قومی مفاد کی ڈکشنری
جس دن سے ماما قدیر کا نمبر میرے ہاتھ آیا ہے میں روز کوشش کر رہا ہوں کہ ماما سے بات ہو سکے لیکن نمبر بند جا رہا ہے۔ مجھے ماما قدیر سے بات کرنی ہے اور بہت ضروری بات۔
ماما قدیر کون ہے؟ وہی ماما قدیر جو عورتوں اور بچوں کے ایک قافلے کا سالار ہے. انہی عورتوں اور بچوں کے قافلے کا جو ماما اور اس جیسے چند اور لوگوں کے ساتھ کچھ دن، نہیں شاید کچھ مہینے یاپھر شاید وہ کچھ سال تھے، بہر حال کچھ وقت کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بیٹھے بیٹھے جب تھک گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ چل کر کراچی پریس کلب کے سامنے بیٹھتے ہیں۔
یہ عورتیں اور بچے یہاں کیوں بیٹھے تھے یا وہاں جا کے کیوں بیٹھیں گے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب میں آپ کو نہیں دے سکتا۔ اس لیے نہیں کہ مجھے اس بات کا پتا نہیں بلکہ اس لیے کہ میرے پاس ایسے لفظ نہیں ہیں جن میں ان عورتوں اور بچوں کی کہانی لکھی جا سکے ۔ میں اپناا یک مسئلہ حل کروانے کے لیے ماما قدیر کو فون پر فون کیے چلا جا رہا ہوں لیکن ماما ہے کہ میرا فون ہی نہیں اٹھا رہا۔
ماما کو فون کرنے سے پہلے بھی میں نے ان لوگوں کی کہانی لکھنے کی کوشش کی تھی لیکن بات کچھ بن نہیں رہی تھی۔ میرے پاس ایک ہی ڈکشنری ہے جس کے پہلے صفحے پر بڑا بڑا لکھا ہوا ہے “قومی مفاد کی ڈکشنری”۔ اس ڈکشنری میں بہت ڈھونڈنے پر بھی مجھے کوئی ایسا لفظ نہیں ملا جس سے ان کی کہانی لکھی جا سکے۔
مفاد کی ڈکشنری میں یوں بھی خسارے اور منافعے کے علاوہ کسی لفظ کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کے ڈکشنری میں لکھے لفظوں کو بھول جاؤں کیوں کہ دیو مالائی داستانیں ایسے لفظوں سے نہیں لکھی جا سکتیں جن کے معنی ڈکشنری میں دبے دبے مر چکے ہوں۔
کیا یہ ایک دیو مالائی داستان ہے؟ شاید ہاں، وہ داستانیں دیو مالائی ہی تو ہوتی ہیں جن میں شہزادے جنگل میں گھومتے سیر دیکھتے کسی ان دیکھی سمت نکل جاتے ہیں، شہزادیاں ان کے انتظار میں عمر بتا دیتی ہیں اور ان کے گھر والے روتے روتے اپنے آنکھیں کھو بیٹھتے ہیں۔
یہ نہیں کہ ماماکی کہانی کسی نے لکھی ہی نہ ہو۔ ایسی کوئی کہانی نہیں ہوتی جسے کوئی نا لکھے۔ لیکن لکھنے والوں نے ان کہانیوں میں قانون کی عملداری، آئین کی بالا دستی، عدلیہ کا وقار، سول حکومت کی رٹ، انسانی حقوق یہ سب لفظ برتے ہیں۔ دیو مالائی داستانوں میں کوئی ایسے لفظ لکھتا ہے بھلا۔
مجھے نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ ماما کی کہانی لکھنے کے لیے یہ سب لفظ بے معنی ہیں۔ یا اگر ان کے معنی تھے بھی تو کہیں کھو گئے۔ یا تو یہ لفظ اس کہانی کے تھے ہی نہیں یا پھر کہانی لکھنے والوں نے لفظوں کی یہ کپاس ماما کی کہانی لکھنے کو اگائی ہی نہیں تھی۔
پھر اتنا تردد کیوں؟
پتا نہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس بھی میری طر ح صرف ایک ہی ڈکشنری ہو۔ خیر ان لفظوں سے یہ کہانی تو نہیں لکھی جا سکتی ۔ پھر ان لفظوں کا کیا کیا جائے؟
میرا خیال ہے کہ ان لفظوں کو کسی اخبار کو عطیہ کر دینا چاہیے۔ اخبار لفظوں کی ری سائیکلنگ مشین ہوتے ہیں پرانے لفظوں کو جھاڑ پونچھ کر بنا سنوار کر نیا کر دیتے ہیں۔ وہ ان لفظوں کا میک اپ بھی کروا لیں گے۔ اخبار والے چھاپنے سے پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ لفظوں کا میک اپ ہو چکا ہو۔
اگر لفظوں کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو وہ چھاپنے سے پہلے ہی کاٹ دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب میں اخبار کے صفحے پر اپنے ناخن کاٹ کر اسے ڈسٹ بن میں جھاڑتا ہوں تو اخبار خدا جانے کیوں خالی ہو جاتا ہے۔ بالکل خالی پیلا صفحہ، ری سائیکلنگ کے لیے بھیجنے جیسا۔
جب ڈکشنری میں لفظوں کا دم گھٹ رہا ہو اور اخبار کے صفحے خالی ہوں تو لفظ کوئی کہاں سے لائے۔ اور لفظ بھی تو ہوتے ہوں گے۔ ایسے لفظ جیسے ماما کا ساتھ چلنے والی ذاکر مجید بلوچ کی بہن نے بولے ہوں گے جب اس سے مجھ جیسے لفظوں کے بھوکے کسی صحافی نے یہ پوچھا ہو گا کہ تم اچھی بھلی پڑھتی پڑھاتی اپنا گھر بار سکول کالج سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے یہاں پریس کلب کے سامنے کیوں بیٹھی ہو اور وہ بھی اتنے سال سے۔
یا شاید وہ لفظ جن میں ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی کیا نام تھا اس کا ہاں صنم بلوچ نے پولیس کو رپٹ لکھوائی ہوگی. ویسے کیا رپٹ میں یہ لکھوایا جا سکتا ہے کہ جن بیٹیوں کا باپ نہیں ہوتا یا ہوتا ہے اور پتا نہیں ہوتا کہ کہاں ہے، ہے بھی یا نہیں وہ بیٹیاں کیا کرتی ہیں، کیسے جیتی ہیں، جیتی بھی ہیں یا نہیں؟
ہو سکتا ہے ماما قدیر نے جلیل ریگی کے بارے عدالت کو بتاتے ہوئے کچھ ایسے لفظ بولے ہوں جوزندہ ہوں۔ ہاں یاد آیا ‘زندہ لفظ’ میں! چلیں یہ مسئلہ تو حل ہوا میں اصل میں زندہ لفظوں سے یہ کہانی لکھنا چاہتا ہوں اورکچھ زندہ لفظ ادھار لینے کے لیے ماما قدیرکو ڈھونڈ رہا ہوں۔
لیکن زندہ لفظوں سے اگر میں نے کہانی لکھ دی تو اسے چھاپے گا کون۔ کہتے ہیں زندہ لفظوں سے لکھی کہانیاں بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ کیوں؟
شاید اس لیے کہ زندہ لفظ بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ انہی بچوں کی طرح جو ماما کے ساتھ کوئٹہ سے کراچی جا رہے ہیں۔ مگر کیوں!؟
پھر کیوں! ایک تو میں اپنے دماغ سے بہت تنگ ہوں اتنے سوال کرتا ہے کہ ایک کہانی پوری کرنا مشکل کر دیتا ہے۔ خیر مجھے نہیں پتا کیوں، ہو سکتا ہے قائد اعظم کا مزار دیکھنے۔
خیر بات لفظوں سے بچوں کی طرف نکل گئی، میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ زندہ لفظ بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جہاں چاہے جو چاہے بول دیتے ہیں جس کا چاہے منہ چڑا دیتے ہیں۔ اس لیے اگر میں نے زندہ لفظوں سے یہ کہانی لکھی تو یہ کسی کا بھی منہ چڑا سکتی ہے میرا یا کہانی چھاپنے والوں کا، ہو سکتا ہے پڑھنے والوں کا ہی منہ چڑا دے۔ لیکن میں یہ رسک لیتے ہوئے بھی یہ کہانی لکھوں گا۔
کہانی چھپے گی یا نہیں یہ تو ذرا دور کی بات ہے ابھی تو مسئلہ یہ ہے کہ وقت گزرتا جا رہا ہے اور ماما میرا فون نہیں اٹھا رہا۔ اگر میری ڈیڈ لائن گزر گئی تو میری کہانی نہیں چھپے گی کم سے کم اس ہفتے تو بالکل نہیں چھپے گی اور اگر کہانی نہیں چھپے گی تو پیسے کہاں سے آئیں گے۔
پھر کیا پتا اگلے ہفتے ماما کہاں ہو گا اور کہانی کس موڑ پر۔ لیکن یہ مسئلہ پیسوں جتنا اہم نہیں ہے۔ کیوں کہ ماما کوئٹہ سے کراچی جا رہا ہے اور وہ بھی پیدل. سوایک ہفتے میں کہاں جائے گا اور رہی کہانی تو وہ ماما سے بھی سست ہے کئی سال ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے۔ گمشدگی، احتجاج، لاشِ، احتجاج، تدفین، احتجاج، اگلی گمشدگی، پھر احتجاج۔ اب تولگتا ہے کہ باقی سب بھی گم ہو گیا ۔احتجاج، احتجاج ،احتجاج، احتجاج۔
ایسی بہت ساری کہانیاں ہیں لیکن میں صرف ایک کہانی لکھنا چاہ رہا ہوں وہ اس لیے کہ سب کہانیاں ایک دوسرے کی نقل لگتی ہیں، ان سب میں سب کچھ ایک ہی طرح ہوتا ہے، سب دوہرایا جاتا ہے۔ نیا اگر ہوتا ہے تو گم ہونے والا۔ ایک بیٹا اس کے بعد دوسرا میرا بھائی اس کے بعد تمہارا۔
زندہ لفظ کہاں ہیں؟ لگتا ہے کہیں کھو گئے ہیں، ہو سکتا ہے انہیں بھی کسی نے اغوا کر لیا ہے۔ لفظوں کے اغوا کی ایف آئی آر کہاں کٹواتے ہیں، ان کی بازیابی کے لیے عدالت میں رٹ کی جا سکتی ہے یا نہیں، کیا لفظوں کو اغوا کرنے کی کوئی سزاہے۔ ماما فون اٹھائے تو اس سے یہ بھی پوچھ لوں۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔