• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

ٹنڈوں کی سیاست

شائع June 11, 2013

پاکستان نیشنل اسمبلی -- فائل فوٹو --.
پاکستان نیشنل اسمبلی -- فائل فوٹو --.

گرمیاں غضب کی ہیں اوپر سے بجلی کی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ۔ بجلی کی آنیوں جانیوں کا حال تو یہ کہ گھنٹے پہ گھنٹا، بس بجے ہی چلا جاتا ہے۔

نہانے کو دل نہیں مانتا کہ پانی اتنا گرم کہ بس پوچھو مت۔ اتنے گرم پانی کو تو بندہ کڑاکے کی سردیوں میں بھی خود پر بہانے کی ہمت نہ کرے کہاں یہ ہمالیہ کے قدموں کی خاک تلے آباد اسلام آباد کے جون کی پسینہ بہاتی گرمیاں۔ اوپر سے جتنی بھوک نہ لگے اتنی پیاس، مانو روٹی سالن کی کمی پانی ہی پوری کررہا ہو لیکن احمد رضا کو چین نہیں۔

جب سے اُن کی محترمہ گرمیاں گذارنے کے لیے میکے کو پیاری ہوئی ہیں تب سے اُن کی پوٹوھاری ملازمہ یا وہ، سالن ترکاری کی فکر میں دن کا کچھ وقت ضرور گذارتے ہیں۔

چک شہزاد کی اب وجہ شہرت جنرل مشرف اور ان کا پُر تعیش قید خانہ بھی ہے مگر اسلام آباد کے شہزادوں کو چک شہزادیوں کے فارم ہاؤس کی تازہ سبزیاں بڑی پسند ہیں۔

جون کی گرمیوں کا جوبن، ایسے میں احمد رضا کی خواہش کہ ترکِ حیوانات کر کے آغازِ سبزیات کیا جائے۔ سو، ہمسائے میں چک شہزاد کے فارم ہاؤسوں کے اُگے اور آمریت کے محل نما قید خانے کے سائے تلے پروان چڑھے، تازہ ٹنڈے خریدے کہ تاثیر ان کی ٹھنڈی اور گرمیوں میں مفرح القلوب ہیں۔

ٹنڈے کیا خریدے کہ بس دل ٹنڈوں میں لگا رہا۔ چھوٹے چھوٹے گول مٹول ہلکی گہری سبز رنگت، حاجی والے بیر سے کچھ بڑے اور سبز بڑے ٹماٹر سے کچھ چھوٹے۔ رات کو ہی میاں رضا کہہ چکے تھے کہ ملازمہ آئے تو اسے ٹنڈے پکانے ہی نہ دیں۔ وہ پوٹوھاری رنگ دے کر ٹنڈوں کا ناس مار دیں گی۔

پوری رات آنکھوں میں کٹی اور جُوں ہی صبح چھ بجے ملازمہ آئیں، فوری حکم دیا کہ ٹنڈے ان کے لیے جنت کے خوشہِ گندم کی مانند شجرِ ممنوع ہیں۔ براہ کرم انہیں پکانے کی نیت سے ہاتھ نہ لگائیں ورنہ ٹنڈے ہم دونوں کے ہاتھ سے جائیں گے۔

یہاں تک تو خیر ٹھیک ہے مگر اب ٹنڈوں کی معرفت جو گیان مجھے ملنے والا تھا وہ شایدِ علم و عرفان کی بُلندیوں پر پہچنے والے اللہ کے کسی نیک بندے کو بھی نہ ملا ہوگا۔

رضا کئی ثقافتی پردوں میں لپٹے ہیں۔ والدہ کا تعلق پنجاب کے قصور سے، والد آگرہ کے، پیدا ہوئے حیدرآباد میں اور نوکری پروان چڑھی اسلام آباد میں۔ سو پنجابی، مہاجر اور پوٹوھاری کھانوں بالخصوص ٹنڈوں اور ہنڈیا میں ان کے رنگوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔

گیارہ بجے سو کر اٹھا تو باورچی خانے سے اشتہا انگیز خوشبووں کی لپٹیں آرہی تھیں۔ پہنچا تو رضا نے ہنڈیا کا ڈھکن ہٹایا، سرخ مائل مصالحے میں، تیل کے تار میں بھنتے ٹنڈے دیکھے۔

ٹنڈے بھی کیا خوب کٹے اور پک رہے تھے۔ ہر ٹنڈے کے دو حصے۔ شاید پہلی دوسری بار میں ٹنڈوں کی یہ شکل دیکھ رہا تھا ورنہ کراچی می تو ہماری اماں اور ہمارے بچوں کی اماں ٹنڈے کی باریک قتلیاں کر کے بھجیا بناتی ہیں۔

فوراً منہ سے نکلا 'بھائی یہ تو پنجابی ٹنڈے ہیں۔' ایک مرتبہ ساہیوال میں ایسے ٹنڈے کھائے تھے، اس لیے پنجاب یاد رہا۔ اب تو پنجاب نواز شریف کے غالب مینڈیٹ کے سبب سب کو پورے پانچ سال یاد رہے گا۔

پنجابی ٹنڈے! اس نے حیرت سے کہا۔ 'ہاں' میں نے جواب دیا۔ چونکہ پنجاب کی غالب اکثریتی مسلم لیگ۔نواز کی حکومت ہے لہٰذا ایسے میں مشرف والے چک شہزاد کے ٹنڈے بھی پنجابی بن گئے۔

کیا حیرت کا نقطہ نہار منہ سمجھ آیا۔ پہلی بار آمریت، جمہوریت اور اپوزیشن کا ٹنڈوں سے تعلق دیکھا: اگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت کی حمایت کرتی تو وفاقی دارالحکومت میں واقع اس گھر میں اُردو بولنے والے ٹنڈے بنتے، ہنڈیا کے مصالحے میں گھٹ چکی بھجیا ہوتی مگر ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہے۔

اس لیے پنجاب کے بھانجے رضا نے ہم کراچی والوں سے ٹنڈے پکانے پر کوئی رائے نہ لی ورنہ ہم بھی ٹنڈوں کی بھجیا کا مشورہ دیتے پر کیا کریں اپوزیشن میں وہ ہیں اور یہ ٹنڈے ہمیں بھگتنا ہوں گے۔

آمریت کا دور ہوتا تو ٹنڈے شوربہ میں پکتے۔ آمریت تو اسی طرح یا خون میں نہلاتی ہے یا حمایت کرو تو بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں پیاروں کو پورا اشنان کرا دیتی ہے، وہ بھی ایسا کہ ایک بار کا نہایا اگلی کئی نسلوں تک کو نہلاتا رہے۔

چونکہ خالصتاً پنجاب کی غالب اکثریت والی وفاقی حکومت ہے تو آمریت کے جاہ و جلال والے مشرف کے ہمسائے فارموں کے پوٹھوہاری ٹنڈے بھی پنجابی ہوگئے تھے۔

ایسا نہ ہوتا تو صدر زرداری کی منظور کردہ اقتصادی کونسل میں وزیرِ اعظم کی صوابدید پر شامل کردہ چاروں ارکان پنجاب سے نہیں ہوتے۔ ایک آدھ اِدھر اُدھرکے چھوٹے موٹے صوبوں والے بھی شامل کرلیے جاتے مگر یہاں تو اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر۔۔۔۔ خیر ہمیں کیا ہم تو ٹنڈوں کی فکر میں ہیں۔

لیکن کیا کریں جب آمریت والے چک شہزاد کے پوٹوھاری ٹنڈے بھی پکنے کے لیے پنجابی بن گئے تو پھر حکومت تو شیر ہے، جنگل کا بادشاہ، چاہے انڈے دے، بچے یا پھر ٹنڈے۔۔۔ مرضی اُس کی۔


 mukhtar-80   مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

مختار آزاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024