کی صدارت کریں گے، نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ وہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن تقریر نہیں کریں گے۔
پہلے ہی اس سربراہی کانفرنس کا 2009ء میں ایشیاء کی سب سے ہلاکت خیز خانہ جنگی کے خونی اختتام کی وجہ سے کینیڈا، انڈیا اور ماریشس کے رہنماؤں نے سختی کے ساتھ بائیکاٹ کر دیا ہے۔
سری لنکا کے صدر مہندرا راجہ پاکسے تصادم کے اختتام جس میں تامل نسل پرستوں کی ہلاکتوں کا داغ سنہالی اکثریت کی حکومت کے دامن پر ہے، کی آزادانہ تحقیقات کی اجازت سے انکار پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اداروں کے جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
صدر مہندرا نے کہا کہ وہ ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ سری لنکا کے جزیرے کے شمال میں 37 سالہ تصادم کے خاتمے کے ساتھ سری لنکن فوج کے ہاتھوں چالیس ہزار شہریوں کی ہلاکت کے الزامات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”میں ان کے ساتھ میٹنگ کے لیے تیار ہوں اور ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوا تھا، میں بھی ان کے ساتھ کچھ سوالات کرنا چاہوں گا۔“اس وقت ان کے چہرے پر سختی کے آثار دکھائی دے رہے تھے اور ان کی آواز بلند ہوگئی تھی۔
مہندرا راجہ 2005ء سے سابقہ برطانوی نوآبادی کے صدر ہیں، اپنی انتظامیہ پر عائد کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سختی کے ساتھ دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم سری لنکا میں ایک قانونی نظام رکھتے ہیں۔“
ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس ایک انسانی حقوق کمیشن موجود ہے، جسے اب دولت مشترکہ مضبوط بنانے کے لیے آمادہ ہے۔ اگر یہاں کسی قسم کی بھی خلاف ورزی ہوگی، ہم کسی کے بھی خلاف کارروائی کریں گے۔“
سڑسٹھ برس کے مہندرا راجہ نے کہا ان کی انتظامیہ کو اس تصادم کے خاتمے سراہے جانے کے مستحق ہیں۔
”تیس سال سے یہاں لوگ ہلاک ہورہے تھے، جب سے 2009ء میں ہم نے اس کو روکا ہے، اس کے بعد سے یہاں سری لنکا میں آج کوئی ہلاکتیں نہیں ہورہی ہیں۔“
اس تصادم میں کم ازکم ایک لاکھ افراد نے اپنی جانیں گنوائی تھیں۔
سری لنکا کی حکومت کے ترجمان کیہلیا رامبوک ویلا نے بی بی سی کو بتایا کہ ”ہم ایک خودمختار قوم ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بھی سری لنکا سے کچھ بھی مطالبہ کرسکتا ہے؟ ہم ایک نوآبادیاتی ملک نہیں ہیں۔ ہم ایک آزاد ریاست ہیں۔“
حکومتی افواج کے خلاف الزامات کے ساتھ ساتھ تامل ٹائیگر کے باغی، جو خودکش بم دھماکوں کی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں، پر بھی ہزاروں لوگوں کی ہلاکتوں کے الزامات ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون جو جنگ سے برباد جزیرہ نما شمالی جافنا کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مہندرا راجہ کے ساتھ ”کڑی بات چیت“ کرنا چاہتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے ہندوستان میں مختصر قیام کے دوران اپنے اس بیان کو دہرایا تھا کہ وہ جنگ آخری دور کی مناسب تحقیقات کروانا چاہتے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون نے بائیکاٹ میں شامل ہونے کے سوال کو مسترد کردیا، سری لنکا کی آزادی 1948ء کے بعد پہلے غیرملکی رہنما ہوں گے، جو سری لنکا کے شمالی حصے کا دورہ کریں گے۔
جمعرات کو سی این این -آئی بی این کے ہندوستانی نیٹ ورک سے نشر ہونے والے ایک تبصرے میں انہوں نے کاہ کہ ”جنگ کے اختتام پر کیا کچھ ہوا، اس کی مناسب جانچ پڑتا ل ہونا ضروری ہے، مناسب انسانی حقوق اور جمہوریت کی تامل اقلیت کو بھی ضرورت ہے۔“
ڈیوڈ کیمرون کی آمد سے پہلے، ان کے سیکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے تامل حزبِ مخالف جماعت کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کی، جس نے جافنا میں صوبائی انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے ذریعے مزید خودمختاری کے تامل مطالبے پرکوئی فرق نہیں پڑا، اور ولیم ہیگ نے زور دیا کہ ”حکومت اور تامل نیشنل الائنس (ٹی این اے) دونوں ایک ساتھ سیاسی حل کی جانب بڑھنے کے لیے تعمیری کام کریں تاکہ بامعنی انتقال اقتدار ممکن ہوسکے۔“
دولت مشترکہ کے جنرل سیکریٹری کملیش شرما نے تردید کی کہ یہ تنظیم سربراہی کانفرنس کے میزبان ملک پر اندھا دھند الزامات کی بوچھاڑ کررہی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ سری لنکا میں انسانی حقوق کے ریکارڈ کو دولت مشترکہ میں ایک مذاق بنادیا گیا ہے تو سابق ہندوستانی سفارتکار نے کہا کہ اس تنظیم نے صدر مہندرکی حکومت کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت کی ہے۔
انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ ”انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات سے مذاق نہیں کیا جارہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولت مشترکہ ایکشن میں ہے۔“
پرتھ، آسٹریلیا میں 2011ء کے دوران پچھلے سربراہی اجلاس میں دولت مشترکہ کے رہنماؤں نے مشترکہ اقدار کے ایک ضابطے کی تشکیل پر زور دیا تھا ، جو اراکین کو انسانی حقوق کے احترام کا پابند بنائے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں دولت مشترکہ کے متعلق کہا کہ اب یہ صحیح خطوط پر کام کررہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈم نے کہا کہ ”اگر دولت مشترکہ سری لنکا پر اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور جنگ کے دوران کیے گئے جرائم پر محاسبے کے فقدان کے حوالے سے عوامی دباؤمیں اضافہ نہیں کرے گی، تو بحیثیت ایک عالمی فورم کے اس کی ساکھ کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔“
برسلز، جرمنی کے تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کولمبو نے اپنی بڑھتی ہوئی اسبتدادیت کو نقاب میں چھپایا کر تیزی سے خود کو کمزورظاہر کر رہا ہے۔“ اس میں اس سال کے شروع میں چیف جسٹس کا مواخذہ کرکے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
دو کروڑ کی آبادی میں بارہ فیصد کی اقلیت تامل شہریوں کے خلاف زیادتی کے الزامات کے باوجود صدر مہندرا نے کہا کہ وہ جافنا جزیرہ نما کی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے عزم پر ثابت قدم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”میری پالیسی ہر ایک کا دل جیتنا ہے، چاہے وہ دہشت گرد ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم ان سے بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں، لیکن ہم کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس ملک کو تقسیم کرنے کے لیے کھڑا ہو۔“