رقص میں ہے سارا جہاں
اگر رقص وجود میں متحرک آگ کے لپکتے شعلے کا جاودانیِ زندگی کے ساتھہ ہمقدم ہو کر فطرت کے ازلی ساز کے ردھم پہ ہم آہنگی کا دوسرا نام ہے تو بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ھے کہ ستائیس اپریل کو جب سہائ ابڑو اور اسکے جواں سال ساتھی T2F میں رقص پیش کر رھے تھے تو اس وقت ہر دیکھنے والی آنکھ روح و جسم کی قدرت کے ردھم سے ھم آھنگی کے ساتھ رقصاں تھی۔
یہ سہائ ابڑو اور انکے کچھ ساتھی تھے جو معجزہِ تخلیق کا خواب آنکھوں میں لیے، اس دھرتی میں رقص کی زباں عام کرنے نکلے تھے جہاں آرٹ اور تخلیق کے اظہار پہ تازیانے گیلے کرنے کی روایات اب سر پکڑ چکی ہے۔
رقص کے عالمی دن کے موقعے پہ سہائ کی طرح زندگی کی نئی امنگ آنکھوں میں لیے اسکے ساتھی سارے جھان کے رقص کو سمیٹ کر اس جگہ لے آنے میں یوں کامیاب ہوئے کہ کراچی کی ایک سڑک پہ ہجوم عام کے بیچ بلوچ لیوا گروپ کے رقص کا حقیقی آگ کے شعلے کے ساتھ مقابلہ ٹھہرا۔
لوگوں کی دلچسپی اور محویت کا یہ عالم تھا کہ ڈھول کی تھاپ پہ شاملِ ہجوم کی جنبشِ سر بھی اس منظر کا حصہ بنی اور فلیٹوں کی کھڑکیون کے تاک بھی کھلنے لگے کہ مکین بھی اس عوامی رنگ لیے بلوچی تھاپ سے محظوظ ہو سکیں۔ اور جیسے کائنات پوری عالمِ رقص میں ھو۔
’’رقص میں ہے سارا جہاں‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیئے گۓ اس پروگرام کو ’عورت آزاد‘ اور میڈیا گروپ ’آکسیجن‘ کا تعاون حاصل تھا۔ عورت آزاد کا ادارہ اس سے پہلے بھی آرٹ و ادب اور خواتین کے فروغ کے لیئے دو کتابوں کی اشاعت کے ساتھ، شاعری کے عالمی دن کے حوالے سے پروگرام کرتا رھا ھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ماضی کی سندھی گلوکاراؤں --جو معاشرتی دباؤ کے زیر اثر گلوکاری ترک کرنے پہ مجبور ھوئیں-- کے انٹرویوز پہ مبنی ایک تخلیقی دستاویز بھی ’عورت آزاد‘ کے کریڈٹ پہ ھے.
سہائ ابڑو؛ جس نے سارے جہان کے رقص کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا، خود سات سال کی عمر سے رقص کی با قاعدہ تربیت لینے کے بعد اب پروفیشنل کیریئر کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ بہت چھوٹی عمر میں ھی ایک منجھی ہوئی کوریوگرافر کی حیثیت سے بھی اپنا نام پیدا کر چکی ہیں۔
سہائ ابڑو بنیادی طور پہ بھارت ناٹئم میں مشھور رقاصہ شیما کرمانی کی تربیت یافتہ ھیں اور بلاشبہ شیما جی وہ پہلی خاتون ہیں جس نے رقص سے سماجی آگاہی کا کام بھی لیا اور اسی آرٹ و آگہی کے سنگم کو سہائ بھی آگے بڑھا رھی ہیں۔ بم دھماکوں اور سائرن بجاتی ایمبولینس کے شور میں سہائ کا سازو رقص کی بات کرنا کچھ ایسا ھی تھا جیسے سندھی کے شاعر ایاز نے کہا تھا۔ ~ تھی تند وڑھے تلوارن ساں (ساز کی تار تلواروں سے لڑ رہی ھے)
ڈانس بلاشک ہمارے جیسے معاشروں میں جگہ بنانے میں ناکام مگر اب سہائ کی نسل اس کو پوری لگن سے عام کرنے پہ تلی ھوئی ھے۔ سہائ کے اس پروگرام میں اسکے ساتھ فنکاروں میں سے منور چاؤ(مانی)، بھارت ناٹئم کے ساتھ ماڈرن اور لوک ڈانس پرفارمنس بھی دے چکے ہیں اور گذشتہ 25 سال سے اپنی پرفارمنس کے ساتھ مختلف اسکولوں میں آرٹ و ڈانس کی تربیت بھی دے رھے ہیں۔
زیب و ہانیہ کی وڈیو میں نظر آنے والی آسٹریلین آرٹسٹ جوشیندر چھگر بھی کئی سالوں سے پاکستان میں پرفارم کر رھی ہیں، اسٹیج پرفارمنس کے ساتھ وہ ڈاکیومنٹری اور دیگر فلم وغیرہ میں بھی دلچسپی لیتی رھی ہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹ کے گریجوئٹ رجب علی سید ماڈرن مغربی رقص میں تکنیک کی مہارت رکھتے ھیں اور ویژول آرٹ میں پروفیشنل مہارت کے ساتھ سامنے آئے ھیں ان کے ساتھ خیستہ خان بھی تھی جو عراقی و غزنی نسل سے تعلق کے بنا پر اپنے رقص میں کردوں اور افغانی ساز ولئے کی آمیزش لیئے ھوئے تھی۔
’’رقص میں ھے سارا جہاں‘‘ ان ہی جواں سال آرٹسٹوں کی ان تھک محنت اور لگن کا نچوڑ تھا جس کو سہائی ابڑو کی کوششوں نے بالآخر ایک چھت کے تلے سمیٹ لیا تھا۔
پروگرام کی شروعات سے پہلے ہی فلور ہاؤس فل ھو چکا تھا۔ سہائ اور منور چاؤ نے منچ پہ آتے ہی حاضرین کو اپنے ڈانس سے مسحور کر لیا۔ ابتدا کلاسیکل ڈانس کے ٹچ سے ہوئی جس نے حاظرین کے روح و دماغ پر اپنی گرفت جما لی۔ چونکہ دونوں آرٹسٹ ہی کلاسیکل بھارت ناٹیم میں مہارت رکھتے ھیں اس لیے انکے جسمانی حرکات اور چہرے کے تاثرات کے اتار چڑھاؤ سے بھر پور ڈانس معنی لیئے ھوئے تھا۔
ایک خوبصورت اور مغربی تکنیکی مہارت سے بھرپور رجب علی سید جدید ڈانس کے تقاضوں سے ہم آھنگ ایسی کیفیت کی عکاسی کرتا نظر آیا جس میں فرد خود کوجکڑتی مختلف کیفیتوں سے نبردآزما نظر آیا۔ رجب علی سید کا یہ ڈانس علامتی انداز میں شخصی کرب و ازیت کی ایک بھرپور تصویر پیش کر رھا تھا جس میں احساسات ہی نظر آئے۔
سہائ اور جوشندر چھگر کا ڈوئٹ جو جگت مشہور ایرانی موسیقار استاد حسین علی زادہ کی دھن پر مبنی تھا، بھی عورت کے جسم میں آزادی کی تڑپ اور اسکی دریافت کے متعلق تھا جس میں دوسری عورت روایتی کردار کے بر عکس سہارا دیتی ہوئی ایک دلدار کی صورت میں ظاہر ھوتی ھے، جو اسکے جسم میں قید جشن کو رقص کی صورت آزاد کرنے اور اپنے اندر سے خوشی دریافت کرنے میں مددگار ثابت ھوتی ھے۔ کمال درجے کی کوریو گرافی میں دونوں آرٹسٹ جدید رقص کا نمونہ پیش کرتی نظر آئیں۔
کلاسیکل اور جدید مغربی ڈانس کے ساتھ ساتھ صوفی رقص بھی اس بہت عر صے تک یاد رکھی جانے والی محفل کا نمایاں حصہ تھا، جس میں ایک بار پھر سہائ سبقت لے گئی۔ صوفیانہ ڈانس نہ صرف اس خطے کا علامتی شناختی کارڈ سمجھا جا تا ھے بلکہ یہ ایک ایسی روحانیت کی طرف لے جاتا ھے جہاں دوسرے کا وجود عدم ھے۔ ساری انسانیت کو ایک لڑی، ایک روح اور ایک جسم میں جذب کرنے والے اس راستے کی تلاش بلاشبہ اس نسل نو کا اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے اور وہیں سے سکون ِقلب اور احساسِ امن و آشتی حاصل کرنے کا عمل قرار دیا جا سکتا ھے۔
حقیقت تو یہ ہے اس خطے کی بقا بھی اسی کے ساتھ مشروط ہے کہ دوسرے اور دشمن کا تصور وجود میں روح و قلب کا حصہ بن جائے۔ سہائ اور اس کے ساتھی اگر سنجیدگی سے جدیدیت کو اس روحانی ثقافتی ورثے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے رہے تو کوئی شک نہیں کہ مٹی کی خوشبو سے مزین آرٹ کا یہ نمونہ پھر سے ہمارے گمشدہ ماضی کی شناخت کو تلاش کر لے۔
آخری آئٹم خیستہ خان کا چترالی و افغانی سنگم پہ مبنی وہ لوک رقص تھا جس نے پہاڑوں کی سی دھن پہ حاضرین کو محظوظ کرنے کے علاوہ اپنے کلچر کی روایات کو ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔
اس صوفیانہ ٹچ کے بعد ابھی کلچرل رنگ اور لوک رس باقی تھا یہ بھی اس محفل کی خاص بات ٹھہری کہ رقص صرف بند ھال کے اندر تک محدود نہیں تھا بلکہ ہال سے باہر آزاد فضا میں سڑک کے بیچوں بیچ لیاری سے آنے والے لیوا گروپ کے بلوچ نوجوان محوِ رقص تھے اور انکا رقص بھی لمحے بھر کے لئیے سانسوں کو منجمد کر دینے والا تھا کہ ڈھول کی تھاپ پہ تھرکتے یہ نوجوان آگ سے یوں کھیل رھے تھے کہ آگ کے شعلے صرف انکے منہ سے ہی نہیں نکل رھے تھے مگر دورانِ رقص وہ کبھی اس آگ کو چاٹتے نظر آئے تو کبھی خود کو خطرناک حد تک جلاتے نظر آئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے لیوا رقاصوں نے وہ سماں باندھا کہ رقص صرف ان تک محدود نہیں رہا بلکہ سڑک کنارے کھڑے ہجوم کے پاؤں بھی اس ردھم پہ تھرکنے لگے اور ایسا لگنے لگا جیسے رقص میں ہے سارا جہاں۔۔۔
امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔