بلا، شیر اور باقی کے نشان
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/90283867" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
بلا ہی ہے جو آجکل بڑھ بڑھ کر بول رہا ہے اور ساتھ میں بڑی بڑی بڑھکیں مار کر سلطان راہی کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ دعویٰ تو بلّے نے یہ بھی کردیا ہے کہ اس نےشیر کی ایسی پھینٹی لگائی ہے کہ شیر بھی عمر بھر یاد رکھے گا۔
معلوم نہیں کیوں خانصاحب نے نام تو اپنی پارٹی کا تحریکِ انصاف رکھا ہے۔ لیکن انصاف کا نشان جو کہ میزان ہے، وہ اپنی پرانی جماعت کے پاس ہی رہنے دیا ہے۔ شاید وہ انصاف جماعت کے ساتھ ہی مل کر دلائینگے۔ اور بلا اپنے پاس ہی رکھا ہے کہ انصاف کا تو صرف نام ہے۔ اصل میں تو سب سے زیادہ دلچسپی وہ باری لینے میں ہی رکھتے ہیں اور اس کا ذکر انکے ہر دوسرے جملے میں آہی جاتا ہے۔ ‘ہن جان دیو جی تے ساڈی باری وی آن دیو جی’
ویسے بھی اپنے پیارے پاکستان میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور جوکھیل مستقبل میں کھیلنے کا پروگرام ہے، اس میں تو خانصاحب جیسے ماہر بلّے باز کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر انہیں باری مل جاتی ہے تو آپ دیکھیئے گا کیسے کیسے چھکے لگیں گے۔ گیند تو گراؤنڈ سے باہر ہی گرے گی۔ انکے کھیل میں تو سامنے باؤلر بھی اتنا ہی ماہر ہونا چاہیئے جتنے ماہر وہ بلّے باز ہیں۔
لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ فی الحال تو خانصاحب بھی بلّے سے صرف شیر کو پھینٹی لگانے کا کام لے رہے ہیں۔ دیکھیں نئے پاکستان میں وہ باقیوں کو بھی پھینٹی لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر کھیل کو ایمپائر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے پچھلے پینسٹھ سالوں سے ہوتا آیا ہے۔
اپنا شیر جو جنگل سے نکل کر آجکل پھر شہروں میں دکھائی دے رہا ہے۔ جو کہتا تو اپنے آپ کو شیرِ پنجاب ہے۔ لیکن پاکستان پر حکومت کرنے کا یہ موقع گنوانے کے لیے بالکل تیار نہیں۔
جتنا باری کا انتظار بلّے نے کیا ہے، اتناہی انتظار اپنے شیر پنجاب نے بھی کیا ہے۔ یہ بھی سعودی شیخوں کی مہربانی ہے کہ اتنے مشکل انتظار میں اپنے شیرِ پنجاب کو دنیا جہان کے آرام اور سہولیات بہم پہنچائیں تاکہ وہ جلاوطنی کے دن بھی آرام سے گذار سکے اور زیادہ چیخے دھاڑے نہیں۔
اب جب وقت آیا ہے کہ یہ شیر رائے ونڈ کے محل سے اسلام آباد کے محل میں منتقل ہو تو درمیان میں بلا آگیا ہے۔ ویسے دونوں میں تکرار صرف باری پر ہے۔ باقی دونوں کے خیالات، نظریے، منصوبے اور تو اور پیچھے کھڑے حمایتی بھی ایک ہی ہیں۔ لیکن یہ جو باری کا چکر ہے اس نے دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
ویسے دونوں کے پیچھے کھڑے حمایتی بالکل اطمینان سے ہیں کہ انہیں تو معلوم ہے بلا جیتے یا شیر، جیت تو ان ہی کی ہوگی۔ سو وہ خاموشی سے دونوں کے جلسے کامیاب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ادھر شیر دھاڑ رہا ہے تو ادھر بلّے کی بڑھکیں ہیں۔
لیکن یہ سب شور شرابا اپنے پنجاب میں ہی ہے کہ پچھلے پانچ سال میں پنجاب نے ہی بھگتا بھی ہے تو اس میں احساسِ محرومی بھی پیدا ہوگیا ہے۔ یہ چھوٹے صوبے جن کی پاکستان میں کوئی حیثیت نا پہلے تھی نا مستقبل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
انہوں نے پنجاب جیسے بڑے صوبے کو احساسِ محرومی میں مبتلا کردیا ہے۔ اب اس احساسِ محرومی کوختم کرنے کے لیے یا تو شیر کو باری دینی پڑے گی یا پھر بلّے کو۔ باقی صوبے تو خوامخواہ الیکشن کے چکر میں پڑے ہیں۔ انکے لیے بھی بہتر ہے کے بڑے بھائی کے لیے راستہ خالی چھوڑ دیں۔ باقی اس کی مرضی کہ شیر کو جتوائے یا بلّے کو۔
سائیکل تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ کب کی پنکچر ہوچکی ہے اور اس کی باقی چیزیں بھی ادھر ادھر ہو چکیں۔ نا سیٹ رہی ہے نا پیڈل، بریک بھی کام نہیں کرتے اور ہینڈل نے تواپنا رخ بھی بدل دیا ہے۔ سو اس کو تو بھول ہی جائیں۔
کتاب اب ویسے بھی بہت پرانی ہوچکی ہے اور ملک کے معروضی حالات میں اس نے بھی اپنے حصے سے زیادہ ہی قیمت رکھی ہوئی ہے۔ دو چار مدرسے ہی ہیں جو اسے اٹھائے پھرتے ہیں۔ پڑھنے وڑنے والے تو کب کے سدھار چکے باقی جو بچے ہیں انہیں کتاب سے زیادہ حلوے مانڈے سے دلچسپی ہے۔
اب کی بار ویسے بھی پیچھے والے حمایتی بلّے پر زیادہ رقم لگا رہے ہیں کہ نوجوانوں کو سہانے خواب دکھانے کے لیے چہرہ بھی کلین شیو ہونا چاہیئے۔ بھلے ہی داڑھی کہیں نیچے چھپی ہو۔ لیکن دکھانے کے لیے چہرہ نیا اور کارپوریٹ ہونا چاہیئے کہ آجکل گلشن کا کاروبار بھی ایسے چہروں سے چلتا ہے۔ روایتی چہرے تو نئی نسل کو بالکل نہیں بھاتے۔
یہ جو نوجوان ووٹ ہے اسے تو بلا ہی لے اڑے گا۔ چاہے شیر کتنا بھی دھاڑے اور شور مچائے۔ خالی سر پر بال اگانے سے کیا یوتھ کا ووٹ بھی لے لینگے؟ نہیں جی نہیں، یوتھ تو نیا پاکستان چاہتی ہے اور وہ تو صرف بلّے سے ہی ممکن ہے اور ویسے بھی نئے پاکستان کے ہم قریب پہنچ ہی چکے ہیں۔
سنا تو یہی ہے کہ نئے پاکستان میں پنجاب ہی حکومت کرے گا کہ اس میں بقول میاں صاحب کے پچھلے پانچ سالوں میں بھی دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں اور رشوت کا تو کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔
چوری، ڈاکے، دہشتگردی، غریب کا استحصال، لوٹ مار جیسی سب برائیاں صرف تین صوبوں میں ہیں۔ پنجاب نے تو ان پانچ سالوں میں بھی ترقی ہی کی اور انشااللہ اب باقی پاکستان سے بھی سب برائیوں کا خاتمہ کرے گا۔ اپنی بجلی اور پانی بھی واپس لے گا، جو دوسرے صوبوں نے پچھلے پانچ سالوں سے بند کی ہوئی تھی۔ ویسے ایک بات یاد رکھیں۔ بلا آئے یا شیر پاکستان اب ترقی کی راہ پر واپس آ ہی جائے گا۔ جتنا لوٹنےوالوں نے لوٹنا تھا لوٹ لیا۔ اب باری ان کی ہے جو نا لوٹتے ہیں نا کسی کو لوٹنے دیتے ہیں۔
اور جو اندھیروں کے رسیا اور روشنی کے دشمن ہیں انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک کو اندھیرے میں ہی رکھنا ہے۔ اس لیے ان کا سب سے بڑا نشانہ بھی لالٹین ہے جو بے چاری اس لوڈشیڈنگ کے زمانے میں عوام کے کچھ کام آجاتی تھی۔ لالٹین وہ بھی سرخ جھنڈے اور ٹوپی کے ساتھ، یہ تو بالکل برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اگر کوئی لالٹین کو ووٹ ڈالنا بھی چاہتا ہے تو وہ اپنی ذمّہ داری پر ڈالے گا۔ اپنے نگران توویسے بھی بے بس ہیں اور ان کا یہ مینڈیٹ بھی نہیں۔ رہے ملک کے اصل وارث ، وہ تو ویسے بھی ان حالات میں غیر جانبدار ہی رہنا چاہتے ہیں۔
لالٹین کے ساتھ ساتھ تیر اور پتنگ بھی طالبان کے نشانے پر ہیں۔ پتنگ تو ویسے بھی اب کی بار مشکل میں ہی تھی۔ لیکن طالبان اسے نقصان تو کیا پہنچائینگے، لگے ہاتھوں فائدہ ہی پہنچا رہے ہیں۔ ویسے بھی پتنگ کی تو لڑھکنے کی عادت ہے، جس طرف جھکاؤ دیکھے گی اسی طرف لڑھک جائے گی۔ اور وہ ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر ہی اڑتی ہے۔ اس کو کاٹا کرنے کا خیال کوئی دل میں لائے بھی مت کہ یہ تو تار والی ڈور سے اڑتی ہے،جس سے اکثر گردنیں بھی کٹ جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اپنے پنجاب میں بھی پتنگ بازی اور بسنت پر پابندی ہے۔ البتہ حیدرآباد والوں نے خوب پتنگ بازی کا شوق پورا کیا ہے ایک طرف دھماکے اور سوگ منایا جارہا ہے تو دوسری طرف الیکشن بسنت کے مزے بھی اڑائے جارہے ہیں۔
رہ گیا تیر وہ اب بھی اسی زعم میں ہے کہ وہی ایک فتح کا نشان ہے۔ اور اب بھی اسی پرانے نعرے پر ہی اکتفا کر رہا ہے کہ "فیصلو ضمیر جو ووٹ بے نظیر جو!" دیکھیں اب بھی غریب کے ضمیر سے ہی امید رکھی ہوئی ہے۔ اپنے ضمیر کا تو اب بھی کوئی ذکر کرنے کے لیے تیار نہیں۔
وہ جو گلاب کا پھول لیے پھر رہے ہیں انہیں انکے ماننے والے شاید مایوس نا کریں۔ البتہ یہ پھول اگر سندھ کے قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کے آسرے پر رہا تو پھول کے مرجھا جانے کے امکان زیادہ ہی دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو ماننے کے لیے ہی تیار نہیں اور پھول کا نمبر تو ویسے بھی بعد میں ہی آتا ہے!
وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں