حق ہے، استعمال نہیں
پاکستان میں ووٹر کی اہلیت اٹھارہ سال عمر اور ذہنی ظور پر صحتمند ہونا ہے۔ الیکشن کمیشن کے طے کردہ معیارِ پر کراچی کے مضافات کا رہائشی مظہر درزی پورا اترتا ہے، اسے ووٹ کی اہمیت کا احساس ہے اور اس کے استعمال پر آمادہ بھی مگر وہ چاہتا ہے کہ یہ فرض کوئی دوسرا اس سے ادا کرائے۔ اسے یقین ہے کہ پہلے کی طرح اس بار بھی ایسا ہوگا۔
پاکستان میں انتخابات اور اظہارِ رائے کے لیے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی جمہوری روایات کا پس منظر زیادہ مستحکم نہیں، تاہم سن دو ہزار تیرہ میں پہلی بار وفاقی اور صوبائی سطح پر جمہوری حکومتوں کی مدتِ تکمیل کے بعد، اسے تابناک سمت میں ایک امکان ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔
ملکی تاریخ کے پہلے تئیس برس میں انتخابی عمل اور ووٹ کے استعمال کی نہایت کمزورترین مثالیں ہیں۔ ایوب خان کے صدارتی انتخابات یا انہی کی حکومت کے تحت 'بنیادی جمہوریت' نظام کے تحت بلدیاتی سطح پر انتخابات کی نہایت ارتقائی اور مشتبہ مثالیں موجود ہیں۔ تاہم سن اُنیّسو ستّر میں 'متحدہ پاکستان' کے پہلے عام انتخابات سے اس سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔
سن اُنیّسو ستر کے عام انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ طویل بحث کا متقاضی اور تاریخ کا حصہ ہے مگر اس نے ثابت کردیا تھا کہ رائے کا حق استعمال ہو اور تسلیم نہ کیا جائے تو جغرافیائی تقسیم کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ یہ نئی مثال نہیں، تقسیمِ ہند سے ذرا پہلے بھی شہریوں کے ووٹ کے حق کو، تقسیم کی بنیاد کے ایک اہم پہلو کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
سن ستّر کے تاریخ ساز انتخابات میں ایک پہلو قوم پرستی کا ابھر کر سامنے آیا۔ بعد کے پاکستان میں سن دو ہزار آٹھ تک قومی سطح پر آٹھ انتخابات منعقد ہوچکے لیکن ایک پہلو اب بھی نمایاں ہے: لسّانی اور نسلی بنیاد پر رائے کا استعمال۔
جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی اور سن اُنیّسو پچاسی کے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تو امیدوار کے لیے یہی ووٹ کے حصول کی مضبوط بنیاد بنی۔
ایک عام شہری بطور ووٹر کیا حق رکھتا ہے؟ جب یہ سوال الیکشن کمیشن سے تعلق رکھنے والے بعض حکام سے کیا تو ان کا تقریباً ایک ہی جواب تھا: بنیادی طور، اپنی پسند کے مطابق امیدوار (یا جماعت) کے حق میں ووٹ دے کر، اس خواہش کا اظہار کہ وہ اگلی پانچ سالہ آئینی مدت میں کس کی حکومت دیکھنا چاہتا ہے۔
تو کیا واقعی ایک ووٹرز اپنے حق کو اسی طرح استعمال کرتا ہے؟
اگرچہ ووٹ شہری کا ایسا حق ہے، جس کے استعمال پر اسے مکمل اختیار حاصل ہے تاہم سن دو ہزار آٹھ میں گیلپ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ووٹ کا حق استعمال کرنے کو سات اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا: جماعت سے وفاداری، اخلاقی فریضہ، حمایت کی تلاش، قانون سازی کی طرف مائل، جدت کے متلاشی، برادری، اور ووٹ کے استعمال پر یقین نہ رکھنے والے۔
پاکستان میں سن ستر کے بعد تمام انتخابات اس بات کا اظہار ہیں کہ کم ازکم تین بنیادوں پر یہ حق استعمال ہوا: پارٹی سے وفاداری یا تعلق، برادری یا پھر امیدوار سے 'اُمید' اور اس کے قریبی لوگوں کی حمایت کا حصول۔
متحدہ پاکستان کے بعد سن اُنیّسو ستتر میں باقیماندہ ملک کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔ ان کے نتائج پر 'دھاندلی' کا الزام لگا لیکن ان میں ڈالے گئے ووٹ کی شرح تناسب سب سے زیادہ رہی، پچپن اعشاریہ دو فیصد۔ تاہم اس کے بعد شرح ووٹ کا یہ رجحان سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات تک، کبھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد، سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں شدید جذباتی پہلو شامل ہوا، تاہم ووٹ ڈالنے کی شرح مجموعی طور پرچوالیس اعشاریہ پچپن فیصد رہی۔
پاکستان میں ووٹ کا حق استعمال کرنا لازمی نہیں، اختیاری ہے۔ سیاسی امور کے ماہرین کے مطابق کم شرح ووٹ کا رجحان اس بات کا اشارہ ہے کہ یا تو ووٹرز اسے اخلاقی فرض سے زیادہ اختیاری مانتے ہیں، نظام پر یقین نہیں یا وہ اس کے استعمال کو جھجنھٹ سمجھتے ہیں: پولنگ اسٹیشن تک جانا، فہرست میں سے سیریل نمبر لے کر قطار میں کھڑا رہنا۔ وہ اس مشق پر، سکون سے گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن کیا یہی وجہ ہے؟ بعض ماہرینِ سماجیات کا کہنا ہے کہ شہروں کے نسبت، جہاں فرد کو زیادہ آزادی حاصل ہے، ووٹ اخلاقی طور پر بھی اختیاری عمل ہے مگر پاکستان کے دیہی علاقوں میں ایک فرد کا ووٹ برادری کی ناک کا مسئلہ ہوتا ہے۔ برادری کے واسطے بھی اس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ مگر بات وہی کہ ایک شہری کو رائے کا حق ہے مگر زیادہ تر اسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟
دنیا کی مستحکم جمہوریتوں میں ووٹ پالیسی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں اور امیدوار سے قانون سازی کے علاوہ کوئی توقع نہیں رکھی جاتی مگر پاکستان میں صورتِ حال برعکس ہے۔
پاکستان کے جمہوری نظام میں، ووٹرز کے نزدیک قومی یا صوبائی قانون ساز اسمبلی کے لیے امیدوار کی اہلیت کا معیار یہ ہے کہ وہ حلقے کی گلی میں سیوریج کی نالی بنوائے، اپنے ووٹرز یا اُن کی آل اولاد کو ملازمتوں کی فراہمی، اور جھگڑے وتنازعات میں تھانے سے عدالت اور پٹواری سے تحصیل دار تک، اس کے آگے کھڑا ہو۔
اسی لیے ایک بار جیتنے والے امیدوار کو دوسرے انتخابات میں ووٹرز کے سامنے انہی حوالوں سے احتساب کا سامنا ہوتا ہے۔ قانون سازی شاید ہی کسی ووٹر کے لیے امیدوار کی اہلیت جانچنے کا معیار ہوتا ہو۔ تو کیا جمہوریت کے لیے یہی نمائندوں کے انتخاب کا طریقہ اور ووٹ کا عالمی اور آئینی حق رکھنے کی بنیاد ہے؟
اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں مگر پاکستانی جمہوری نظام کا یہی مطلب لیا جاتا ہے لیکن اس غلط تاثر کو دور کرنے کے لیے کسی حکومت نے کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔
مقامی سطح پر ترقیاتی ذمہ داری بنیادی جمہوری اداروں یعنی بلدیاتی نظام کی ہے، تھانے کچہریوں کے معاملات بنیادی نظامِ انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین صرف قانون سازی کے حامل ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا۔
اراکینِ اسمبلی کو حلقوں کے لیے ' بھاری' ترقیاتی فنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی مضبوط جمہوری روایات کی علمبردار ہے مگر اس کے پانچ سالہ کامیاب جمہوری دعوے میں بلدیاتی ادارے موجود نہیں۔ آئینی مدت کی تکمیل کرنے والوں کے عہد میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
'جب بلدیاتی ادارے موجود نہ ہوں اور اگر ہوں تو مستحکم نہیں، جب نظام انصاف بنیادی سطح پر کمزور اور ملازمتوں میں میرٹ نہ ہو تو پھر ووٹ کا حق یا تو درست طور پر استعمال نہیں ہوگا یا پھر وہ استعمال ہی نہیں ہوگا۔' یہ رائے تھی گذشتہ انتخابات پر دستاویزی فلم بنانے والے ایم کمال، کی جو نصابی نہیں، عملی جمہوری نظام پر نظر رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ملک کے اُس ایک عام آدمی کے لیے انتخابات کا پورا میلہ سجایا جاتا ہے، جسے خود اپنے حق کی اہمیت کا اندازہ نہیں اور جب حقِ رائے درست استعمال نہ ہو تو پھر اس کے نتیجے می جو کچھ سامنے آئے گا وہ زیادہ شفاف شاید نہ ہو۔
تو کیا یہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے کہ وہ لوگوں کی یہ غلط فہمی دور کریں کہ ارکانِ پالیمنٹ صرف قانون سازی کے ذمہ دار ہیں، نالیاں گلیاں پختہ کرانے، تھانے کچہریوں میں سفارشیں اور نوکریاں دینے کے لیے نہیں؟
'وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے، یہ ابہام ہی ان کی کامیابی کی دلیل ہے، جتنا زیادہ ابہام پیدا کرو، جیت کے اتنے زیادہ امکانات۔' یہ رائے تھی ایم کمال کی۔
تو پھر ایک ووٹر کا حق کیا ہوگا: نصابی طور پر، اچھی رائے کا اظہار کر کے مستحکم جمہوریت کی تشکیل میں کردار ادا کرنا مگر فی الوقت ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تو پھر ایک ووٹر کا حق کیا ہے؟
اڑتیس سالہ درزی مظہر کا کہنا تھا کہ 'بطور ووٹر میرا حق ہے، یہ جسے چاہیے وہ مجھے اپنی سواری پر پولنگ اسٹیشن لے جائے اور جب لمبی قطار میں گھنٹوں کھڑا رہنے کے بعد، ووٹ دے کر نکلوں تو مجھے کم ازکم بریانی ضرور کھلائیں۔'
پاکستان میں کم و بیش ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز ہیں اور اس سے کہیں زیادہ موبائل فون۔ الیکشن کمیشن نے ووٹ کی تصدیق اور متعلقہ پولنگ اسٹیشن جاننے کے لیے ایس ایم ایس سروس متعارف کرائی ہے، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے بائیو میٹرک سسٹم کے تحت اٹھارہ سال مکمل کرنے والوں کا انتخابی فہرستوں میں خود کار نظامِ اندراج متعارف کرا دیا۔
حق کے استعمال کی اتنی سہولتیں مگر پھر بھی گذشتہ سات انتخابات میں مجوعی شرح تناسب میں، اوسطاً پچپن فیصد سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز پولنگ اسٹیشن نہیں پہنچے تھے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا حق، سیاسی جماعتوں کا اس کی حمایت اورعدلیہ کی طرف سے اس کے لیے اقدامات اور خود اُن کا پُرجوش اظہار خوش آئند مگر۔۔۔
سوال وہی کہ مظہر درزی کو ووٹ کا حق حاصل ہے اور وہ اسے خود با آسانی استعمال کرسکتا مگر پولنگ اسٹیشن کون لے جائے اور بریانی کون کھلائے؟
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔