ایلین
گزشتہ ماہ مئی کے اواخر میں برطانیہ کی ایک نسل پرست تنظیم ”انگلش ڈیفنس لیگ“ کے افراد نے لندن کے علاقے وول ایچ اور نیوکاسل میں مسلمانوں کی مخالفت میں مظاہرے کیے، اس دوران مظاہرے کے شرکاء نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کچھ توڑ پھوڑ بھی کی، جس پر پولیس نے کئی افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
برطانیہ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے دلوں میں مسلم مخالف جذبات بڑھتے جارہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی لندن کی ویب سائٹ پر شایع کی جانے والی ایک تجزیاتی رپورٹ میں اس بات کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ لندن کے مشرقی علاقے وولچ میں ایک برطانوی فوجی قتل کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ایک دن کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ایک سو باسٹھ واقعات پیش آئے،جبکہ اس سے پہلے روزانہ ایسے پانچ سے چھ واقعات رپورٹ کیے جاتے تھے۔
حال ہی میں ایک افسوسناک واقعہ نامعلوم حملہ آوروں کی طرف سے اسلامک سینٹر کو نذرآتش کرنے کا ہے، تفصیلات کے مطابق شمالی لندن میں واقع الرحمہ اسلامک مرکز کو مبینہ طور پر نسلی حملے میں نامعلوم افراد نے آگ لگا کر تباہ کر دیا تھا۔ آتشزدگی سے تباہ ہونے والی عمارت کے کچھ حصوں پر ای ڈی ایل کے الفاظ لکھے دیکھے گئے، جو ”انگلش ڈیفنس لیگ“ کا مخفف ہے۔ اس اسلامی مرکز کے رہنماؤں کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ واقعہ کچھ دنوں پہلے ولوچ میں ایک برطانوی فوجی کے قتل کے بدلے کی کارروائی ہے۔
اکثر مسلمان رہنما عموماً ان کارروائیوں کو اسلاموفوبیا قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، لیکن یہ کوئی حتمی حل نہیں ہے۔ کنگز کالج لندن میں فلسفے پر ریسرچ کرنے والے عمر کاظم کہتے ہیں:
”برطانیہ اور مغربی کمیونٹیوں میں مسلمانوں پر حملوں اور بڑھتی نفرت کے جواب میں اسلاموفوبیا کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور استعمال کرنے کے نتیجے میں موجودہ صورتحال مزید پیچیدہ ہوجائے گی، چنانچہ بجائے اس کے کہ مسلمان اپنی روایتی جذباتیت کا مظاہرہ کریں، اُن کے لیے یہ وقت اس صورتحال میں مثبت طور پر ردعمل ظاہر کرنے اور جواب کے طور پر اسلاموفوبیا کی ستم رسیدہ منفیت کو مسترد کرنے کا ہے۔ اس طریقے سے ہم اپنی کمیونٹی کی قسمت کے مالک خود بن سکتے ہیں اور اپنی مرضی کا اظہار کرنے اور اپنے لیے بہتر مستقبل کی تخلیق کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔“
افسوس اس بات کا ہے کہ عمرکاظم کی آواز سننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت بالخصوص پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی ایک جاہل مولوی کی بات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
گزشتہ صدی میں جہاں قدرت نے مسلمانوں کو اُن کے ملکوں میں آزادی کی نعمت عطا کی وہیں اُنہیں یہ بھی موقع ملا کہ وہ ترقی یافتہ غیر مسلم ممالک میں نقل مکانی کرکے بڑی تعداد میں آبادہوسکیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان تارکینِ وطن مسلمانوں کی اکثریت اختلافات، منافقت، جمود اور جھوٹے فخر کی نفسیات کی پوٹلی بھی اپنے ساتھ اُن ملکوں میں لیتی گئی۔
یورپ امریکہ میں بھی پاکستان کی طرح مساجد پر قبضے ہوتے ہیں مختلف مسالک کے لوگ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور تمام مساجد الّا ماشاء اﷲ اپنے اپنے مسالک کی تبلیغ کا کام بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ ایک مسلک کی مسجد میں دوسرے مسلک کی کتب یا جرائد رکھنا مسجد کو ناپاک کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ ایک عرصہ تک مذہبی رہنماؤں کے لیے امیگریشن حاصل کرکے قانونی اسٹیٹس حاصل کرنا نسبتاً خاصا آسان تھا اور بہت سے ممالک میں آج بھی ہے، لہٰذا متعدد مساجد اور مذہبی اداروں کی گزشتہ عشروں میں Mushroom Growth ہوئی ہے اور محض مسلمانوں ہی سے نہیں بلکہ انہی کافر اور غیرمسلم ممالک کے مذہبی فنڈ سے رقوم وصول کرکے مساجد اور مذہبی مدرسوں کو پروان چڑھایا گیا، جہاں بیٹھ کر ان ہی ممالک کے غیر مسلم باشندوں کے خلاف جہاد کا درس دیا جاتا رہا۔
امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں موجود بہت سے مسلمانوں نے مذہب سے وابستگی ظاہر کرتے ہوئے مساجد، مدرسے اور اسلامک سینٹرز تو قائم کرلیے، بہت سوں نے اپنی خواتین سے چہرے کا پردہ تو کروالیا، اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیج کر اُنہیں اپنے اپنے مسلک کے اعتبار سے پختہ تو کردیا ہے لیکن کیا وہ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں ایسا کوئی رول ماڈل بھی پیش کر پائے ہیں جس سے اسلام کو امن کا مذہب ثابت کیا جاسکے؟
نائن الیون کے بعد چونکہ اب Scenario منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہے، چنانچہ اب اگر کسی تارکِ وطن مسلمان سے اس اجتماعی کوتاہی کے حوالے سے ذرا تنقیدی گفتگو کی جائے تو وہ سارا الزام مولویوں پر دھر دیتے ہیں....کہ جی! ہمیں مولویوں نے یہی بتایا تھا....سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس عقل اور فکر نہیں ہے یا پھر مولوی صاحب کے سامنے وہ گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟
عجیب بات ہے کہ کاروباری یا دیگر دنیاوی معاملات میں تو ان لوگوں کی خوب عقل کام کرتی ہے لیکن جب معاملہ اجتماعی نوعیت کا ہو تو بس مولوی صاحب فضول بک بک کو بھی کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔
اس کی ایک افسوسناک مثال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مسلمان بھی عموماً ایک متفقہ دن عید بقرعید کا تہوار نہیں مناپاتے ہیں۔ مغربی ریسرچرز نے چاند کی گردش کا پورا نقشہ بناکر انٹرنیٹ پر پیش کردیا ہے۔ لیکن چونکہ مولوی صاحبان اعلان کردیتے ہیں کہ چاند نظر نہیں آیا اس لیے عید نہیں منائی جاتی اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ، باشعور اور اچھے خاصے ذمہ دار عہدوں پر فائز افراد بھی ایک یا ایک سے زائد جاہل اور احمق مولویوں کی تقلید میں عید نہیں مناتے۔
یہ اُن ممالک میں مقیم مسلمانوں کا حال ہے جہاں علم وتحقیق لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہاں کے مسلمانوں کی اندھی تقلید اور صُمُّن بُکمُن کیفیت کا یہ عالم ہے تو ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ تو ترقی یافتہ دنیا سے دو تین صدی پیچھے ہے۔
ہم یہاں ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے اپنے ان تمام قارئین سے ایک سوال کرنا چاہیں گے جو اعلیٰ تعلیمیافتہ ہیں اور ان ترقی یافتہ معاشروں میں تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں، آپ تمام خواتین و حضرات سوچ سمجھ کر جواب دیں کہ کیا صرف مخصوص ظاہری وضع قطع اپنا لینا مغربی دنیا کے لیے کسی قسم کی کشش کا باعث ہوسکتا ہے، یا ان چیزوں کو مسلمانوں کی شناختی علامت قرار دیا جاسکتا ہے؟ اس لیے کہ حجاب تو مغرب میں بعض یہودی عورتیں اور عربی النسل عیسائی خواتین بھی پہنتی ہیں اور عیسائیوں اوریہودیوں کے بعض مذہبی علماء بھی داڑھی رکھتے ہیں!
کیا آپ تمام لوگ اس قدر تعلیمیافتہ اور باشعور ہونے کے باوجود اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اصل پہچان اور شناخت کردار کے ذریعہ سامنے آتی ہے؟
اور مغربی معاشروں میں مسلمانوں کا کردار یہ ہے کہ اُن کے اکثر نمائندے یعنی مذہبی پیشوا مسلمانوں کے مرکزی ادارے یعنی مسجد میں کھڑے ہوکر امریکہ پر لعن طعن کرتے ہیں، یہودیوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں، ماضی کی مفروضہ حکایات و قصائص بیان کرکے گھمنڈ سے سینہ پُھلاتے ہیں، لیکن حال اور مستقبل سے یکسر بے خبر یا لاتعلق رہتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے پڑھے لکھے لوگوں پر کہ وہ ان جاہلوں کے احمقانہ وعظ کو سرجھکائے سنتے رہتے ہیں۔
ایک مغربی مفکر پروفیسر سی ایم جوڈ نے اپنی کتاب Guide to Modern Wickedness "جدید بداعمالیوں کی اصلاح" میں لکھا ہے:
"وہ مشترک جذبات جن کو آسانی سے بھڑکایا جاسکتا ہے اور جو عوام کے بڑے بڑے گروہوں کو حرکت میں لاسکتے ہیں وہ رحم، فیاضی اور محبت کے جذبات نہیں ہیں بلکہ نفرت اور خوف کے جذبات ہیں۔ جو لوگ کسی گروہ کے اوپر قیادت حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک وہ اُس کے لیے کوئی ایسی چیز تلاش نہ کرلیں جس سے وہ نفرت کرے یا وہ کوئی ایسی شخصیت یا قوم نہ پیدا کرلیں جس سے وہ گروہ خوف کھائے۔’’
ہم نے جب پروفیسر سی ایم جوڈ کی تحریر پڑھی تو ہمیں اُس کے اِس نظریہ پر یقین نہ آیا لیکن مسلمانوں کی مجموعی حالت پر جب نظر گئی تو اُس کی بات کی تصدیق ہوتی محسوس ہوئی۔ مسلمانوں نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران جتنی بھی بڑی تحریکیں چلائیں معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اُن میں سے اکثر تعصب اور نفرت پر مبنی تھیں،جتنے بھی لیڈر سامنے آئے اُن میں سے زیادہ تر نے نفرت اور خوف کے جذبات کو ہوا دی۔
کسی فرد یا گروہ کو بُرائی کی علامت قرار دے کر اُس کے پیچھے پڑجانا خود ایک بہت بڑی بُرائی ہے۔ بُرائی کا بیج بویا جائے تو پود ابھی برائی کا ہی نکلے گا اور تناور درخت بن جانے کے بعد وہ پھل بھی برائی کا ہی دے گا۔ بظاہر حق وصداقت کے نام پر اُبھرنے والی اس قسم کی تحریکیں منفی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہیں۔ آج مسلمان تارکین وطن مغربی معاشروں میں ساٹھ برسوں سے مقیم ہونے کے باجود کوئی قابل ذکر اثرورسوخ کے مالک نہیں۔مغرب میں مقیم مسلمانوں کی اجتماعی مفادات سے غفلت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ امریکہ یا کسی دوسرے ترقی یافتہ مغربی ملک میں کوئی بین الاقوامی درجے کا اخبار یا ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم نہیں کرسکے۔ بے پناہ دولت، ثروت اور وسائل کے باوجود ہر شعبے میں زیردست ہیں۔ جب کہ یورپ و امریکہ میں بہت سی اقلیتوں کے اپنے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس ہیں اور وہ بین الاقوامی معیار کے اخبارات بھی شائع کرتی ہیں۔ بھارت کے تارکین وطن ہندو مذہب کے افراد اپنے مذہب اور وطن کے پرچار اور آپس میں یکجہتی کی بناء پر مغربی معاشروں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
ان سب باتوں کے ردعمل میں اکثر مسلمان ایک ہی بات کرتے رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ’’یہ اسلام کے خلاف سازش ہے‘‘....اور اپنی اسی جاہلانہ سوچ کے باعث ترقی یافتہ معاشروں میں ایلین بن کر رہ گئے ہیں!
ہمیں ڈر ہے کہ اگر بیرون ملک مقیم مسلمانوں کی مجموعی ذہنی و نفسیاتی کیفیت مزید اسی طرح خراب ہوتی رہی تو ترقی یافتہ ممالک کے شہری باشندوں کا وہ غصہ جو گرانی اور بے روزگاری کی وجہ سے بڑھتا جارہا ہے، کہیں کسی جنونی مسلمان یا شدت پسند گروہ کی حماقت آمیز جہادیت کی بناء پر اس غصّے کا اُبال ان کے اوپر نہ نکلنا شروع ہوجائے....جو اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود اُن معاشروں کا حصہ نہیں بن سکے ہیں اور ایلین کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس طرز کے کسی نسلی فسادات کی صورت میں عالمی سرمایہ پرست اپنے شہری باشندوں کی فرسٹریشن اور غصے کو ان ایلین پر نکالنے میں ان کی مدد ہی کریں گے کہ اس فرسٹریشن پیدا کرنے میں ان کا قصور ہے اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ دن بہ دن چند ہاتھوں میں سمٹتی جارہی دولت کا مغربی باشندے احتساب شروع کردیں۔
ایسی کسی خوفناک صورتحال کا تصور کرکے ہی ذہن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ تب ان ترقی یافتہ ممالک میں مقیم مسلمان خدانخواستہ ایسی ہی حالت سے دوچار ہوں گے کہ پیچھے پلٹنے کی صورت میں کھائی میں جاگریں گے اور آگے بڑھنے کی صورت میں اژدہے کا شکار ہوجائیں گے۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں