• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

!گڈلک جینٹلمین

شائع May 29, 2013

nawaz-imran-670
--فائل فوٹو

حال ہی میں ایک تقریر میں چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس )، جنرل پرویز کیانی نے شدّت پسندوں کی دھمکیوں کو جھٹلانے، اور 11 مئی کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکلنے پر قوم کو خراج تحسین پیش کیا.

ایک مہینے میں چیف آف آرمی اسٹاف نے دو خطاب کیے ہیں جس میں انہوں نے فوج کا انتہا پسند بغاوت کی لعنت اور ملک میں تشدد آمیز واقعات کے حوالے سے فوج کا بیان اور نقطہ نظر بار بار دہراتے ہوے اپنی پوزیشن صاف کر لی ہے.

کسی بھی فوج کے مرد اول نے آج تک اتنا واضح اور شفاف طریقے سے، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ قرا ر نہیں دیا.

نا صرف یہ کہ سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے تفصیلات مبہم، غیریقینی اور چھپی ہوئی رہی ہیں بلکہ فوج بھی جس کے جوان اس خونخوار جنگ میں صف اول پر رہے ہیں، اس جھگڑے میں پاکستان کے کردار پر روشنی ڈالنے میں کسی حد تک ہچکچاہٹ کا شکار رہی ہے.

اس حقیقت کے باوجود کہ 2002 سے ہزاروں پاکستانی شہری، فوجی، پولیس والے، اور سیاستدان انتہاپسندوں کے ہاتھوں مارے گۓ ہیں، پاکستان کے سویلین اور ملٹری حلقے ایسے بیان سے ناوابستہ اور غیر واضح رہے ہیں جو کہ قوم کو وضاحت پیش کرنے کے لئے ضروری ہے اور اس کے جواب میں جنگ کے لئے اس کی حمایت حاصل کریں.

ایسی کسی وضاحت کی غیر موجودگی میں، یہ کام بھی عوام پسند الیکٹرانک میڈیا اور کچھ مخصوص سیاسی پارٹیوں ذمہ داری بن جاتا ہے.

انتہا پسندوں کی بیباک دہشتگردی سے پیدا ہونے والے انتشار کو استعمال کر کے اور تقریباً گمراہ کن طریقے سے یہ بیان کرنا کہ یہ جنگ امریکی سامراجیت کا نتیجہ ہے، میڈیا اور حزب مخالف پارٹیوں نے کچھ ایسا مشکوک اور غیریقین حالات پیدا کر دیے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنی تقاریر میں کوشش کی ہے.

بلکل مناسب اور صحیح وقت پر چیف آف آرمی اسٹاف کو اس بات کی فکر ہوئی کہ عوامی میڈیا اور حزب مخالف پارٹیوں کی طرف سے جنگ کو جو منظرنامہ پیش کیا جارہا ہے وہ کس طرح اس پیچیدہ اور ساۓ کی طرح اوجھل دشمن سے لڑتے ہمارے فوجیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے، وہ دشمن جو سرحد پار ہندوستان سے نہیں آرہے یا آسمان سے نہیں ٹپک رہے بلکہ ہمارے اپنے شہروں، قصبوں اور پہاڑوں سے برآمد ہو رہے ہیں.

بہرحال، ان کا حالیہ بیان ملک کی زیر و زبر تاریخ کے ایک اور دلچسپ دور کے بیچ میں آیا ہے.

کچھ ہی دنوں میں دو مرکزی - دائیں بازو کی جماعتیں پی ٹی آئ اور پی ایم ایل این، مرکز، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں حکومت قائم کرنے جا رہی ہیں.

وہ پارٹیاں جو پچھلی مخلوط حکومت کا حصّہ تھیں، پی پی پی اور ایم کیو ایم، جن کے تحت ملٹری نے انتہا پسندوں کے خلاف بہت سے آپریشن کیے، سندھ تک محدود ہو گئی ہیں. ایک اور انتہا پسند مخالف پارٹی اے این پی، جو کہ پچھلے اتحاد کا حصّہ تھی، اسکا بھی 11 مئی کے انتخابات میں خیبر پختون خواہ سے صفایا ہو گیا ہے.

دونوں پی ایم ایل این اور پی ٹی آئ، انتہا پسندوں سے امن مذاکرات اور ڈائلاگ کے زبردست حامی ہیں. ان دونوں کا 11 مئی کے انتخابات میں پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں استحکام، انہیں اس حد تک جمہوری اعتماد اور حق دیتا ہے کہ وہ اپنے نظریات پر عمل درآمد کر سکیں.

ظاہر ہے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ ایک شہری حکومت، انتہا پسندوں سے بڑے مکالمے کا آغاز کر رہی ہے. 2009 میں ایک ایسے ہی مذاکرات اور ڈیل میں پی پی پی کی قیادت میں اتحاد نے سوات تقریباً انتہا پسندوں کے حوالے کر ہی دیا تھا، لیکن انتہا پسندوں نےبلا جھجھک وہ ڈیل توڑ دی اور پھر وہاں ملٹری کو بھیجا گیا تا کہ علاقے پر کنٹرول واپس حاصل کیا جا سکے.

انتہا پسندوں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار 11 مئی کے انتخابات سے پہلے سابقہ حکومتی اتحاد کی ان تین مرکزی پارٹیوں کے سو کے قریب حمایتیوں اور لیڈروں کا قتل کر کے کیا. ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ ان دہشتگردی کے دوران ہونے والے نقصانات تھے جو کراچی اور خیبر پختون خواہ میں ہوے.

کہا جا رہا ہے کہ پی ایم ایل این اور پی ٹی آئ کے پاس پارلیمنٹ، پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسسمبلیوں میں اتنا مینڈیٹ ہے کہ وہ پاکستان میں قیام امن کے لئے اپنے نظریات پر عمل درامد کے حق کا دعویٰ کر سکتے ہیں. فرض کریں، مذاکرات کی پیشکش انتہا پسندوں کی طرف سے آتی ہے، لیکن صرف اس صورت میں اگر پی ٹی آئ، پی ایم ایل این اور جے آئ جیسی پارٹیاں اس میں شامل ہوں، کافی منصفانہ ہے.

اس حوالے سے یہ پارٹیاں جو چاہتی ہیں انکو پوری حمایت اور گنجائش دی جانی چاہیے کیوں کہ یہ حق انہوں نے ووٹ کر ذریعہ حاصل کیا ہے. لیکن یہ بھی ایک دیکھنے لائق منظر ہوگا کہ کس طرح نواز شریف اور عمران خان جیسے حضرات کس طرح ایسے کٹر لوگوں سے مذاکرات کریں گے جو نا صرف ملک کے آئین اور جمہوریت کو ہی سرے سے مسترد کرتے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت کو پکا ملحد نہ سہی پر جھوٹا مسلمان ضرور سمجھتے ہیں.

سب سے زیادہ نظریں نواز شریف پر جمی ہونگی جن کی پارٹی نے قومی اور پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں لی ہیں.

ایک سیاستدان کی حیثیت سے وہ خان صاحب کی طرح نا تجربہ کار ، مضطرب اور جلدباز نہیں بلکہ کافی حد تک پختہ، تجربہ کار اور شاید اعتدال پسند ہیں.

اگر ان دونوں پارٹیوں نے انتہا پسندوں کو اپنی دہشتگردی ختم کرنے پر قائل کر لیا تو یہ کسی معجزے سے کم نہ ہوگا.

لیکن وہ یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے کس حد تک سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں.

کیا انتہا پسندوں کو معاملات کی منصوبہ بندی کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے لئے کہا جاۓ گا؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہوگا؟ وہ مزاروں، سی ڈی شاپ، سنیما حد یہ کہ پان کی دکان سے بھی نفرت کرتے ہیں.

اور کیا ہوگا اگر مذاکرات ناکام ہو گۓ تو کیا کوئی پلان بی بھی موجود ہے؟

امید کرتے ہیں کہ امن قائم ہو جاۓ اور انتہا پسندوں کو اس حقیقت کا احساس ہو جاۓ کہ پاکستان کی 60 فیصد عوام ووٹ دینے کے لئے نکلی ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے، گو کہ لوگ جنگ کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن جمہوریت پرانکا بھروسہ اٹل ہے، اور اب تو اور بھی بڑھ گیا ہے.

ایک بات اور کہ میاں صاحب اور خان صاحب کو یہ بات ذہین نشین کر لینی چاہیے کہ امن عزت و وقار کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے، اس جنگ میں مرنے والے ہزاروں پاکستانیوں کی یادوں کو داغدار کر کے نہیں.

لوگوں نے آپ کا انتخاب استحکام اور اچھی حکومت کے لئے کیا ہے اور ----------- اور یہ خان صاحب کے لئے زیادہ ہے، آپ کے زرق برق نظریات اور خواہشات کے کی وجہ سے نہیں.

آپ دونوں کے لئے گڈ لک اور جیت امن کی ہو ------ کسی بھی صورت میں.


 ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اورڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan May 29, 2013 07:06pm
یۂ جنگ کس کی هے اور کیوں هے اسکا حل کیا هے اس کو کس نے شروع کیا اور کون ختم کرسکتا هے کون اپنا هے کون دشمن یۂ سب ملک کا ایک پانچ سالا بچہ بھی جانتا هے 2014 سے پہلے پہلے سب کچھ درست کیا جائیگا اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں البتہ کشمیر میں جہاد جاری رکھا جائےگا جوکہ ملک کیلئے موجودۂ جنگ سے حطرناک هوگا اور اسکا زیادہ اثر پنجاب میں هوگا "اللہ هر چیز پر قادر هے"

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024