• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:49pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:49pm

ذرا بندِ قبا دیکھ

شائع May 7, 2013

zara band e qaba dekh 670
آج بھی ضیائی آمریت کے سائے میں جنم لینے والی بہت سی نیم مذہبی سیاسی جماعتوں کے بعض قائدین گو کہ متشرع تو نہیں لیکن متشرع بزرگوں کو اس لیے قابل قبول ہیں کہ ان کا طریق بھی وہی ہے۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

وہ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا آخری الیکشن تھا۔ جبکہ ہمارے بچپن کے دن تھے۔ ہمارا خاندان کراچی کے جس علاقے میں مقیم تھا، قومی اسمبلی کے اس حلقۂ انتخاب سے نو ستاروں کے قومی اتحاد نے منورحسن کو نامزد کیا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کے مدمقابل جمیل الدین عالی تھے۔ اُن دنوں کراچی کی سیاست پر مذہبی جماعتوں کا قبضہ تھا اور اس بات میں کسی کو ذرا بھی شک وشبہ نہیں تھا کہ منور حسن باآسانی کامیاب ہو جائیں گے، لیکن اس کے باوجود ہمارے خاندان کے اکثر بزرگوں  نے پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ قومی اتحاد میں شامل اکثر مذہبی جماعتیں قیام پاکستان ہی کی شدید مخالف تھیں اور ان جماعتوں کے بعض معتبر قائدین بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے لیے کس قدر غلیظ اور تہذیب سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے رہے تھے، اب یہ قائداعظم کی تعلیمات اور ان کے مشن کے دعویدار کیوں کر ہو سکتے ہیں؟

ضرور ان کی نیتوں میں فتور ہے۔

ویسے بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ مولویوں کی اکثریت کسی مرغ بریانی سے بھرے پُرے دسترخوان پر تو اکھٹا ہو سکتی ہے، لیکن کبھی بھی اسلام کی کسی ایک تفہیم پر متفق نہیں ہوسکتی۔ اگر آج ان روایت پرستوں کو سیاست کے میدان سے نکال باہر نہیں کیا گیا تو کل یقیناً یہ پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست بنا کر دم لیں گے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔

یہ عقل و شعور پر پہرے بٹھا کر لوگوں کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بو دیں گے جس کی بارآوری کے نتیجے میں پوری قوم تہذیب و تمدن کے راستے سے بھٹک کر بربریت و وحشت کے راستے پر چل پڑے گی۔

پھر امن و امان کی مخدوش صورتحال کا براہ راست اثر معیشت پر پڑے گا، یوں مفلسی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ مفلسی ہی جرائم کو جنم دیتی ہے، جرائم میں غیر معمولی اضافہ ہوا تو خدانخواستہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

الحمدللہ! ہمارے بزرگ بہت جہاندیدہ تھے!

ان کی باتیں ہمیں اس وقت تو سمجھ میں نہیں آسکتی تھیں لیکن آج ہم دل کی گہرائیوں سے ان کی بصیرت کے قائل ہوچکے ہیں۔

اس الیکشن میں نوستارہ پارٹی کے متشرع بزرگوں نے اپنے مربی و مشفی کی تقلید میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا، جو اُن کے مربی ومشفی پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

ہمارے ہاں لوگوں کی یادداشت خاصی کمزور ہے، لیکن بہت سے ایسے لوگ یقیناً ایسے ضرور ہوں گے جنہیں یہ یاد ہوگا کہ ہزاروں افراد کے جلسۂ عام میں انہی متقی  بزرگوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے نہایت گھٹیا قسم کے نعرے اور تہذیب سے گرے ہوئے القابات استعمال کیے تھے۔

آج بھی ضیائی آمریت کے سائے میں جنم لینے والی بہت سی نیم مذہبی سیاسی جماعتوں کے بعض قائدین گو کہ متشرع تو نہیں لیکن متشرع بزرگوں کو اس لیے قابل قبول ہیں کہ ان کا طریق بھی وہی ہے، جو خود ان متشرع بزرگوں کا ہے یا ان کے مربّیوں کا ہوا کرتا تھا۔ یعنی خود تو اپنے مخالفین پر دن رات کیچڑ اچھالتے رہیں، لیکن یہ بالکل برداشت نہیں کہ کوئی ان کی طرف انگلی تک اُٹھانے کی جرأت بھی کرسکے۔

آج انتخابات سر پر آچکےہیں، لیکن پنجاب کے سوا بقیہ تین صوبوں میں صورتحال یہ ہے کہ ان صوبوں میں انتخابی مہم تقریباً معطل ہے، الیکشن کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں 69 ہزار آٹھ سو چھہتّر پولنگ اسٹیشن قائم کیے جارہے ہیں، جن میں سے بتیس ہزار تین سو اکسٹھ کو حساس جبکہ ستائیس ہزار ایک سو اکہتر کوانتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔

لیکن اس کے باوجود خودساختہ امیرالمؤمنین ضیاءالحق کے پیروکاروں اور روحانی وارثین کے جلسے اور جلوس اپنی پوری آن بان اور شان سے جاری و ساری ہیں، نہ تو انہیں کسی بم دھماکے کا خطرہ ہے، اور نہ ہی خودکش حملے کا، ان کے قائدین بغیر کسی ڈر اور خوف کے بلٹ پروف شیلڈ کا استعمال کیے بغیر عوامی اجتماعات سے خطاب کررہے ہیں۔ شاید انہیں اس بات کا یقین ہوچلا ہے کہ آئندہ سیٹ اپ میں اُن کو ہی موقع ملنے والا ہے۔

خاص طور پر یہاں جماعت اسلامی کا حالیہ طرز عمل قابل غور ہے، جس کا طریق یہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ انفرادی طور پر اس کے لیے اسمبلی میں پہنچنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، لیکن تاحال وہ تن تنہا انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور اس کی انتخابی مہم بھی پورے جوش وخروش سے جاری وساری ہے، جبکہ جماعت کے قائدین کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات کے التواء کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

بہت سے تجزیہ نگاروں نے گیارہ مئی کے انتخابات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس میں بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے راستے جان بوجھ کر بند  کیے جارہے ہیں۔ ان کے خدشات بے جا نہیں اور نہ ہی ان پر جانبداری کا الزام لگا کر آگے بڑھا جاسکتا ہے، اس لیے کہ الیکشن کمیشن ملک بھر کے چھیالیس فیصد پولنگ اسٹیشن کو حساس قرار دے چکا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی آمد کم ہوگی یا پھر نہ ہونے کے برابر بھی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طورپر خیبر پختونخوا کے بہت سے حساس علاقے ایسے ہیں جہاں پر قائم پولنگ اسٹیشنوں پر ریٹرننگ افسران اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ بعض علاقوں میں تو انہیں عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہیں کہ وہ ایک غیر اسلامی عمل کا حصہ نہ بنیں، جبکہ بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ وہاں جان ہتھیلی پر رکھ کر کون جائے گا؟ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ریٹرننگ آفیسرز کے فرائض اسکول کے اساتذہ  کے سپرد کیے گئے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے، جو پہلے ہی اس صورتحال کی وجہ سے سخت خوفزدہ ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقے دوسرے علاقے کے لوگوں  کے لیے "نوگو ایریا" بن چکے ہیں، ان علاقوں میں انتخابی عمل کی ذمہ داری ادا کرنا کیونکر ممکن ہوگا۔

کیا ایسا نہیں لگتا کہ قومی دھارے میں شامل سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی کو انتخابی عمل سے باہر کردیا گیا ہے؟ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی کم و بیش یہی سلوک کیا جارہا ہے۔

کیا اس طرزعمل کو جمہوریت کہنا چاہئیے؟

اور کیا اس طرز کے انتخابات کے بعد جو حکومت قائم ہوگی، اس کو جمہوری حکومت کہنا مناسب ہوگا؟

دراصل دائیں بازو کی مذہبی اور نیم مذہبی جماعتوں کا روایتی مزاج بھی یہی ہے کہ جمہور کی رائے کا احترام کرنے کے بجائے من پسند روایتی نظریات لوگوں پر زبردستی مسلط کیے جائیں۔ بظاہر یہ لوگ کتنے ہی اعتدال پسند بننے کی کوشش کرلیں، باطنی طور پر عسکریت پسند ہلاکت خیز گروہ ہی کی طرز فکر کے حامل ہیں۔

ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے بہت سے شہروں میں مسلم لیگ نون نے شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مقامی سطح پر انتخابی اتحاد کر رکھے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق: “بعض صورتوں میں تو اس سے بھی بدتر صورتحال ہے، یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ ایک امیدوار کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے جس نے اُسے ٹکٹ دیا ہے، یا پھر سپاہ صحابہ پاکستان اور اہل سنت والجماعت سے۔ سردار محمد آباد ڈوگر کا معاملہ اس صورتحال کو واضح کرتا ہے، جنہیں مسلم لیگ نون نے خان گڑھ، مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے لیے ٹکٹ دیا ہے، سب جانتے ہیں کہ ڈوگر کے سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ہیں  اور انہوں نے سلمان تاثیر کواسلام آباد میں  ان کے سیکیورٹی گارڈ کے قتل کرنے سے قبل کھلم کھلا ان کے سر کی قیمت دوکروڑ لگائی تھی، کہ جو انہیں قتل کرے گا وہ اسے دوکروڑ دیں گے۔”

جب ایک سیاسی جماعت کے یہ چلن ہیں تو سوچیے کہ مذہبی جماعتوں کی سوچ کیا ہوگی؟

یہ انتہائی  قریبی رفاقت اور ذہنی ہم آہنگی ہی کا نتیجہ تو ہے کہ آج تک دائیں بازو کی جماعتوں میں سے کسی نے کھل کر دہشت گردوں کے حملوں کی مذمّت نہیں کی، اور خصوصاً انتخابی مہم کے دوران ہونے والے حملوں کے حوالے سے تو گویا سب کو سانپ ہی سونگھ گیا ہے۔ کہیں یہ  ہلاکت خیز گروہ آج کل انہی جماعتوں کے ایجنڈے پر ہی تو عمل پیرا نہیں ہے؟

دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنماؤں سے جب اصرار کرکے دریافت کیا جائے کہ آپ بربریت کے اس کھیل کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ  یہی کہتے ہیں کہ یہ سب تو امریکہ کروارہا ہے! چلیں حضرت مان لیا، یہ سب امریکہ ہی کروارہا ہے، اور وہ ایک ایسی قوم سے خوفزدہ ہے جو محلے کی سطح پر تو کیا گھر کی سطح پر بھی متحد نہیں ہو پاتی۔ جس نے ایٹم بم تو بنالیا ہے، لیکن بجلی نہیں بناسکی۔ مان لیتے ہیں آپ کی بات! کہ امریکہ ایک ایسی قوم سے خوفزدہ ہے جو اخلاقی، معاشرتی اورمعاشی  طور پر انتہا درجے کی مفلسی کا شکار ہے، تو اللہ کے بندو جو لوگ آپ کے خیال میں امریکہ کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں، ان کو اپنی زبان سے بُرا کیوں نہیں کہتے؟


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Anwar Ahmad May 07, 2013 08:24am
یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ یہی حضرات 73-74 کے آئین کی تدوین میں بھٹو صاحب کے ساتھ تھے. اس کے بعد آئین میں مبنی بر مذہبی منافرت شقوں کو شامل بھی تو سیکولر اور سوشلسٹ بھٹو صاحب نے ان ہی کٹھ ملاؤں کو خوش رکھنے کے لئے کیا تھا. بعدمیں جو کچھ بھٹو صاحب کے سات انہوں نے کیا وہ تو سب کو ازبر ہے.

کارٹون

کارٹون : 21 اپریل 2025
کارٹون : 20 اپریل 2025