• KHI: Fajr 4:47am Sunrise 6:06am
  • LHR: Fajr 4:04am Sunrise 5:30am
  • ISB: Fajr 4:04am Sunrise 5:33am
  • KHI: Fajr 4:47am Sunrise 6:06am
  • LHR: Fajr 4:04am Sunrise 5:30am
  • ISB: Fajr 4:04am Sunrise 5:33am

چھٹا دن: اقتدار، عوام اور مذہب

شائع April 26, 2013

چھٹا دن: اقتدار، عوام اور مذہب

مقام: بھیرہ

(تصایر بڑی کرنے کے لیے کلک کریں)

میں نے گزشتہ روز دریائے جہلم اور چناب یا چج دو آب کے درمیان مختلف دیہات میں اِدھر اُدھر گھومنے میں تقریباً دو سو کلومیٹر کا راستہ طے کیا تھا۔

میں کسی گاؤں میں منعقدہ سیاسی تقریب دیکھنے کا متلاشی تھا مگر میری کوشش بدستور رائیگاں جاتی رہی۔

میں اس بھاگ دوڑ میں تھک چکا تھا اور جب رات اپنے ٹھکانے پر پہنچا تو اس وقت تک میرے پاس لکھنے کے لیے وقت باقی نہیں بچا تھا۔

میں نے فیصلہ کیا کہ اگلا پورا دن قدیم تاریخی مقام بھیرہ میں گزارا جائے۔

ہمارے نو آبادیاتی دور سے پہلے کے نقشوں پر، شمال مغرب سے دِلّی جانے والے راستے پر اسے معروف مقام کے طور پر ظاہر کیا جاتا تھا۔

ماضی میں تمام حملہ آوروں کے لیے سب سے بڑی لاجسٹک مشکل شمال مغرب کے پہاڑوں سے اترنے کے بعد راہ میں حائل دریاؤں کو عبور کرنا ہوتا تھا۔

ایسے میں عسکری حکمتِ عملی کے تحت ان دریاؤں کے کناروں پر قلعے تعمیر اور بستیاں بسائی گئیں۔

چونکہ دریا نقل و حمل کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں لہٰذا ان کے کنارے آباد شہروں کی علاقائی تجارت بھی خوب پھلی پھولی۔

لیکن پھرحملہ آوروں نے مختلف طریقہ اپنا لیا اور بعد میں ریلوے ٹرانسپورٹ کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ بن گیا۔

ان تبدیلیوں کی وجہ سے نقشے بدلے اور بھیرہ جیسے قصبے ان پر سے غائب ہو گئے۔ تاریخ بڑی ظالم ہے۔

لیکن پھر تقریباً ایک دہائی قبل ایک مرتبہ پھر بھیرہ اس وقت نقشے پر اُبھرا جب لاہور ۔ اسلام آباد موٹر وے بنی اور اس کے بیچوں بیچ سے گذری۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اُس کے بعد سے یہ سڑک یہاں کے سیاسی لب و لہجے پر حاوی رہی ہے۔

photo14

بھیرہ کو جو شاندار موقع ملا، اس پر وہ بیک وقت خوش بھی ہے اورافسردہ بھی۔

چند ملازمتیں، بڑے شہروں تک سفر کا مختصر دورانیہ اور سبزیوں کے کاشت کاروں کی منڈیوں تک با آسانی رسائی - یہ سب کچھ موٹر وے کی بدولت ہوا۔

تاہم یہ سب اس کے شاندار ماضی کی بحالی کے لیے کافی نہیں تھا۔

اپنی معیشت اور صارفین پر بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس- واقعی ان معاملات میں موٹر وے بہت ہی خود غرض ہے۔

موٹر وے پر مفت کا چکر نہیں ملتا۔ پوری شاہراہ پر دونوں جانب خار دار تاروں کی باڑھ ہے۔ بھیرہ کو اس سے کچھ راحت تو ملی لیکن وہ اب بھی خوابِ غفلت میں ہے۔

اسی طرح، بھیرہ کی سیاست پر بھی موٹر وے نے اثرات مرتب کیے ہیں۔

اس سڑک نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ میں نواز شریف کو داخلے کا موقع دیا لیکن پُرانے کھلاڑیوں کو بھی پوری طرح بے دخل نہیں ہونے دیا۔

اس علاقے میں سب سے زیادہ سیاسی مفادات پراچہ فیملی کے ہیں۔ ان کے بزرگ قیامِ پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے حامی تھے اور پاکستان بننے سے انہیں بھی فوائد پہنچے اور وہ ایک بہت بڑے بزنس ہاؤس کے مالک بنے۔

طویل عرصہ گزرنے کے باوجود یہ خاندان یہاں ناقابلِ شکست رہا۔ جو اقتدار میں ہوتا ہے یہ اُس کے ساتھ ہوتے ہیں، تاہم ان کی طویل ترین سیاسی رفاقت پی پی پی کے ساتھ رہی ہے۔

photo25

جنرل ضیا الحق نے یہاں سے تعلق رکھنے والے پیر خاندان کے ایک فرد کو شرعی عدالت میں منصب عطا کر کے انہیں عزت افزائی دی۔

غیر ملکی مسلمانوں نے بھی انہیں اپنے پیرِ بزرگ کے مزار کے ساتھ دینی مدرسہ تعمیر کرنےکے لیے بھاری عطیات سے نوازا۔

اِس وقت یہ خاندان پھیلتی ہوئی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے اوپر بیٹھا ہوا ہے۔

اپنی روحانی سلطنت کے وسیع تر مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اس خاندان کو سیاست کی ضرورت ہے۔

اگرچہ وہ کئی بار پراچہ خاندان کے ہاتھوں انتخابی شکست کھاتے رہے ہیں لیکن اب مستحکم ہونے کے بعد یہ اقتدار کے کھیل کے روایتی کھلاڑیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔

پراچہ خاندان کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ایک ڈاکٹر ہیں جن کا تعلق نو دولتیہ پروفیشنل طبقے سے ہے۔

وہ بھرت ذات سے ہیں لیکن ان کی انتخابی مہم کے لیے تیار کردہ تشہیری پوسٹرز پر ذات کو نہیں بلکہ پروفیشن کو نمایاں ظاہر کیا گیا ہے۔

انہوں نے سن دو ہزار دو کے عام انتخابات میں پراچہ خاندان سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے امیدوار کو صوبائی اسمبلی کے لیے بھیرہ کی ایک نشست پر صرف چند سو ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔

حلقہ این اے 64 سرگودھا ون پرعام طور پر مقابلہ انتہائی سخت ہوتا ہے اور عموماً پانچ ہزار سے کم ووٹ مارجن ہی ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں، یہاں ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس فیصد کے لگ بھگ رہی ہے۔ photo35

photo45

photo53

پراچہ خاندان کی ایک بڑی سیاسی غلطی سن دو ہزار دو میں پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر مشرف کے حمایتی پیٹریاٹ گروپ میں شمولیت تھی۔

زیادہ تر معاشی مفادات حلقے سے باہر منتقل ہو جانے کے بعد سے ان کے قدم ویسے ہی ڈگمگا رہے تھے اور وہ پی پی پی کے ایک نئے امیدوار ندیم افضل چن کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔

اس مرتبہ، ایک بار پھر یہاں کا انتخابی دنگل دلچسپ صورت اختیار کرچکا ہے کیونکہ جیت کی لڑائی میں تین فریقین ہیں۔

ان تینوں میں فرق بہت کم ہے اور تینوں ہی فاتح نظر آتے ہیں لیکن جو بھی جیتے گا ووٹوں کی نہایت کم شرح فرق سے۔

گذشتہ انتخابات میں یہاں سے ندیم افضل چن جیتے تھے لیکن اس مرتبہ انہیں معلوم ہے کہ فتح آسان نہیں ہو گی لہٰذا وہ بہت اچھے انداز میں مہم چلا رہے ہیں۔

اینٹوں کے بھٹے سے لے کرمسجد اور بازاروں تک، مجھے ہر جگہ بڑی تعداد میں اُن کے پُرجوش حامی ملے۔

ان سب کا ماننا ہے کہ چن نے اپنے حلقےمیں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کرائے، حتیٰ کہ ان کے مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ میرٹ کے ترازو پر چن کا پلڑہ بھاری ہے۔

چن سے متعلق میں نے کچھ لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا کہ اگر انہیں اس بار شکست ہوئی تو اس کا سبب صرف 'پی پی پی کے گناہ' ہوں گے۔

میں این اے چونسٹھ سے ملحق انتخابی حلقے کے ووٹرز سے بھی ملا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر چن اُن کے حلقے سے امیدوار ہوتے تو وہ بھی اُنہی کو ووٹ دیتے۔

چن کی مقبولیت کا راز نہایت سادہ ہے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی کام کرائے ہیں، جن میں سر فہرست ایک سو سے زیادہ دیہاتوں کو قدرتی گیس کی فراہمی ہے۔

photo63

میں ایسے چند خاندانوں سے ملا جن کے گھروں میں، ابھی حال ہی میں قدرتی گیس پہنچی تھی۔ بنیادی سہولتوں کے بغیر زندگی کا تصور ہی شہری متوسط طبقے کے لیے محال ہے۔

گھر کا چولہا جلانے کے لیے لکڑی جمع کرنا، اس کا انتظام کرنا اور اس کی دیکھ بھال دیہاتیوں کی روزمرہ زندگی کا معمول تھا، لیکن شکریہ اُس ایک شخص کا، جس کی بدولت اب ان کے لیے چولہا جلانا ایسا ہی ہے جیسے ایک دو تین کہہ دینا۔

روز مرہ زندگی میں ہونے والی یہ بڑی تبدیلی اِن خاندانوں کے لیےحیران کُن ہے اور اب یہ پابند ہیں کہ اس تبدیلی پر اپنی رائے کا اظہار ووٹ کی صورت کریں۔

مولانا ابرار بغوی صاف گو طبیعت رکھتے ہیں۔ وہ بھیرہ کی اُس قدیم ترین مسجد کے نگران اور پیش امام ہیں جسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ محض آئین میں ترامیم کر دینے سے کوئی الیکشن نہیں جیت سکتا۔

'کامیابی حاصل کے لیے ضروری ہے کہ گراس روٹ لیول پر آپ ایسے اقدامات کریں جس سے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی رونما ہوں'۔

وہ نہایت دلچسپ شخص ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس چھوٹے سے قصبے کی ناصرف تاریخ بلکہ اس کے مستقبل کے بھی نگران ہیں۔

انہوں نے مسجد کے ایک چھوٹے سے ہجرے میں میوزیم بنا رکھا ہے اور اسی کے ذریعے انہوں نے مجھے اپنے قصبے کی تاریخ، ثقافت اور روایتی ہُنر مندی سے روشناس کرایا۔

بھیرہ کے اِس چھوٹے سے جہان میں، میں ایسے مختلف النّوع لوگوں سے بھی ملا جو اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے مدمقابل ہیں لیکن کسی بھی حریف کو واضح سبقت حاصل نہیں۔

مقابلہ اتنا سخت ہے کہ پارٹیوں کو صحیح امیدوار ڈھونڈنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور حالات یہی بتاتے ہیں کہ مستقبل میں معلق پارلیمنٹ وجود میں آسکتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون، پیر اور ڈاکٹر کی طرف دار ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے اس کے ترقیاتی کاموں کا ہیرو سامنے کھڑا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف پٹری سے اُتر کے پراچہ خاندان کا ساتھ دے رہی ہے۔

photo73

یہاں کے میدانِ سیاست میں کئی چھوٹے کھلاڑی بھی ہیں۔

ایک دکان میں سپاہِ صحابہ کا پوسٹر آویزاں تھا، میں نے دُکاندار سے اس سے متعلق دریافت کیا تو کہنے لگا کہ اس نے یہ صرف اپنے فقہ کے حوالے سے لگا رکھا ہے ورنہ ووٹ تو مسلم لیگ نون کو ہی دے گا۔

اس نے بتایا کہ فقہی لحاظ سے وہ دیو بندی ہے۔

جب میں نے اس حوالے سے مزید کچھ لوگوں سے بات چیت کی تو احساس ہوا کہ یہ شاید ایک گروپ کا اپنی فقہی شناخت کا واضح اظہار ہے یا پھر اس بات کی ضمانت فراہم کرنا کہ وہ مسلم لیگ نون کے حامی ہیں، جو کہ خود ایک غیر دیوبندی پیر صاحب کی حمایت کررہی ہے۔

کیا یہ غلط فہمی اُن کے فقہی عقیدے سے انکار کے طور پر تو نہیں ہوگی۔

photo81 ترجمہ: مختار آزاد

کارٹون

کارٹون : 19 اپریل 2025
کارٹون : 18 اپریل 2025