• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

گوادر میں پانی کا بحران: نقل مکانی کا خدشہ

شائع July 2, 2012

گوادر۔ فائل فوٹو

کوئٹہ: اس سال آگر مون سون کی بارشیں نہ ہوئیں تو انکرا کور ڈیم خشک ہوجائے گا اور ڈر ہے کہ اس طرح بلوچستان کے بندرگاہی شہر اور مستقبل کے اقتصادی مرکز گوادر میں بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی کریں گے کیونکہ علاقے میں قابلِ نوش پانی کا واحد ذریعہ یہی ڈیم ہے۔

ایک مقامی رہنما کے مطابق 'ضلع گوادر کو گزشتہ کئی مہینوں سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ ڈیم میں پانی کی سطع کا بالکل کم ہوجانا ہے اور اب تو یہ ڈیم تقریباً خالی ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے مون سون کے موسم میں گوادر اور مکران ڈویژن کے دیگر اضلاع میں بارشیں نہیں ہوئیں۔

محکمہ صحت کے مطابق گوادر شہر میں دس لاکھ گیلن پانی ہرروز فراہم کیا جاتا ہے، جبکہ اس کی ضرورت چھتیس لاکھ گیلن  ہے۔

ڈیم میں گاد کی سطح بڑھنے  سے  اس کی اوسط عمر کم ہوگئ ہے اوردوسری جانب ڈیم اپنی مدت کا نصف حصہ بھی پورا کرچکا ہے۔

بارش نہ ہونے سے جیوانی، پشیکان، سربندر، پلیری، ناگور، اور نلنت کلانچ میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئ ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی اے کے رہنما نے ڈان کو بتایا کہ پانی کی قلت ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی انتہائی معمولی آمدنی سے  ٹینکر مافیا سے پانی مہنگے داموں خریدنا پڑرہا ہے۔

علاوہ ازیں، ڈیم سے حاصل ہونے والا پانی اچھی طرح سے فلٹر نہیں کیا جارہا جس سے لوگوں میں مختلف امراض پھیل رہے ہیں۔

بی این پی اے کے رہنما کے مطابق 'کسی حد تک یہ مسئلہ ریورس اوسموسس پلانٹ کو ہر علاقے میں نصب کرنے سے حل ہوسکتا ہے جو زیرِ زمین کھارے پانی کو تبدیل کرکے میٹھا بنائے۔ اس کا مستقل حل یہی ہے کہ میرانی ڈیم سے گوادر تک پانی لایا جائے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے شہر کے لیئے بیس لاکھ گیلن سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کےلئےڈی سیلینیشن پلانٹ پر اربوں روپے مختص کئے ہیں۔

ذرائع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ سمندری پانی کو صاف اور میٹھا بنانے کے لئے چارپلانٹس کے لئے رقم مختص کی جاچکی ہے ۔ اس سے گوادر، جیوانی، سربندراور پسنی کے لئے ایک لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جانا تھا لیکن ٹھیکیدار اس پر کام مکمل نہیں کرسکے۔

ذرائع کے مطابق پانچ ڈیمز کے لئے ایک اعشاریہ پانچ ارب روپے خرچ کئے گئے لیکن اب تک ان سے ایک گلاس صاف پانی بھی حاصل نہیں ہوسکا جس کی وجہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی غفلت اورغبن ہے۔

آگر ڈیموں کو  دریائے دشت اور باسول سٹریم پر بنایا جاتا تواس میں بارش کا پانی  پینے اور کھیتی پاڑی کرنے کے لیئے جمع کیا جاسکتا تھا۔

دوسری جانب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چھ ارب روپے کی رقم سے تعمیر کئے جانے والا میرانی ڈیم مکران کے لوگوں کے لئے بے مصرف ہے کیونکہ اس کی پوری منصوبہ بندی غلط کی گئی ہے۔

حال ہی میں بلوچستان کے وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے گوادر کا دورہ کیا اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے مختلف فیصلے کئے۔

بلوچستان میں فشریز کے وزیر حمل کلمتی نے کہا ، ' وزیر اعلی نے کئی پانی کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے اور ان منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کے لیئے متعلقہ حکام کو حکم دیا ہے'۔

حمل کلمتی نے بتایا کہ شادی کور ڈیم کے لئے چار ارب اور ساور ڈیم کے لئے دو ارب روپے رکھے گئے ہیں جن پر کام شروع ہوچکا ہے۔

انہوں نے اس کا اعتراف کیا کہ گوادر میں پانی کی کمی کا واحد حل یہی ہے کہ میرانی ڈیم سے پانی یہان تک لایا جائے لیکن انہوں نے کہا کہ ضلع کیچ کی انتظامیہ اس عمل کے خلاف ہے۔

گوادر کے ایک رہائشی عبدالحفیظ نے ناامیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'چاہے جتنے بھی وعدے اور دعوے ہوجائیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیئے کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھایا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں گزشتہ ایک دہائی سے پانی کی شدید قلت ہے لیکن حکام نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھارہے۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024