بھٹو کی وہ رات
سن اُنیّس سو ستر میں، پاکستانی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے لیے زور و شور سے انتخابی مہم جاری تھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی نوزائیدہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ملک گیر سطح پر یہ پہلی آزمائش تھی۔
پارٹی کے پاس بھٹو کے سوا کوئی عوامی چہرہ نہ تھا اور وہ خود بھی کہہ چکے تھے کہ میری پارٹی کو بڑے ناموں کی ضرورت نہیں، یہ خود بڑے نام پیدا کرے گی۔
آج تو یہ بات تاریخ کا سچ ہے مگر اُس وقت شاید کئیوں کو اُس پر یقین نہ تھا۔ اس لیے قریہ قریہ گھوم کر، نہ صرف وہ اپنے امیدواروں کی مہم چلارہے تھے بلکہ خود بھی لاڑکانہ سے الیکشن لڑرہے تھے۔
اُس وقت اتخابی مہم کا اب جیسا عالم نہ تھا۔ قائد ہو یا امیدوار، ان کی مہم میں گاڑیوں کے قافلے ساتھ ساتھ نہیں چلتے تھے البتہ شرافت، اقدار، روایات، احترام اور دیانت اُن کا خاصہ ہوتی تھی۔
لوگ سیاسی قائدین کو پسند کرتے تو دیکھنے، سننے آتے، نا پسند کرتے تو چُپ بیٹھے رہتے تھے۔ آج کی طرح گالم گلوچ اور میڈیا پر نِت نئے تماشوں جیسی کوئی بدعت نہ تھی۔
تو بات ہورہی تھی سن ستّر کے انتخابات اور بھٹو کی۔ تھے تو وہ جاگیردار مگر تھے عوامی۔ نہ انتخابی مہم پر پیسہ لگا ہوا تھا اور نہ ہی گاڑیوں کے قافلے تھے اور نہ ہی آج کے رہنماؤں کی طرح ان کے پاس ہیلی کاپٹر اور جہاز تھے۔
کہیں گاڑی اور کہیں ریل گاڑی مگر پہنچ ہر جگہ رہے تھے۔ اُس وقت بھی مذہبی قوتیں سامنے تھیں لیکن سب نڈر اور بے خوف تھے۔ جمہوریت اور انتخابات تب تک، سن دو ہزار تیرہ کی طرح 'غیر شرعی' نہیں ہوئے تھے۔ ووٹ بھی تب تک خالص سیکولر تھا اور انتخابی مہم کودو ہزار تیرہ کی طرح، بم دھماکوں کا بھی کچھ خوف نہ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ پہنچے۔ دن بھر جلسے جلوسوں اور لوگوں سے ملنے ملانے میں گذارا۔ دوسرا دن ان کا کوئٹہ میں گذرنا تھا۔ سرد رات تھی۔ نصف شب بولان میل لاڑکانہ سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوتی تھی۔
بھٹو لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پہنچے مگر سابق وزیرِ خارجہ اور اُس وقت کے مقبول عوامی لیڈر کو پوری ریل گاڑی میں، اے سی سے تھرڈ کلاس تک، کوئی نشت نہ ملی۔ بھٹو پہنچے بولان میل کے گارڈ حسّان احمد بیگ کے پاس اور درخواست کی کہ وہ گارڈ کے بریک ڈبے میں بیٹھ کر کوئٹہ تک سفر کی اجازت دے دیں۔
حسّان بیگ کے صاحبزادے اور میرے عزیز دوست ڈاکٹرعرفان احمد بیگ ہیں۔ ابھی حال ہی میں، صحافت و ادب کی صنف میں انہیں حکومتِ پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازہ ہے۔ وہ گذشتہ برس شائع ہونےوالی اپنی کتاب 'ڈیڑھ صدی کی ریل' میں آگے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:
"ذوالفقارعلی بھٹو نے یہ بات اتنی شائستگی سے کہی کہ میرےوالد اور ان کے ساتھی انور چوہدری مرحوم رِسک لینے پرتیار ہوگئے۔ گاڑی رات تین بجے روانہ ہوئی۔ گارڈ کے ڈبے میں دو ڈاگ بکس ہوتے ہیں۔ ایک کا اوپری حصہ چار بائی چار فٹ کا ہوتا ہے، جس میں گارڈ اپنے بیگ اور ٹوکریاں وغیرہ رکھتے ہیں۔
ڈبے میں عموماً ایک طرف چھوٹی سی کرسی رائٹنگ ٹیبل کے ساتھ ہوتی ہے، دوسری طرف رفع حاجت کے لیے کموڈ ہوتا ہے، جس کے ڈھکنے پر کشن لگ کر سیٹ بنادی جاتی ہے۔ یوں اس چھوٹے سے ڈبے میں دو گارڈوں کے بیٹھنے کی جگہ مشکل سے ہی بنتی ہے۔ کھانے کے وقت چھوٹے صندوق میز کا کام دیتے ہیں۔
اگر کسی گارڈ کی طبیعت اچانک خراب ہوجائے اور آرام کی ضرورت ہو تو ڈاگ بکس کے اوپر والے خانے سے سامان اور بیگ ٹوکریاں نکال کر، اس خانے میں انگریزی کے حرف زیڈ کی طرح، ٹانگیں سکیڑ کر کچھ دیر آرام کرلیتے ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو کچھ وقت تو سیٹ پر بیٹھے رہے پھر انہوں نے آرام کی خواہش ظاہر کی، جس پر ڈاگ بکس کے اوپر خانے کو خالی کیا گیا اور اس خانے میں وہ صبح نو بجے تک ٹانگیں سکیڑے (کروٹ کے بل لیٹے) آرام کرتے رہے۔
عرفان بیگ لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب اٹھے تو میرے والد شیو کررہے تھے، بھٹو صاحب نے اسی شیوٹی سے شیو بنائی۔ بڑے مگ میں گرم چائے اور پراٹھے کا ناشتہ کیا۔ بولان میل ساڑھے گیارہ بجے کوئٹہ اسٹیشن پہنچی تواُس وقت اُن کے استقبال کے لیے عوام کاجمِ غفیرموجود تھا۔
شاید بانی کا یہی عوامی انداز تھا کہ آج بھی اس کے مزارپر صوفیوں اور ولیوں کی طرح، دن ہو یا رات عام لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ رہے پارٹی کے بڑے نام تو آج بھی پیپلز پارٹی کو بھٹو کا چہرہ درکار ہے سن اُنیّسو ستّر کے عام انتخابات کی طرح ۔
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں