• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

چیف جسٹس کی تنبیہ

شائع July 14, 2012

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری۔—فائل فوٹو

 شدید الجھاؤ اور کھلی افراتفری کے اس دور میں سادہ حکایتیں بارہا شکست کھاتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک ایسی لڑائی میں الجھالیا ہے جس کی وجہ سے کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ جمہوریت کو ایک بار پھر پٹری سے نہ اتار دے مگر چیف جسٹس چوہدری وقتا ًفوقتاً کسی بھی غیر آئینی اقدام کی سوچ رکھنے والوں کو زور دار طریقے سے خبردار کرتے اور یہ وعدہ کرتے نظر آتے ہیں کہ عدالت آئین کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔

عدالتی مداخلت کے دونوں پہلو مساوی طور پر حقیقت پر مبنی ہیں: اس نے جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کو غیر ضروری دباؤ میں رکھ کر ممکنہ طور پر اس نظام کے خطرے میں ڈالنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب براہ راست فوجی حکومت کے خلاف ایک چٹان ہونے کا کردار بھی بخوبی نبھ رہا ہے۔

جنرل مشر ف کے سامنے جھکنے سے انکار کردینے کی میراث آج بھی حیات ہے۔

جہاں تک براہ راست فوجی حکومت کا سوال ہے، تو شاید عوامی سطح پر ملکی تاریخ میں غیر مثالی اتفاقِ رائے موجود ہے کہ فوج کے پاس پاکستان کی مشکلات کا حل موجود نہیں اور اسے حکومت و سیاست سے دور رہنا چاہیے۔

اس نازک مرحلے پر عوام کو سپریم کورٹ کا ساتھ مل جانا، ممکن ہے دیرپا اثرات رکھنے والا تاریخی اتفاق ثابت ہو ۔

برخلاف اس کے کہ حکومت کے خلاف بدعنوانی، نا اہلی اور زر پرستی کے دعوے حقیقت پر مبنی ہیں، جب تک ایک جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کی جگہ تجویز شدہ متبادل راستوں کو بند نہیں کیا جاتا، یہ جمہوری منصوبہ کمزور اور لڑکھڑا کر گرنے کے قریب رہے گا۔

سیاسی طبقے کی اکثریت ،عوام کی بڑی تعداد اور سپریم کورٹ کا اس نظریے پر متفق ہونا ہی مستقبل میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع دے سکتا ہے۔

ان سب کے باوجود، حکومت اور عدلیہ کے مابین جاری زور زبردستی کی بڑھتی اور گھٹتی شدت کے ساتھ جو قیاس موجود  ہے، وہ فوجی حکومت کے بجائے طویل عرصے کی نگراں حکومت کا ہے، جو عرفِ عام میں 'سافٹ آپشن' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

شاید اسی لیے ضروری تھا کہ چیف جسٹس صاحب یہ کہنے کہ ساتھ ہی کہ سپریم کورٹ غیر آئینی اقدام کی راہ میں ڈٹا رہے گا، اس کی تشریح بھی کر دیتے۔ کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ طویل عرصے کی نگراں حکومت آئین کے منافی ہے؟

بڑھتی ہوئی طرف داریوں کے اس زمانے میں حد سے زیادہ جذباتی قانونی حلقہ مصر ہے کہ ایسے نظام کی کوئی نہ کوئی آئینی دلیل تو موجو د ہوگی مگر حقیقت پسند اور غیر جانبدار شخصیات کا یہ کہنا ہے کہ اسے قانونی قرار دینا،موجودہ مشکلات کی جڑ یعنی نظریہ ضرورت کو ایک بار پھر پروان چڑھانے کے مترادف ہوگا۔ چاہے عوام کے بنیادی حقو ق کی رکھوالی کے نام پر اسے کسی بھی رنگ کا برقع پہنادیا جائے۔

سیاسی حلقوں میں پائی جانے والی اس قیا س آرائی کو ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے محض ایک سادہ نفی کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار

تبصرے (1) بند ہیں

Uza Syed Jul 14, 2012 01:18pm
chief justice sahib seems to be possessed by an enormous sense of his personal importance which is neither right nor can be excused.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024