ملنگ بھٹو مرگیا؟
تھا تو وہ نوشہرہ کے مضافات کے کسی دیہات کا قادرخان خٹک مگر اُس نا خواندہ کی زندگی کا بیشتر حصہ سندھ میں محنت مزدوری کرتے گذرا مگر وہ مزدور سے ملنگ کیسے بنا اور ملنگ بھٹو کیوں کہلایا، شاید کم ہی اس کی اصل کہانی جانتے ہوں۔
یہ سن ستّر کے انتخابات کے قریب کا ذکر ہے۔ ذوالفقار بھٹو اپنی نوزائیدہ جماعت کے پاؤں مستحکم کرنے کے لیے خیرپور پہنچے۔ یہ وہ خیرپور ہے جو سندھ میں تالپروں کی تیسری بڑی اور حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست تھی۔
کہتے ہیں کہ تقسیم سے قبل جب ٹی بی لاعلاج مرض تھا تب موذی مرض کے شکار ریاست کے فرد کو سرکاری خزانہ سے تیس روپے ماہوار وظیفہ، گندم اوراس کے یونانی دوا خانے سے سچے جواہر کے کشتے وغیرہ مفت ملتے تھے۔ یہ وہ ریاست تھی جو جامعہ علی گڑھ کو سب سے زیادہ عطیات بھیجتی تھی۔
مگر پاکستان کے قیام کے ساتھ دور بدلا اور چند برسوں کے اندراندر ریاست نے پاکستان سے الحاق کرلیا۔ یہ اور بات کہ سابق ریاست کے قدیم روایت پر کار بند وضع دار ولی عہد پرنس مہدی بھی کچھ عرصہ پہلے یہ شکوہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ الحاق کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے، پورے نہ ہوئے۔
تو بات یہ کہ ریاست کے الحاق اور ایوب آمریت کے آخری دور میں جمہور کی جو ملک گیر جمہوری لہر پہلے محترمہ فاطمہ جناح اور پھر بھٹو نے پھیلائی وہ سن ستّر تک اچھی خاصی منہ زور موجوں میں بدل چکی تھی۔
بھٹو کا اس جمہوری لہر کے ساتھ ہونے والا خیرپور کا یہ پہلا دورہ نہیں تھا، وہ وزیِرِ خارجہ کی حٰثیت سے پہلے بھی خیرپور آچکے تھے۔ سابق ریاست کے تالپر حکمرانوں کے فیض محل کے بالمقابل واقع سچل سرمست لائبریری کا افتتاح بھٹو کے ہاتھوں ہی ہوا تھا۔ آج بھی لائبریری کے داخلی کُتب خانہ پر وہ سنگِ مَرمَر کی تختی نصب ہے جس کی نقاب کشائی اُن کے ہاتھوں انجام پائی تھی۔
سن ستّر کے انتخابات غریبوں کے دلوں پہ بھٹو کی طویل حکمرانی کا وہ آغاز تھا، جس کا پھل اکیسویں صدی میں ایسے کئیوں کو بھی کھانا تھا جو شریکِ سفر نہ تھے۔ ایسا صرف ایک بار نہیں بلکہ اب تو شاید کئی بار ہونا باقی ہے۔
تو بات یہ کہ قادر خان بھی ذوالفقار علی بھٹو سے روشناس ہوچکا تھا۔
جب پاکستان پیپلز پارٹی بنی تو روٹی، کپڑا اور مکان کا مسحور کُن نعرہ، اوپر سے بھٹو کی جوشیلی وضاحت، لاکھوں دلوں کے ساتھ ساتھ اُس کے دل و دماغ کو بھی اپنے سحر میں جکڑ چکی تھی۔
وہ بھی اُن دو ملوں میں سے ایک میں کام کرتا تھا، جہاں ایک شفٹ میں کم و بیش چار ساڑھے چار ہزار مزدور مجموعی طور پر کام کرتے تھے۔
اُس وقت تک بھٹو اور عوام کی پاکستان پیپلز پارٹی کا چوتھا نعرہ تھا: 'سوشل ازم ہماری معیشت ہے۔' انہوں نے صنعتوں کو قومیانے کی کوشش بھی کرنی تھی۔
لیکن اس سے بہت پہلے اپریل اُنیّس سو تریسٹھ میں مولانا بھاشانی کی جانب سے خانیوال میں کسان کانفرنس سے خطاب کے دوران، ملکی صنعتوں کو قومیائے جانے کامطالبہ ہوا مگر پھر بھی کسی کو اس پر عمل کا یقین نہیں تھا
اسی لیے شاید چنیوٹی میاں بشیر برادران کی اُن دو بڑی ملوں کے علاوہ بھی درجن بھر سے زائد چھوٹی بڑی صنعتیں اُس ضلع خیرپور میں ہزاروں مزدوروں کو روزگار فراہم کررہی تھیں، جنہیں مزدوروں، ہاریوں اور غریبوں کے ووٹوں سےمنتخب حکومت کے وزیرِ صنعت سید قائم علی شاہ کے دور میں اس صنعتی شہر سے ہمیشہ کے لیے ایک ایک کر کے ختم ہونا تھا تھا۔
پیپلز پارٹی نے ستر کے انتخابات جیتے۔ رونے، پیٹنے، خون خرابے اور دو ملکوں کے درمیان امار سُونار بنگلہ کی زمین پر جنگ و جدل کے بعد، یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ یہاں تک تو تاریخ کا سچ ہے مگر تاریخ بہت ظالم ہے اور اس میں قادر جیسوں کوئی جگہ نہیں۔ یہ تو وہ ہوتے ہیں کہ جیتے جی بھی کوئی انہیں نہیں جانتا ماسوائے اُن کے جنہیں اس طرح کے غلاموں اور مستوں کے زندہ رہنے سے فائدہ مل سکتا ہے اور اس کے سوا بس!
بھٹو کی حکومت کیا بنی کہ وہ طبقہ جنم لینے لگا جو آج جیالا کہلاتا ہے مگر اُس عہد کے وہ 'بے نام و بے اصطلاح جیالے' کب کے ملنگ ہوچکے تھے۔ قادر بھی بھٹو پر مر مٹا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے دلدّر دور ہوں گے تو اس حکومت کے ہاتھوں لیکن جب صنعتوں کو قومیانے کا عمل شروع ہوا تو ملک پر صعتی بحران آیا۔
خیرپور کی وہ دو بڑی ملیں ہی بند نہیں ہوئیں، لگ بھگ تمام صنعتیں چوپٹ ہوتی چلی گئیں۔ کیا عجب بات ہے کہ جہاں ڈیڑھ دو درجن چھوٹی بڑی صنعتیں تھیں، وہاں اب ایک ہی چھوٹی سی کمزور اور موسمی صنعت باقی ہے: کرم آباد میں کجھور کی پیکنگ فیکٹری۔
کم گو اور اپنے حال میں 'مست' سید قائم علی شاہ بھی بھٹو کابینہ کے دلچسپ وزیر تھے۔ وزیرِ صنعت تھے اور ان کے دور میں خود ان کے شہر ہی نہیں بلکہ ان کے اپنے انتخابی حلقے میں واقع تمام صنعتیں ملیا میٹ ہوئیں۔
رہا قادر تو وہ بھی ہزاروں دوسرے مزدوروں کے ساتھ بے روزگار ہوا۔ پہلے پہل تنگ دستی، پھر پریشانی، پھر فاقہ کشی، گھریلو جھگڑے اور پھر اُس کی بیوی نے بچے ساتھ لیے اور گاؤں کا رخ کرگئی۔
اسی دوران حکومت ختم، مارشل لا نافذ اور قصوری قتل کیس میں بھٹو گرفتار ہوچکے تھے۔ قادر مسائل کا شکار تھا مگر اس نے بھٹو کو نہیں قائم علی شاہ کو اپنےمسائل کا سبب قرار دیا اور جب بھٹو کی گرفتاری کے بعد قائم علی شاہ روپوشی میں تھے اور فوج کے ڈر سے بھٹو کا نام لینا گناہ تھا، تب وہ جہاں سے گذرتا، دیوانہ وار جیے بھٹو کا نعرہ لگاتا۔
رفتہ رفتہ وہ اس نعرہ مسانہ میں مست ہو کر خود کو بھولتا گیا اور لوگ پہلے اسے پاگل پھر ملنگ اور پھر ملنگ بھٹو پکارنے لگے۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد، ملنگ بھٹو پہلی بارتب اپنے صوفی مرشد کی قبرپر پہنچا تھا، جب جنرل ضیا کے فوجی ڈنڈے کے ڈر سے پارٹی کے رہنما بھی گڑھی خدا بخش کے نام سے ڈرتے تھے۔
اُس وقت بھٹو کے مزارکا کمپلیکس نہیں تھا بلکہ گرد آلود گڑھی خدا بخش کے اس قبرستان میں گارے سے چُنی سرخ اینٹوں کی دیوارکے ساتھ کئی قبروں کے درمیان، ایک کچی قبر تھی، جس پر اکثر سرخ گلابوں کی سوکھی پتیاں پڑی رہتی تھیں۔ یہ رہنما نہیں وہ بہادر ملنگ ڈال کر جاتے تھے جنہیں حاکمِ وقت کے کسی قہر اور مفادات پر زَد کا کوئی ڈر نہ تھا۔
تب مرشد کے مزار پر 'رہنما' نہیں قادر جیسے ملنگ دل کے لہو میں رنگی سرخ گلابوں کی پتیاں اُس پہ نچھاور کرنے آتے تھے کہ جو تاریک راہوں میں مارا گیا۔
وہ رسم منصوری تازہ کر گیا تھا اور یہ ملنگ اپنے مرشد پہ دل و دماغ اور ہوش و حواس ہار بیٹھے تھے۔
سنا تھا کہ جب بینظیر بھٹو نے سن اُنیّس سو اٹھاسی میں انتخابات لڑے تو ملنگ نے نہ جانے کیا کیا جتن کر کے اپنا ووٹ گڑھی خدا بخش میں درج کرایا۔ وہ مرشد کی بیٹی کو یہ ووٹ اپنا حق سمجھ کر دینے نہیں بلکہ بطور قوم کفارہ پیش کرنے کی خاطر ڈالنے گیا تھا۔ وہ تو بعد میں بھی ایسا قرض اتارتا رہا جو واجب بھی نہیں تھا۔ یہ حال ایک کا نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں بھٹو کے لاکھوں کروڑوں ملنگوں کا حال تھا، شاید اب بھی ہو۔
سن دو ہزار آٹھ کے ضمنی انتخابات میں بھی ملنگ بھٹو نے شہید رانی کے حلقے کو ووٹ دیا تھا۔ تب محترمہ بینظیر نہیں فریال تالپر وہاں سے امیدوار تھیں۔ انہیں پڑنے والے ووٹ شہید بی بی کے لیے عقیدت کا تحفہ تھے۔
وہ زندہ بھی گمنام اور بد حال رہا، موت بھی اسے لاوارثی میں آئی۔ چند برس پہلے کچھ جاننے والوں سے سنا تھا کہ ایک رات ملنگ بھٹو لیٹا اور پھر نہ اٹھ سکا۔
چند روز بعد پھر انتخابات ہیں، دیکھتے ہیں کہ ملنگ بھٹو زندہ ہے یا واقعی اُس مرشد کے نام پر مرمٹ کر خاک ہوا، جس کا مزار، عرصہ ہوا جلسہ گاہ بلکہ تفریح گاہ بن چکا۔
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں