• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

جی-ڈی-پی میں اضافے کا چیلنج

شائع May 16, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

پاکستان میں میکرو-اکنامک مینیجمنٹ ایک بے حد دشوار فریضہ ہے جسکی وجہ سست رفتار معاشی ترقی، مالیاتی اور بیرونی تجارت اور قرضوں کا عدم توازن ہے (معاشی ترقی کی گھٹتی ہوئی رفتار کی وجہ سے آمدنیوں میں بھی کمی واقع ہورہی ہے)

افراط زرکی اب بھی اونچی شرح ----اور اگر اس میں کمی واقع ہو تب بھی، کیونکہ اسکی ایک جزوی وجہ یہ ہے کہ اس کا تخمینہ لگانے کیلئے جو طریق ہائے کاراستعمال کئے جارہے ہیں وہ متنازعہ ہیں اور دوسرے یہ کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں متعین کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا ہے---- نظام کی ساخت میں بنیادی اصلاحات کرنے کے اقدامات کو مسلسل ملتوی کردیاجاتاہے- اور بین الاقوامی ماحول میں بھی غیریقینی کی کیفیت ہے، یہی وجہ ہے کہ میکرو اکنامک مینجمنٹ ایک چیلنج بن گیا ہے-

مندرجہ بالاامور پر میڈیا میں بہت سے تجزیہ نگاروں اور امداد دینے والے اداروں (ڈونرز) نے روشنی ڈالی ہے- اس مضمون میں گزشتہ چارسالوں میں ہونے والی تین فی صد اوسط سالانہ ترقی کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے-

سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ معیشت کے دو اہم پیداواری شعبوں، یعنی زراعت اور صنعت میں کارکردگی خراب رہی، جب کہ اس کے مقابلے میں سروسز سکٹر نے ترقی کی-

اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت نے ترغیبات فراہم کرنے کیلئے قیمتوں کے تعین میں سبسڈیز فراہم کی (گیہوں) اور (کھاد) کی قیمت میں بھی سبسڈیز دی گئی- اس کے علاوہ اشیا کی عالمی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، زراعت میں ترقی کی سالانہ اوسط صرف دو فیصد تھی-

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی کے میدان میں زراعت کا حصہ بارہ فیصد سے بھی کم تھا- اور اس میں بھی تراسی فیصد کا اضافہ مویشیوں کے شعبے کی وجہ سے ہوا جو زراعت کا ذیلی شعبہ ہے- جسکا اپنا چار فیصد سالانہ ترقی کا حصہ بھی حقیقی معنوں میں درست نہیں ہے بلکہ اس کے حصے کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے-

فصلوں کی پیداوارمیں اضافہ کا اثربھی ترقی کی رفتارپر نسبتاً محدود تھا-

مذکورہ مدت کے دوران صنعت کے شعبے میں بیس فیصد اضافہ ہوا اور تقریباً تمام ہی اضافہ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کا مرہون منت ہے- لیکن جیسا کہ مویشیوں کے شعبے کے ضمن میں بتایا جا چکا ہے چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں کی وجہ سے ہونے والی ترقی حقائق پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس مفروضہ کی بنا پر ہے کہ حقیقی معنوں میں 5.7 فیصد ترقی ہوئی ہے- اس مفروضہ کو صحیح ثابت کرنا مشکل ہے جسکی وجوہات درج ذیل ہیں-

(ا) لوڈشیڈنگ کا دورانیہ جو صنعتی شعبے کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس شعبے کے اپنے مالیاتی وسائل ایسے نہیں ہیں کہ وہ بجلی کی سپلائی کو خرید سکے- اور دوسروں سے مسابقت کر سکے-

(ب) اس شعبے کا انحصار بھی دوسرے شعبوں پر ہے- یہ فارمل سکٹر سے سامان خریدتا ہے اور انھیں فروخت کرتا ہے چنانچہ فارمل سکٹر کے حالات بھی اس پر اثرانداز ہوتے ہیں-

(ج) سڑکوں کے جال میں اضافہ ہوا ہے جسکی وجہ سے مقامی منڈیوں تک فارمل سکٹر کی رسائی بڑھ گئی ہے جبکہ ماضی میں مقامی صنعتوں کو اس کا فائدہ پہنچ رہا تھا- مذکورہ مدت کے دوران بڑے پیمانے کی صنعتوں سے پہنچنے والا فائدہ کم و بیش ایک سطح پر قائم تھا-

اس کے برعکس اس ترقی میں سروسز سکٹر کا حصہ ساٹھ فیصد تھا ----اگرچہ اس کا حصہ اور بھی زیادہ رہا ہوگا کیونکہ اس شعبہ کے بڑے حصے کے تعلق سے اکاونٹنگ کی تفصیلی دستاویزات موجود نہیں---- اور اس کا بھی نصف حصہ پبلک ایڈمنسٹریشن، دفاع / سیکورٹی پر صرف ہوجاتا ہے نیز امن عآمہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے نتیجے میں "کمیونٹی سروسز" کا حصہ اور بھی بڑھ جاتا ہے-

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں قومی اعداد و شمار جس طرح تیار کئے جاتے ہیں، معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ظاہر کرنے کیلئے بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ دکھانا ہی کافی ہے- خسارے میں اضافے کی وجہ ضرورت سے زیادہ عملے کی بھرتی، اور تنخواہوں پر نظر ثانی کرتے وقت افراط زر کی بلند ترین سطح کو پیش نظر رکھنا ہوسکتی ہے- ہمارے ملک میں یہی صورتحال ہے- مذکورہ مدت کے دوران سول اور ملٹری عملے کی تنخواہوں میں دگنے سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا-

علاوہ ازیں جی ڈی پی میں ترقی کی بڑی وجہ صرف میں اضافہ ہے- جبکہ سرمایہ کاری کی سطح 22 فیصد سے گھٹ کر 12.5 فیصد رہ گئی نتیجتاً بڑے پیمانے کی صنعتوں، ٹرانسپورٹ اور مواصلات میں کلیدی نوعیت کی ملازمتوں میں سرمایہ کاری کی وجہ سے جو اضافہ ہوتا ہے وہ 45 فیصد سے گھٹ کر 14 فیصد رہ گیا-

اگرچہ حکومت نے مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھنے کی کوشش تو کی لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوئی- حکومت نے اس مقصد کیلئے انفرا اسٹرکچر کے ترقیاتی کاموں کے مصارف (خاص طور پر بجلی) میں کمی کر دی- نیز سماجی خدمات کے شعبہ میں ہونے والے مصارف کو بھی کم کردیا جس کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتارمتاثر ہوئی-

توانائی کی پیداوار میں قلت کی وجہ سے موجودہ مشینیں اپنی صلاحیت سے کم کام کر رہی ہیں جو بصورت دیگر ترقی کی رفتار کی شرح میں اضافے کا سبب بن سکتی تھیں-

چنانچہ ترقی کی شرح رفتار میں اضافہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آلات و اوزار، انفرا اسٹرکچر اور افرادی قوت کی ہنرمندی میں اضافہ کیا جائے- لیکن ان کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے وقت درکار ہے- مزید براں یہ کہ اس قسم کی سرمایہ کاری کے فوائد کچھ وقت کے بعد ظاہر ہوتے ہیں-

ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ شرح ترقی میں اضافے کیلئے سرمایہ کاری کے وسائل کی ضرورت ہوگی جو ملک میں ہونے والی بچت پر منحصر ہے- لیکن مسلسل غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے جس کی مختلف وجوہات ہیں ---بڑے پیمانے پر بیرونی امداد حاصل کی جائے لیکن قرضوں کی شکل میں نہیں--- بالفاظ دیگر، سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ کرنے کیلئے ملک کے اندر کے اداروں، حکومت، کارپوریٹ اور گھریلو بچت کی اسکیموں کے ذریعہ سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہے-

پاکستان کے حالات کے پس منظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں حکومت مددگار ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اسکی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ اپنے سالانہ مصارف خود برداشت کرے- نیز ہمارے ملک میں ٹیکسوں کا جو نظام رائج ہے، اس بات کی توقع کرنا ممکن نہیں کہ مالیاتی محاذ پر کوئی بڑی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے- اس کےعلاوہ دفاع اور نقصان پر چلنے والی پبلک سکٹر کی کارپوریشنوں مثلاً پی آئی اے، ریلویز، اسٹیل ملز وغیرہ کیلئے اور قرضہ ادا کرنے کیلئے بھی بھاری رقومات کی ضرورت ہوگی-

اس بات کی قیاس آرائی کرنا بھی مشکل ہے کہ گھریلو بچت میں کیونکر اضافہ ہو سکتا ہے ----خاص طور پر اس لئے بھی کہ بچت کا انحصار بھی خود ترقی کی رفتار پر ہے اور بچت میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ترقی کا عمل بے روک ٹوک جاری رہے-

مختصراً یہ کہ، گھریلو بچت میں اضافہ ہونا ضروری ہے کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی امداد آسانی سے نہیں ملیگی اور اگر مل بھی جائے تب بھی بیرونی قرضوں کے اپنے مضمرات ہیں-

مندرجہ بالا رکاوٹوں کے پیش نظر اگلے تین چار برسوں میں ترقی کی شرح رفتارکو 5.4 فیصد اور 5 فیصد کی سطح پر لانے کیلئے، خواہ حکومت بزنس فرینڈلی کیوں نہ ہو، مستقبل قریب میں بچت کی سطح میں ڈرامائی اضافہ کرنا ضروری ہے-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024