ملک عدالتی آمریت کی جانب بڑھ رہا ہے؟
ہمارے ہاں ابتداء سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ ملک کی بربادی کا معاملہ درپیش ہو تو فوج اور سویلین اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے کندھوں پر سارا ملبہ ڈالتی آئی ہے۔ یہ بھی ہمارے ملک کی گویا ایک رسم بن چکی ہے کہ سیاستدان اقتدار تک براہ راست پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ فوج کا سہارا نہ ملے!
مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے واحد سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فوج نے اپنا منہ کالا ہونے سے بچنے کے لیے بھٹو کے مضبوط کاندھوں کا سہارا لیا تھا۔
پھر ضیاءالحق کے طیارہ حادثے کے بعد بے نظیر کی پہلی حکومت بھی فوج کی آشیرواد سے قائم ہو سکی تھی، جس میں غلام اسحٰق خان اور صاحبزادہ یعقوب خان اُس حکومت کوفوج سے جہیز میں ملے تھے۔
پیپلز پارٹی کی موجودہ گورنمنٹ بھی اسی کھیل کا ہی تسلسل ہے کہ جب فوجی و سول اسٹیبلشمنٹ پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ بڑھا کہ اب عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے تو اس ظلم کو انجام دینے کے لیے جمہوریت کے کندھوں کو استعمال کیا گیا۔
یہ بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ ملکی اقتدار کے تین ستونوں کے ساتھ ایک چوتھے ستون نے بھی سر اُبھارا ہے اور اپنے آپ کو منوانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ جس کی ایک مثال پرویز مشرف پر مقدمہ اور ان کی گرفتاری ہے۔
قوت مقتدرہ فوجی ہو یا سول بیوروکریسی پر مبنی، دونوں کا مطمع نظر ملک میں رجعت پسند گروہوں کی سرپرستی ہی رہا ہے۔ ان دونوں ستونوں نے ہمیشہ سے ہی ماضی پرست، خرد دشمن گروہ اور ان کے لیڈروں کی دامے درمے سخنے مدد کی ہے، جبکہ ملک میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کا پرچار کرنے والے سیاستدانوں کی تضحیک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
مثال کے طور پر قیام پاکستان کے بعد سے ہی مشرقی پاکستان فوج کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا اور ملک کے مشرقی بازو کے شہریوں کے ساتھ سوتیلے سے بھی بدتر سلوک روا رکھا گیا۔ آج ہر عام و خاص یہ کہتا ہے کہ “ادھر تم ادھر ہم” کا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا، حالانکہ یہ تو فوجی اشرافیہ کے دل کی آواز تھی جو برسوں سے اس کے لیے راہ ہموار کررہی تھی۔
اسے امریکن سی آئی اے کے ساتھ مل کر اسلام کی ایک ایسی وضع جو تیار کرنی تھی جو نہایت بدوضع اور ہیبت ناک تھی۔ مشرقی بازو کے ساتھ جُڑے رہنے سے شاید ایسا ممکن نہ ہوتا۔
وہاں تو مولانا بھاشانی جیسے باریش لوگ موجود تھے جو سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرتے تھے۔ چنانچہ جہاد کے نام سے امریکی سی آئی اے کا تیار کردہ مکروہ کھیل کھیلنے کے لیے اس ملک کے ٹکڑے کر دیے گئے اور بہت چالاکی کے ساتھ سارا الزام ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر ڈال دیا۔
حالانکہ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہےجن کا حافظہ گیارہ سالہ دور سیاہ میں محفوظ رہا ہے، اور انہوں نے مذہب کے نام پر کی جانے والے برین واشنگ کے عمل سے خود بچائے رکھا ہے۔
ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے کسی بیان میں ایسا نعرہ نہیں لگایا تھا، انہوں نے لاہور میں جشن فتح کے عنوان سے نکالے گئے ایک جلوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “بنگالیوں نے مغربی پاکستان کی اتنے عرصے غلامی کی، مگر ہم بنگالیوں کی غلامی نہیں کریں گے بلکہ برابری کی سطح پر اُن کے ساتھ رہیں گے۔”
بھٹوکے اس بیان کو روزنامہ آزاد لاہور نے جو اُس وقت ایک تیسرے درجے کا اخبار تھا، یوں شہہ سُرخی کی زینت بنادیا کہ “اُدھر تم، اِدھر ہم”۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات شاید یہ ہوگی کہ اس وقت اس اخبار کی سرخی کو کسی نے نوٹ نہیں کیا اور نہ ہی کہیں اس کو دوہرایا گیا۔ اُس وقت اس اخبار کے ایڈیٹر عباس اطہر تھے، ماہنامہ ‘قومی ڈائجسٹ ’ کے شمارہ جولائی 2008ء میں شایع ہونے والے ایک انٹرویو میں اس حوالےسے تفصیلات بیان کی تھیں۔
اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ضیاءالحق کی فوجی آمریت میں اس سرخی کو بہت زیادہ اُچھالا گیا، اور ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پر ملک توڑنے کا الزام عائد کرنے میں اس سے جس طرح مددلی گئی، اس وقت عباس اطہر کے ذہن میں اس کا گمان تک نہیں ہوگا۔
آج بھی یہی ہورہا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں خوداعتمادی کی کمی ہے، اس لیے کہ ان میں سے اکثر کے کردار شفاف نہیں ہیں، یا پھر یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ملک کا ماحول ہی ایسا بن گیا ہے کہ اگر کچھ کرنا ہے تو فوج کے ساتھ چلنا لازم ہے، ورنہ کتنے ہی باصلاحیت لوگ بے دردی سے مار دیے گئے اور آج ان کا ذکر بھی نہیں ہوتا۔
آج بھٹو کو ملک توڑنے کا ذمہ دار اور سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ سی آئی کے ہاتھوں بھٹو کھیل رہے تھے یا جماعت اسلامی کے پرہیزگار و متقی باریش علمائے کرام ؟
اس زمانے میں یہی جماعت اسلامی تو تھی جو آج ایٹم بم کو ایسا لگتا ہے کہ گود لے بیٹھی ہے، اسی ایٹم بم کی تیاری کا آغاز کرنے والے بھٹو اور ان کی فیملی کے لیے انہی لوگوں نے فحش القابات ایجاد کیے تھے اور عوام کو کہا جاتا تھا کہ اب گھاس کھانے ہی کو ملے گی کہ یہ ایٹم جو بنا رہے ہیں۔
کیا عجیب زمانہ تھا، آج کسی کو بتایا جائے تو شاید یقین ہی نہ کرے کہ اس دور میں امریکہ پر تنقید کرنے والوں اور اس کو سامراج قرار دینے والوں کورجعت پسند گروہ کے علماء اور ان کے پیروکار دہریہ قرار دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہی دائیں بازو کی بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کے رہنما ہی تو تھے کہ جن کے ہمنوا اخبارات میں فیض احمد فیض کو ان دنوں فیضوف لکھا جاتا تھا۔
آج ھی یہی لوگ ہیں کہ جن کا جنم ہی گویا امریکی لیبارٹری میں ہوا تھا، بظاہر امریکی مخالفت کے نعرے لگا کر بباطن اسی امریکہ کو بالواسطہ فائدہ پہنچارہے ہیں!
آج دائیں بازو کی بنیاد پرست قوتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے فوج، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے ہمراہ ایوان اقتدار کے بنیادی ستونوں میں عدلیہ کو بھی ایک ستون کی حیثیت سے جگہ دینے کے لیے متفق ہوچکی ہیں، فوج نے بھی لگتا ہے کہ اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ بلاروک ٹوک جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ ملک میں آئندہ آمریت فوج کے بجائے عدلیہ کی جانب سے مسلط کی جائے گی۔
بنیاد پرستوں کے ساتھ بہت سے روشن خیال اور پروگریسیو افراد بھی جو آزاد عدلیہ کے نعرے لگارہے تھے، تب وہ ایسی آمریت کا کیا جواز پیش کریں گے؟
جواز تو اب بھی شاید کسی کے پاس نہیں ہے کہ ایک مطلق العنان آمر سے حلف لینے والے اور اس کو آئین میں بلاروک ٹوک من مانی ترمیم کرنے کا اختیار دینے والے ججز اسی ڈکٹیٹر کے مقدمات کا فیصلہ کیوں کر دے سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر بعض مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی ٹیررازم کورٹ کے جج ایک ایسے شخص کے بھائی بتائے جاتے ہیں، جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اُن پر بلیک واٹر کو اسلحہ سپلائی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک دوسرے جج جنہوں نے پرویز مشرف کی ضمانت نامنظور کی، اُن کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ وہ لال مسجد کے پر فوجی آپریشن کے خلاف مقدمے کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔
یاد رہے کہ لال مسجد کے حوالے سے بھی اب وفاقی شریعت کورٹ کے جج جسٹس شہزاد شیخ کی سربراہی میں قائم کمیشن کی رپورٹ شایع ہوگئی ہے، جس کے مطابق لال مسجد آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والوں میں کوئی ایک خاتون بھی شامل نہیں تھی۔ جبکہ برسوں سے مذہبی طبقہ اس آپریشن میں معصوم بچیوں کی شہادت کے نوحے پڑھے جا رہا ہے، اب ان کے دعووں کی قلعی کھل چکی ہے۔
ہم ایک بار پھر یہی سوال کریں گے کہ کیا ایسا نہیں لگتا کہ ملک میں اب عدلیہ کی آمریت کا آغاز ہورہا ہے، جسے روایتی طور پر دائیں بازو کی تمام قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے؟
اس لیے کہ اصغر خان کیس کے ملزموں کے خلاف اس قدر سخت اور فوری اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ جس طرح پرویز مشرف کو گھیر گھار کر قید کردیا گیا ہے۔ اور پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا ہے تو سب سے پہلے بارہ اکتوبر کے اس اقدام کے خلاف چلایا جائے جب کہ اس نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی تھی؟
عدلیہ کی معطلی اور ججز کو نظربند کرنے کا معاملہ یقیناً سنگین ہے، لیکن نوازشریف کی جماعت کی جانب سے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ پر حملے کا معاملہ بھی کم سنگین نہیں، پھر اس واقعے کے ملزمان اور ان کے پشت پناہ افراد کو کیوں آزادی ملی ہوئی ہے اور وہ انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، اُن کا باسٹھ تریسٹھ کی دو دھاری شقوں نے بھی کچھ نہیں بگاڑا۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (15) بند ہیں