موصوف
موصوف سے ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب ہم گھر کا سوداسلف لے کر موٹر سائیکل پر واپس آرہے تھے۔ موصوف اس قدر شدید گرمی میں بھی اپنی پہلی شادی کی وہ شیروانی زیب تن کیے ہوئے تھے، جس کا رنگ یقیناً چار عشرے قبل تک کریمی رنگ ہی رہا ہوگا، لیکن اب وہ امتدادِ زمانہ کے باعث اب گہرے سلیٹی رنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔
سر پر سیاہ مخملیں ٹوپی، چہرے پر فراعین مصر کے فیشن کی چار انچ کے برش کی مانند داڑھی اور گھیر دار شلوار کے رنگ برنگے ازار بند سے لٹکتی بےقفل کنجیاں۔
قبلہ موصوف نے پاکستان کی طبّی تاریخ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، جس سے اُن کا نام گلی گلی، محلّے محلّے خود انہی کے مبارک ہاتھوں سے تقسیم کیے جانے والے پمفلٹوں میں زرّیں حروف سے رقم ہے۔
ایسے تمام اخبارات جو ‘‘دس بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی’’، قبیل کی خبروں کو مزیدار اور چٹ پٹا بنا کر بڑی بڑی سرخیوں میں شایع کرتے ہیں، میں موصوف کے طبّی کارناموں کی (اشتہاری) خبریں بمعہ اُن کی تصویر کے شایع ہوتی ہیں۔
ان اخبارات کو اکثر نوجوان جن کی عمریں بیس سے اسّی سالوں کے درمیان ہوتی ہیں، ذوق وشوق سے خریدتے اور پڑھتے ہیں۔
ایسے ہی اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے نوجوانوں میں جو بیماریاں عود کرآتی ہیں، موصوف اپنی کارتوس ٹائپ کی دواؤں سے اُن کا بدرجۂ اتم تدارک کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں لندن کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی دعوت پر موصوف اپنے خرچے پر لندن تشریف لے گئے۔ لندن کے ہائیڈپارک میں نصب ایک بنچ جو وائس چانسلر صاحب کا آشیانہ بھی ہے اور یونیورسٹی بھی، بلکہ سب ہی کچھ، کی جانب سے اُنہیں ایک اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس ڈگری کے بدلے میں وائس چانسلر صاحب کو موصوف نے معقول اعزازیہ پیش کیا۔ اسی طرح لندن ہی کے کسی پارک کے بینچ پر قائم کسی ورلڈ ہیلتھ سوسائٹی کی جانب سے اُنہیں گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ گولڈ میڈل پہنانے کی تقریب لندن کے ایک تاریک اور سیلن زدہ فوٹو اسٹوڈیو میں منعقد ہوئی۔ گولڈمیڈل فوٹو گرافر سے ہی مستعار لیا گیا تھا، جو اُسے شکریہ کے ساتھ واپس کردیا گیا۔
پاکستان واپس آکر موصوف نے اُس طرز کا نیا میڈل بنوالیا جو دیکھنے میں تو گولڈکاہی لگتاہے۔
صرف انگلینڈ ہی نہیں چین نے بھی اُن کی صلاحیتوں کا لوہا مانا اور انہیں اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری عنایت کی،اور اس کے لیے موصوف چین کے سفر اور اس کے اخراجات سے بھی محفوظ رہے۔ وہ اس طرح کہ شہر کے معروف تجارتی علاقے میں قائم چائنیز ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ایک چینی بیرے کو کچھ دے دلا کر صدر کے ایک فوٹو اسٹوڈیو میں سند وصول کرتے ہوئے تصویر بنوائی گئی۔ جو مذکورہ قسم کے تمام اخبارات نے نمایاں سرخیوں کے ساتھ شایع کی۔
شریعت سے موصوف کو بے پناہ لگاؤ ہے، اسی لیے لوگوں کو ہمہ وقت احکاماتِ شریعت کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ شریعت کی تعمیل خود اس قدر کی ہے کہ اب تک تین شادیا ں کر چکے ہیں اور چوتھی کی تلاش میں ہیں۔
تینوں بیویوں سے بچوں کی کل تعداد بیس کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور مزید کے امکانات موجود ہیں۔
آبادی میں اضافے کا یہ وصف اُنہیں اپنے والدین سے منتقل ہواہے۔ مرحومین بھی دنیا کی آبادی میں حتُّی المقدور اضافہ کر گئے تھے۔
موصوف کے بچوں کی تعداد زیادہ ہے اور گھر تنگ (چند لوگوں کا کہنا ہے اُن کے دل کی طرح)۔ چنانچہ صبح بچوں کو گھر سے باہر گلی میں چھوڑدیتے ہیں اور مغرب کے وقت اندر کرلیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے موصوف اپنی مرغیوں کو کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ مرغیوں کو ڈربے میں بند کرتے وقت ایک خاص رِدھم میں ‘‘ڈربے ڈربے’’ کی گردان کرتے ہیں، بچوں کو گھر کے اندر کرتے وقت ایسا نہیں کرتے۔
اکثر ہمسایوں کے بچے بھی مغرب کے وقت اس لپیٹے میں آکر اُن کے گھر قید ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ مرزاجی کے تین سالہ پوتے کے ساتھ پیش آیا، وہ غریب موصوف کی بڑی بیگم جو پنجابی فلموں کی ہیروئن کا سا جُثّہ رکھتی ہیں، کو دیکھ کر اتنا ڈرا کہ اُسے 102 بخار چڑھ گیا۔
دوسروں کو مشورے دے کر اُنہیں خاص تسکین ملتی ہے۔ کوئی مانے یا مانے خود ہی کُرید کُرید کر دوسروں کی کمزوریوں کا سراغ لگا لیتے ہیں تاکہ پُر خلوص مشورے سے نواز کر اُن کا تدارک کرسکیں۔ اُن کا خیال ہے کہ یوں معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
اُن کے بعض مخالفین ،جن کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اس حوالے سے خود موصوف یہ سوچ کر بہت خوش بھی ہیں کہ جس کے زیادہ مخالفین ہوتے ہیں وہی ‘‘حق’’ پر ہوتا ہے، کا کہنا ہے کہ دوسروں کی کمزوریوں کے بارے میں جان کر وہ اُن سے ناجائز فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قدرت نے اُنہیں نہایت دردمند دل سے بھی نوازا ہے۔ ہر ایک کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھتے ہیں اسی لیے سوئم، قُل، چہلم اور برسی کی فاتحہ پر بن بلائے شرکت کرتے ہیں، اکثر ایسے موقعوں پر دوسروں کا دل رکھنے کے لیے ضرورت سے زیادہ کھالیتے ہیں۔ اُن کے بعض مخالفین کا خیال ہے کہ اکثرگنجائش سے زیادہ کھا لینے (لوگ یہاں ٹھونس لینے کا لفظ استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے قصداً تبدیل کردیا ہے) کے نتیجے میں اکثر اُنہیں ریڑھی پر ڈال کر گھر لے جانا پڑتا ہے۔ ہم جستجو کے باوجود ایسا منظر دیکھنے سے اب تک دیکھنے سے محروم ہیں، دراصل ہمارا خیال ہے کہ اس قدر عظیم الجثّہ وجود کو کسی کرین کی مدد کے بغیر ریڑھی پر ڈالنا ایک ناممکن اَمر ہے۔
موصوف کی رقّتِ قلبی کا یہ عالم ہے کہ اکثر فوتگی کے مواقعوں پر لواحقین و پسماندگان (خصوصاً خواتین) کو گلے لگا کر تسلی دیتے ہیں۔
ہمارادوست نون، موصوف کی اس رقّتِ قلبی کو ‘‘رقّتِ کلبی’’ کا نام دیتا ہے۔
کھانا، سونا اور آبادی میں بقدرِہمت اضافہ کرنا اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
عاجزی وانکساری اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جس کا قرض مانگتے ہوئے شاندار مظاہرہ ہوتا ہے۔
شیطان کو خود سے دور رکھنے کے لیے اکثروبیشتر ‘‘لا حول ولاقوۃ’’ پڑھتے رہتے ہیں ....اور یہ تو اب اُن کا تکیہ کلام ہی بن چکا ہے۔
نون کہتاہے کہ موصوف لا حول ولا قوۃ شیطان کو خود سے دور کرنے کے لیے ہرگز نہیں پڑھتے....اس ضمن میں نون کا خیال ہے، اُن دونوں کا معاملہ تو ‘‘یک جان دو قالب’’ کا سا ہوچکا ہے۔ دراصل موصوف ‘‘لا حلوہ لا قوت والا لا’’ کہتے ہیں، جس کی مسلسل گردان کی برکت سے محلے کے کسی نہ کسی گھر سے اُن کے لیے روزانہ حلوہ آجاتا ہے۔
میل محبت اور خدمت خلق پر اپنی گفتگو میں بہت زور دیتے ہیں۔ نون کا کہنا ہے کہ ‘‘محبت کی تلقین’’ قرض خواہوں کے لیے ہوتی ہے اور (اپنی) ‘‘خدمت’’ کی تلقین نئے ملنے جلنے والوں کے لیے ....!
نوجوان نسل کو ہر اُس کام سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں جس کا تجربہ ماضی میں وہ خود کر چکے ہیں....نوجوان لڑکوں میں پائی جانے والی پڑوسی ملک کی اداکاراؤں میں ‘‘دلچسپی’’ کو سخت اور کڑی نظر سے دیکھتے ہیں، اداکاراؤں کو خود اس نظر سے نہیں دیکھتے۔
نون کا کہنا ہے کہ اُن کی ساری عبادت و ریاضت کا مقصد خوبصورت نازک اندام اور مرمریں بدن حوروں کا آخرت میں حصول ہے، اسی لیے وہ حوروں کا تذکرہ اس قدر تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ کمر خمیدہ بزرگوں میں بھی جذبات ِجوانی انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔
پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں، اکثر امام کی غیر موجودگی میں از خود امامت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ الحمد شریف کے بعد دونوں رکعتوں میں سورۂ کوثر کی ہی تلاوت کرتے ہیں، پھر نماز کے بعد سورۂ کوثر کے فضائل پر ایک طویل وعظ ارشاد فرماتے ہیں۔
نون کا کہنا ہے کہ ان دونوں سورتوں کے علاوہ اُنہیں تیسری کوئی سورۃ یاد نہیں ہے۔
موصوف کا خیال ہے کہ جمعہ کے روز غسل کرنا باعث ثواب وبرکت ہے، اسی لیے جمعے کے جمعے ہی غسل فرماتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ایک جمعہ ناغہ ہو جائے، پھر دوسرے جمعے تک انتظار کرتے ہیں۔
موصوف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت صابر وشاکر ہیں، گلی کے منچلے لڑکے اکثر اُن کے صبر کا امتحان لیتے رہتے ہیں اور انہیں مختلف القابات سے پکارتے ہیں۔
ایک روز اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو اُن کی زبان سے لڑکوں کے والدین کے لیے کچھ نامناسب الفاظ نکل گئے (عُرفِ عام میں اُن الفاظ کو گالیاں کہتے ہیں)۔
لڑکوں کی ڈھٹائی سے عاجز آکر آخری جملہ اُنہوں نے جو ادا کیا، وہ یہ تھا کہ ‘‘کیا میں گدھا ہوں؟ تم لوگوں نے مجھے کیا گدھا سمجھ رکھا ہے؟ ہاں میں گدھا ہوں،لیکن....’’
ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ یہی وہ عظیم ترین لمحہ تھا کہ جب وہ ‘‘عرفانِ ذات’’ کی منزل کے قریب تر جا پہنچے تھے۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں