• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

مستحکم معیشت کی حکمت عملی

شائع May 25, 2013

فائل فوٹو --.

ہم بحیثیت ایک قوم کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس یا تو کوئی جادو کی چھڑی ہے جسے گھمانے سے ہمارے سارے مسئلے حل ہوجائینگے یا پھر یہ کہ اصلاحات نافذ کرنا بجلی کا فیوز لگا نے یا پھر بہتے ہوئے نلکے کو ٹھیک کرنے کی طرح ہے- جیسے کسی الیکٹریشین یا پلمبر کو بلا لیا اور مسئلہ حل ہو گیا-

یا پھر اصلاحات کا مطلب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اصولوں میں اور طریق ہائے کار میں تبدیلی لائی جائے اور ایسے لوگوں کو عمل درآمد کرنے کی دعوت دیجائے جو انہیں کنٹرول کرنے کے ماہر ہیں- اور واجبات کی وصولیابی کا تجربہ رکھتےہوں- یہ ہے اصلاحات کی جانب ہماری سوچ ---- خواہ ان اصلاحات کا تعلق توانائی کے شعبے سے ہو، صحت اور تعلیم سے ہو، مالیاتی شعبے سے ہو یا سرمایہ کاری سے ہو ---- ہم ہر قسم کی اصلاحات کو الگ الگ کرکے دیکھتے ہیں-

بدقسمتی سے معیشت کی مثال ایک مشین کی سی ہے گھر کی سی نہیں- مشین کے اندر تمام چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں- کسی ایک خامی کو ختم کرنے کیلئے ہمیں بحیثیت مجموعی پوری معیشت کو دیکھنا ہوگا- کسی حد تک اسکی ذمہ داری ان اداروں (ڈونرز) پر بھی ہے جو امداد دیتے ہیں- چونکہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اس لئے انکا فطری میلان اپنی مجوزہ پالیسی میں دخل اندازی کے نتائج کو مبالغہ آمیزی سے بیان کرنے کا ہوتا ہے-

ان توقعات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصلاحات کیلئے ناکافی اور کمزورتعاون حاصل ہوتا ہے جسکے نتیجے میں منصوبے وقت سے پہلے ہی ختم کردئے جاتے ہیں گرچہ کہ انکی سمت بنیا دی طورپرصحیح ہوتی ہے- پالیسیوں کو عمل کے جس نظام سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ متوقع نتائج حاصل ہوں، وہ اتنا سیدھا سادہ نہیں ہوتا- اس راہ کے دوران بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جس میں غیر یقینی حالات اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے- چنانچہ، بسا اوقات ذیلی پالیسیوں کواپنانا ناگزیرہو جاتا ہے- اس کے بغیر حتمی نتائج توقع کے برخلاف بھی ہو سکتے ہیں-

اس کو سمجھنے کیلئے بجلی یا توانائی کے مسئلے کی مثال لیجئے جو ایک انتہائی بڑا اور اہم مسئلہ ہے- عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم اس مسئلہ کو حل کرلیں (جیسے کہ یہ مسئلہ دوسرے مسائل سے الگ ہو کر حل ہوسکتا ہے) تو معیشت کا پہیہ چل پڑیگا-

بظاہر تو ہم اگر ایک بار کوشش کرلیں، مثلاً 400 بلین روپیہ چھاپ لیں تو توانائی کی رسد کے مسئلہ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن جب تک ہم بنیادی نوعیت کے چند فیصلے نہ کریں جن کا تعلق بجلی کے شعبے سے بڑھ کر آگے بھی ہے، اس پیسہ سے صرف یہ فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں مزید دو یا تین سہ ماہیوں تک سانس لینے کا موقع مل جائیگا، جس کے بعد سرکیولر قرضوں کا اژدھا ایک بار پھر اپنے بدصورت سر کے ساتھ نمودار ہوگا-

جب تک ہم دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اپنی پالیسی میں وسیع تبدیلی نہیں لائینگے یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوگی، اس کیلئے ضروری یہ ہوگا کہ ہم سخت سیاسی فیصلے کریں اور طاقتور حلقوں کی جانب سے اسکی بآواز بلند پرزور حمائت کی جائے ----یہ کہنا تو آسان ہے لیکن کرنا مشکل-

اس سے پہلے کہ میں اسکی وضاحت کروں، اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ مسئلہ چند مہینوں میں حل ہوسکتاہے- اس کے برعکس ہمیں اگلی دو دہائیوں تک لوڈشیڈنگ کو سہنا پڑیگا- البتہ اس کے گھنٹوں میں کمی آسکتی ہے- جسکے لئے پالیسی میں چند تبدیلیاں کرنی پڑینگی- سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ؛

1) ہمارے پاس توانائی کی قیمت کم ہے --- بجلی پیدا کرنے کے مصارف زیادہ ہیں (اس بات کے پیش نظر کہ بجلی کی چوری کو روکنا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ لیبر یونینوں اور محکمہ جاتی افسروں کا گٹھ جوڑ ہے) جبکہ گاہک سے کم قیمت لی جاتی ہے-

2) بجلی کی قیمت مقرر کرنے کا نظام غلط ہے- بجلی زیادہ صرف کرنے والوں (صنعتوں) سے زیادہ قیمت وصول کی جاتی ہے اورگھریلو صارفین سے کم-

3) پنجاب میں باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین کو سزا دی جاتی ہے وہ اس طرح کہ انہیں زیادہ شرح پر بجلی فراہم کی جاتی ہے جبکہ ان کی قیمت پر فاٹا، واپڈا کے ملازمین اور بلوچستان کے دولتمند کسانوں وغیرہ کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے- اس کے علاوہ سندھ، کے پی اور بلوچستان میں بجلی کی چوری کی سطح زیادہ ہے-

ان مسائل کو کس طرح حل کیا جائیگا کیونکہ اس کیلئے مختلف قسم کے انسٹیٹیوشنل اسٹرکچر کی ضرورت ہوگی مثلا (ڈی آئی ایس سی اوز-ڈسکوز) یعنی بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں، جو صوبوں کے تحت ہونگی- انہیں بجلی صوبائی سرحدوں پر یکساں قیمت پر فراہم کی جائے اس کے بعد قیمت کا تعین صوبے خود کریں؟

یا پھر آیا انہیں نجی ملکیت میں دے دیا جائے؟ اس کیلئے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے مستقبل کے رول کو متعین کرنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہوگی- اور صوبوں کو اختیار دینا ہوگا کہ وہ ہر"ڈسکوز" کیلئے اپنے طور پرقیمت متعین کریں-

ان اقدامات کیلئے مشترکہ مفادات کی کونسل (کونسل آف کومن انٹریسٹس) کی اجازت لینی ہوگی- کیا سندھ، کے پی اور بلوچستان ایسے انتظام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہونگے جس کیلئے بجلی کی شرح میں اضافہ کیلئے فوری طور پر نظرثانی کی ضرورت ہوگی جو ان صوبوں کو زیادہ متاثر کریگا جہاں بجلی کے ضائع ہونے کی سطح زیادہ ہے؟

بجلی کی قیمت میں کمی کرنے کیلئے پن بجلی گھروں اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی-

(اگر ہم اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں کہ عالمی سطح پر اگلی دہائی میں شیل گیس کی دریافت اور ترقی یافتہ ٹکنولوجی کے نتیجے میں بجلی کی قیمت میں کمی ہوگی) ہر پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں سات سال سے زیادہ کا عرصہ لگےگا -----اور یہ مدت کسی بھی حکومت کے دور حکمرانی سے زیادہ ہے---- اور اس دوران مسلسل لوڈشیڈنگ ہوتی رہیگی---- اور ان اسکیموں کیلئے جو اتنے نمایاں بھی نہیں ہونگے قلیل وسائل سے رقومات استعمال ہونگی جنکے فوری سیاسی نتائج بھی دکھائی نہیں دینگے-

مختلف اسباب کی بنا پر مثلاً ملک کی ساکھ (امیج)، ناکافی انفراسٹرکچر کی موجودگی اور آزاد نجی بجلی گھروں کا اذیت ناک تجربہ جس سے وہ بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے گزرتے ہیں وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کی بنا پر بھاری پیمانے پر سرمایہ کاری ہونا مشکل ہے- اور جب تک ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں زبردست اضافہ نہ ہو حکومت کیلئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ مطلوبہ رقوم فراہم کرسکے.

بعض پروجیکٹوں کو ختم کرکے اپنے ترقیاتی منصوبے کو دوبارہ ترتیب دینا ہوگا (معاہدوں کو منسوخ کرنے کی صورت میں جرمانہ بھی دینا ہوگا) بعض منصوبوں کو التوا میں رکھنا ہوگا (پروجیکٹ کے مصارف میں اضافے کی وجہ سے) کھاد اور گیہوں پر دی جانے والی سبسڈیز میں کٹوتی کرنا ہوگی-

علاوہ ازیں، ایک اور فیصلہ لینا ہوگا ---- گیس کے بارے میں جس کی قلت پائی جاتی ہے- توانائی کی قیمتوں کو صارفین کی قوت خرید کے مطابق رکھنے کیلئے یہ قدم اٹھانا ہوگا- کیا اس گیس کو جس پر بھاری سبسڈیز دی جاتی ہے بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کیا جائے یا پھر سی این جی اور صنعت کو ایندھن فراہم کرنے یا پھر کھاد کی پیداوار کیلئے استعمال کیا جائے؟

اس کیلئے اس کی درآمد کے بارے میں فیصلہ لینا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کس حد تک سبسڈیز دے سکتی ہے نیز یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر پانچ فرٹیلائزر کمپنیوں کو دیجانے والی سبسڈیز روک دی جاتی ہے تو اس کے اثرات کیا ہونگے کیونکہ اس میں بھاری سرمایہ کاری ہوچکی ہے-

اس کے علاوہ گیس ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی گیس کمپنیوں کا ٹیرف متعین کرنے کی عجیب و غریب پالیسی میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے- اس وقت تو انہیں اپنے اثاثوں پر 5 .17 فیصد معاوضہ لینے کا حق ہے، جس کے نتیجے میں انہیں اپنے سسٹم کو پھیلانے کی مزید ترغیب ملتی ہے- تاکہ ان کے صارفین کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جبکہ وسائل کی پہلے ہی قلت ہے-

مندرجہ بالا دلائل کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہ صرف توانائی کے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے وقت درکار ہے بلکہ وسیع پیمانے پر پالیسی میں اصلاحات کرنے کی بھی ضرورت ہے جو محض اس شعبے کی حد تک محدود نہیں ہونگی اور اس مضمون کا بنیادی مقصد اسی طرف توجہ دلانا ہے-


 ترجمہ ۔ سیدہ صالحہ ۔

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024