• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

ووٹ کی طاقت

شائع April 25, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/89288228" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


ووٹ کی طاقت کے قصے تو ہم نے بھی بہت سنے ہیں اور آپ بھی ضرور واقف ہونگے ۔ لیکن اپنے ملک میں تو اس طاقت کو بھی ایسا دبادیا گیا ہے کہ خود جو یہ طاقت رکھنے والا ہے ۔ وہ بھی اپنی اس طاقت سے نا بلد ہے۔

جیسے اس ملک میں قوم کی باقی صلاحیتوں کو اس کی اس سرزمین پر آنکھ کھلنے کے بعد دبانا شروع کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس طاقت کواس قدر دبایا گیا ہے کہ بے چارے عوام کے پاس رہی ہی نہیں۔ البتہ وقتِ ضرورت اسے اپنے حق میں استعمال میں لانے والے ، قوم کو اس طاقت کے بارے میں صرف اتنی ہی آگہی دیتے ہیں کہ جب بھی انہیں ضرورت ہو تو وہ بلا چوں چرا کہ اس کے حقدار ٹھہریں۔

یہ جو آپ کے ووٹ کے صحیح حقدار ہیں۔انہیں کبھی نا اپنے بارے میں بتانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ناہی اپنا آگا پیچھا، نا اپنا نظریہ، نا اپنی سوچ ، نا کوئی پروگرام، نا ہی کوئی مستقبل کا نقشہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر منتخب ہو بھی گئے تو آپ کے لیے آسمان سےکون سے چاند تارے توڑ کر لائینگے یا آپ اور آپ کے بچوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی بھی لائینگے کہ نہیں۔ انہیں تو آپ کا ووٹ صرف کسی نعرے اور تصویر کے بنیاد پر چاہیئے ہوتا ہے۔

انہوں نےکبھی بھٹو کی تصویر آگےکی تو کبھی بے نظیر کی، کبھی نوازشریف اس قوم کے نجات دہندہ بنے ۔تو اب اپنے عمران خان کی شکل میں آپ کو تبدیلی کا خواب دکھایا جار ہا ہے۔ رہے اپنے بھائیصاحب ان کی تصویر تو بھائی لوگوں کانیند میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔یہ تصویر ہی ہے جس کو لوگ ووٹ دیدیتے ہیں ۔ باقی نا پارٹیوں نے کوئی پروگرام دینا ہے اور ناہی عوام نےاپنے ووٹ کی طاقت کوکسی پروگرام یا مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ جو بھی ووٹ مانگنے نکلتا ہے اپنے گلے میں کسی نا کسی کی تصویر لٹکا دیتا ہے اور ووٹ کا حقدار بن جاتا ہے۔

اور یہ ووٹ مانگنے والے اپنے گلے کی تصویر بھی بدلتےرہتے ہیں، کل جس نے گلے میں لٹکی تصویر کے بل بوتے پر آپ کا ووٹ لیا تھا، آج اس نے گلے میں اور تصویر لٹکائی ہوئی ہے۔ انہیں صرف معلوم ہوجائے کہ آجکل عوام کے دلوں پر کون سی تصویر راج کر رہی ہے ۔ اسی کو گلے میں لٹکائے نکل پڑتے ہیں۔ ویسے ان سے یہ بھی بعید نہیں کہ آپ کے ووٹ سے منتخب ہونے کے بعد بھی اگر وزارت شزارت کی امید مدھم پڑتی دکھائی دے تو منتخب ہونے کے بعد بھی گلے کی تصویر بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

اور اب کی بار تو امیدوار اتنا بے یقینی کا شکار ہیں کہ قوم کو تبدیلی کے خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ اور پارٹی کے اعلیٰ منصب پر ہوتے ہوئے بھی آزاد امیدوار کے طور پر ووٹ مانگنے نکل پڑے ہیں کہ بعد میں اگرگلے کی تصویر بدلنی پڑی گئی تو آزاد امیدوار کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ آزاد امیدوار تو ویسے ہی آزاد ہوتا ہے جو جب بھی چاہے کوئی بھی تصویر گلے میں لٹکانے کے لیے تیار رہتا ہے ۔شرط صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ اس کے صدقے وزیر کا منصب بھی نصیب ہو۔ خالی اسمبلی میں بیٹھ کر اونگھنے اور جماہیاں لینے کے لیے تو ووٹ نہیں لیتے۔

ویسے یہ ووٹ کی طاقت ہی ہے کہ جس نےاپنے مشرف بھائی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ نا اِدھر کے رہے ہیں، نا اُدھر کے۔بیچ میں کہیں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔ جو لوگ پچھلی گلی سے آتے ہیں۔ ان کو پچھلی گلی سے ہی نکل لینا چاہیئے۔ لیکن انہیں بھی فیسبوک کے چاہنے والوں نے شاید یہ خواب دکھا دیا کہ وہ بھی ووٹ کے ذریعے اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کی تصویر بھی بہت سوں کے گلے کی زینت بنی، لیکن تب جب وردی بھی تھی تو کرسی بھی۔ اب تو صرف فیسبوک ہے۔ جس کے سہارے آپ کم از کم اقتدار تو حاصل نہیں کرسکتے۔

ویسے بھی اگر سوشل میڈیا پر اگر کسی کا راج ہے تو وہ اپنے خانصاحب ہیں۔ اب تو ان کی تصویر اور جناح کی تصویر ایک ہی ہوگئی ہے۔ لگتا ہے جناح نے پھر جنم لیا ہے اور تبدیلی کا خواب دکھانے والوں نے یہ نوید بھی دے ہی دی ہے کہ تین ہفتے بعد ہم نئے پاکستان میں ہونگے۔ چلیں تین ہفتے کا انتظار تو کر ہی سکتے ہیں۔ فیض صاحب تو یہ کہہ کے چلے گئے کہ ہم دیکھیں گے!لیکن لگتا ہے ہم اور آپ تو ضرور دیکھیں گے!اب تو صرف تین ہی ہفتے رہ گئے ہیں۔ بس ڈر صرف یہ ہے کے تین ہفتے سے پہلے کچھ دکھا ئی نا دے جائے۔

illus03-670
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

کیونکہ ہمارے اصلی تے وڈے چوہدری صاحب جو عوام کی نمائندگی کے سب سے بڑے دعویدار بھی ہیں تو عوام کی خاطر انہوں نے پانچ سال اس ملک میں جمہوریت کو چلنے بھی دیا ہے ۔اور ان کا عوام سے یہ بھی وعدہ ہے کہ وہ فیئر اور فری الیکشن بھی کراکر ہی چھوڑینگے۔ انہوں نے جو الیکشن کے پروگرام کے ساتھ ساتھ سائیڈ میں عوام کی تفریح اور طبع کے لیے اور بھی پروگرام چلائے ہوئے ہیں ۔جن میں ’مشرف پارٹ ٹو‘ تو ویسے بھی خاصہ مقبول بھی جا رہا ہے۔ ہمیں ڈر صرف یہ ہے کہ کہیں ایسا نا ہو کہ عوام الیکشن کو بھول کر اسی پروگرام دیکھنے میں مشغول ہوجائیں اور الیکشن بے چارہ کہیں راہ میں ہی گم ہو جائے۔

اپنے میاں صاحب اور خانصاحب جو اپنی اپنی باری کے انتظار میں ایک دوسرے کو تو خاطر میں بالکل نہیں لا رہے اور اسی بات پر مصر ہیں کے یہ باری تو میں نے ہی لینی ہے۔ ایسا نا ہوکہ باری کوئی اور ہی لے جائے۔ ویسے بھی سنائی تو یہی دے رہا ہے کہ اصل الیکشن تو اپنے پنجاب میں ہی ہو رہے ہیں۔ باقی سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ میں تو اس کی اجازت نہیں ملی۔ اجازت دینے والے بھی اب ایک میں سے دو ہوگئے ہیں۔ ایک کو مارنے کی ذمیداری ملی ہے تو دوسرے کو بچانے کی۔ بچانے والے کی باری تو بعد میں آتی ہے مارنے والا تو پہلے ہی مار کے چل نکلتا ہے۔

اور اس مارا ماری میں جو بغیر مانگے ووٹ کے حقدار ٹھہرتے تھے۔انہیں واپس عوام کے پاس جانے کی ہمت تو ویسے ہی نہیں۔ اگر کوئی جاتا بھی ہے تو انڈے ٹماٹر مہنگے ہونے کے باوجود بھی آزادی سے استعمال ہونا شروع ہوگئے ہیں اور عوام نےاپنے ووٹ کی طاقت سے پہلے انڈوں اور ٹماٹروں کی طاقت کا استعمال شروع کردیا ہے۔ اب بہانہ تو دہشتگرد بنے ہیں لیکن عوام کے پاس جانے کی سکت ان میں بھی نہیں ۔جنہوں نےپانچ سال ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال کیا اور آنکھیں بند کرکے ملک کو لوٹتے رہے ۔

اور اب وہ بھی آنکھیں میاں صاحب اور خانصاحب کی لڑائی میں ڈال کر بیٹھے ہیں کہ ان کی لڑائی میں شاید ان کا بھی کچھ بھلا ہوجائے۔ باقی تو ان کے پاس بھی کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ اب بھی سمجھتے ہیں کہ بے نظیر کے نام پر ہی ووٹ ملے گا۔ جسے وہ ان پانچ سالوں میں کہیں گم کر چکے یا دفنا چکے ۔او پارٹی تو اب پیپلز کی رہی ہی نہیں، جن کی ہے وہ ووٹ ڈالنے والے نہیں مانگنے والے ہیں۔ اور مانگنے والوں کا کیا ہے۔ انہیں تو جس در سے بھی کچھ ملے گا اسی پر نظر آئینگے۔

یہ سلسلہ سالوں سے چل رہا ہے اور اب بھی آنکھیں اسی در پر لگی ہیں جو ہمیشہ سے دیتا آیا ہے۔ ووٹ کی طاقت اور الیکشن تو ایک بہانہ ہے۔ اصل طاقت تو اب بھی وہیں ہے جہاں پہلے تھی۔ وہاں سے تو یہی اطلاع آئی ہے کہ پاکستان تو اسلام کے نام پر ہی حاصل کیا گیا تھا۔ زور سارا اسی پر ہی ہے کہ ’حاصل‘ کیا گیا تھا۔ باقی رہے الیکشن سووہ تو چوہدری صاحب چاہینگے تو ہو بھی جائینگے۔باقی عوام کی نمائندگی کا حق تو عوام انہیں پہلے ہی دے چکے ہیں۔ پھر بھی وہ الیکشن ہونے دیتے ہیں تو وہ بھی ان کا ہی کریڈٹ ہوگا۔ کسی اورکو تو کریڈٹ نا انہوں نے پہلے لینے دیا ہے نا ہی اب لینے دینگے۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024