موسم کٹوتی کا
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/94457874" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
ویسے تو اس ملک میں کٹوتی کا کوئی موسم نہیں۔ جہاں سردیوں میں بھی کٹوتی جاری رہتی ہو، وہاں گرمیوں میں کٹوتی کا کیا رونا۔ لیکن اب کی بار کٹوتی بھی کچھ زیادہ ہی ہو رہی ہے اور ہونے بھی والی ہے۔
ووٹ لینے سے پہلے ووٹ لینے والے کٹوتی کے خاتمے کی نوید سنا سناکر تالیاں بھی بجوا رہے تھے تو اپنے حق میں لگے نعروں کی گونج میں گم بھی ہوجاتے تھے۔ اور اب جب سچ مچ کٹوتی کے ماروں کے ووٹ لے کر اقتدار کی دہلیز کو پہنچنے ہی والے ہیں تواپنے کٹوتی کے خاتمے کے وعدوں سے مکرنا شروع ہوگئے ہیں۔
کہتے ہیں یہ تو جوشِ خطابت میں منہ سے نکل گیا تھا اور یہ کہ کٹوتی کا خاتمہ اتنا آسان تو نہیں۔ پہلے اپنی ہی حکومت میں کٹوتی کے خلاف ہنگامے کروا کر امن امان کے مسائل کھڑے کرنے والے دیکھیں اب بھی یہی کرتے ہیں یا پھر قانون نافذ کرنے والوں کو حرکت میں لاتے ہیں۔
یہ بے چاری بھولی بھالی قوم جو ہمیشہ نئے نئے نعروں کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کی عادی ہے۔ یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ ایک دن ووٹ ڈالینگے تو دوسرے دن نئے پاکستان میں ہونگے۔ لیکن یہ نیا پاکستان دن بدن دور ہوتا جارہا ہے۔ ابھی تک تو طالبان کی اجازت ہی نہیں ملی تو بات آگے کیسے بڑھے گی!
پہلے تو الیکشن کروانے کی اجازت نہیں تھی کہ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اگر اجازت دیتا بھی ہے تو صرف چند ہی جماعتوں کے لیے کہ جو دین کے کچھ قریب بھی ہیں۔ لیکن عوام نے تو کسی کی نا مانی اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرکے یہ تو بتا ہی دیا کہ ہم آپ سے اتفاق بھی نہیں کرتے تو آپ سے ڈرتے بھی نہیں۔
باقی اب جو جیت کر آئے ہیں انہیں اپنی جیت مبارک ہو! باری پہلی ہو، دوسری ہو یا تیسری وہ بھی مبارک لیکن یہ بتانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں کہ کٹوتی کا کیا کرینگے؟
کیا کبھی کوئی ایسا دن بھی نکلے گا کہ جس میں کٹوتی کا عذاب نہیں ہوگا؟ ویسے سنا تو یہ ہے کہ کٹوتی کا دائرہ اب بجلی کی فراہمی سے نکل کر اور شعبوں تک بھی پھیلادیا جائے گا کہ اس مملکت خدا دادِ پاکستان کو اور بہت سے شعبوں میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔ ما سوائے دفاعی اداروں کے جن کی کٹوتی کا کوئی مائی کا لال سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ تو غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ البتہ باقی سارے شعبوں میں کٹوتی کرنی ہی پڑے گی۔
ویسےجو بھی نئی حکومت آتی ہے تو ہمیشہ اسے خزانے خالی ہی ملتے ہیں۔ اب کی بار جانے والی حکومت نے تو جاتے جاتے اپنے آخری دن تو وہ کچھ کردکھایا جو اس دن کو بھی یادگار بنا گیا ہے۔
اب پھر تنکا تنکا جوڑکر اور اپنے دفاعی اداروں کو چھوڑ کر پھر سے معیشت کو سنبھالا دینا ہوگا۔ اور میاں صاحب کو بھی قدم پھونک پھونک کر رکھنے ہونگے۔ یوں توانہوں نے بھی اپنے ارد گرد ان ہی لوگوں کو جمع کرلیا ہے جو جہاں لاش دیکھتے ہیں وہیں ڈیرا ڈال دیتے ہیں۔ اب بھی ان کا جی نہیں بھرا۔ کبھی نام بدل کر، کبھی پارٹی بدل کر(نظریہ وظریہ تو ویسے بھی ان کا مسئلہ نہیں) بس کسی بھی طور پر اس زندہ لاش کے قریب رہنا چاہتے ہیں کہ انہیں کچھ نا کچھ نوچنے کو مل ہی جاتا ہے۔
لیکن اب بھی اس زندہ لاش میں روح پھونکی جاسکتی ہے۔ جس جذبے، لگن اور سچائی سے اس قوم نے ووٹ ڈالا ہے۔ اس ووٹ کی طاقت سے یہ پھر سے کھڑی ہوسکتی ہے۔ کٹوتی جہاں بہت ضروری ہے وہاں ہونی چاہیئے۔ بنیادی سہولیات، بجلی، پانی اور گیس کی کٹوتی کے بجائے کٹوتی اس منافعے پر ہونی چاہیئے کہ جس سے یہ منافعہ خور آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں۔
کٹوتی تو وزارتوں میں ہونی چاہیئے کہ کم وزیروں سے بھی ملک چل ہی جاتا ہے۔ پچھلی حکومت کی وزیروں کی فوج کےجانے کے بعد ان چند نگران وزیروں سے بھی ملک چل ہی رہا ہے، تو بعد میں بھی چل سکتا ہے۔
پچھلی سرکار تو لوٹنے اور لٹانے والوں کے ہتھے چڑھی ہوئی تھی۔ اب خدارا یہ لوٹنے لٹانے والی عادتیں چھوڑ کر کچھ کفایت شعاری بھی اپنائیں۔ اور غریب قوم کی جیبیں خالی کرنے کی بجائے کچھ اپنی جیبیں بھی خالی کریں۔ اب آپ لوگوں نے بہت جیبیں بھرلیں۔ کچھ اپنا حصہ بھی ڈالیں اس معیشت میں۔
بجلی آتی نہیں اور بل اس سے پہلے آن کھڑا ہوتا ہے۔ بل بھی اس بجلی کا نہیں جو ہم نے استعمال کی ہے، لیکن اس کا جو آپ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ہم بجلی کا بل نا دیں تو کٹ جائیگی، چاہے بل دو تین ہزار کا ہو اور آپ لاکھوں کے بل ہوتے ہوئے بھی معاف کروالیں یا پھر نیا کنکشن آپ کے لیے تیار رہتا ہے۔
میاں صاحب! اب یہ سب بند ہونا چاہیئے اور جو اپنے ارد گرد آپ پھر سے کچرا جمع کرر ہے ہیں صرف تعداد بڑھانے کے لیے، وہ کسی کام نہیں آئے گا! یہ جیسے دوسروں کو لے ڈوبے، آپ کو بھی لے ڈوبینگے۔ ایک دفعہ ہمت کرکے اپنے ووٹ اور زورِ بازو پر بھی یقین کریں۔
مفاہمت کا راگ تو ہم نے پہلے بھی بہت سنا اور اس کے نتائج بھی دیکھ لیے۔ گنتی اگر پوری کرنی ہے تو ضرور کریں لیکن وہی کھیل دوبارہ نا دہرائیں تو بہتر ہوگا۔ یہ جو تیسری باری آپ کو ملی ہے وہ کچھ دینے کے لیے ملی ہے نا کہ لینے کے لیے۔ لیا تو آپ نے بھی بہت کچھ ہے، اب اس ملک کوکچھ دے ہی جائیں تو بہتر ہے۔
سڑکیں، بلٹ ٹرین، میٹرو بس یا دھماکوں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جو آپ اس قوم کو دے سکتے ہیں۔ تعلیم، روزگار، کاروبار اور سب سے بڑی بات اس لوٹ کھسوٹ، غنڈاگردی اور دہشتگردی سے نجات جو آپ کے ہی ملک کے اداروں کی رضامندی اور مدد سے جاری و ساری ہے۔ آپ انہیں اگر روک لیتے ہیں تو بہت کچھ رک سکتا ہے۔
غریب کو عزت سے روٹی کمانے دیں۔ اپنے بچوں کو عزت سے پڑھانے لکھانے دیں۔ پہلے تو بے چارے گھر سے باہر محفوظ نہیں تھے اب اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ کم از کم یہ تو کر جائیں کہ شریف آدمی اپنے گھر میں تو محفوظ ہو۔
یہ جو اب کی بار ووٹ پڑا ہے، آپ کو اور خانصاحب کو۔ یہ آپ کو یا خانصاحب کو نہیں اس ملک کو پڑا ہے۔ یہ کٹوتی کے خاتمے کے لیے پڑا ہے۔ یہ لوٹنے اور لٹانے والوں کے خلاف پڑا ہے۔ یہ ووٹ گن پوائنٹ پر ووٹ لینے والوں کے خلاف پڑا ہے۔ یہ دہشتگردی اور غنڈا گردی کے خلاف پڑا ہے۔ یہ ووٹ ان کے خلاف بھی پڑا ہے جنہوں نے قومیت، مذہب اور فرقہ پرستی کے نام پر اس قوم کو تقسیم کیے رکھا ہوا تھا۔ اورقوم کی تقسیم کو اپنا ووٹ بنک سمجھا ہوا تھا۔ اب کے سب کی آنکھیں کھل جانی چاہیئیں اور آپ کی تو سب سے زیادہ کہ آپ کے کندھوں پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔
اگر اب بھی کوئی قوم کی آواز کو نہیں سمجھتا اور اس کےووٹ کو پھر سےاپنی ملکیت سمجھ کر وہی کرنے جائے گا جو پہلے بھی ہوتا رہا ہے تو یہ سو دن بھی کم پڑجائیں گے۔ بہت سمجھ بوجھ کے عوام نے یہ ووٹ ڈالا ہے اور امید ہےآپ بھی بہت سمجھ بوجھ کے اس کی لاج رکھنے کی کوشش کرینگے۔
گیارہ مئی کو تو قوم ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلی تھی۔ لیکن اس کے بعد بھی باہر نکل سکتی ہے کہ اب اسے پتہ لگ گیا ہے کہ کڑی دھوپ میں کھڑے ہوکر اپنی رائے دینے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ بھائی صاحب کا حال تو آپ کو معلوم ہی ہوگا!
وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔