• KHI: Maghrib 6:52pm Isha 8:10pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:51pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 8:00pm
  • KHI: Maghrib 6:52pm Isha 8:10pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:51pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 8:00pm

سفر کی ابتدا: لاہور کا گرما گرم سیاسی ماحول

شائع April 20, 2013

سفر کی ابتدا: لاہور کا گرما گرم سیاسی ماحول

(تصاویر کو بڑا کرنے کے لیے کلک کریں)

سائیں ہیرا کی دیوانگی

saeen-1 شدید جذباتی تعلقات ہمیشہ میری دلپسچی کا باعث رہے ہیں۔ ایک شخص کس طرح اپنی ذات کو بھلا کر دوسروں کے بے لوث کام آتا ہے؟

دو انسانوں کے درمیان پیار کو ہم ایک طرح کی خود غرضی کے زمرے میں ڈال سکتے ہیں، لیکن کسی سیاسی رہنما اور ایک پارٹی سے دیوانگی کی حد تک پیار ہو جانا۔ یہ بہت حیران کن ہے۔

سائیں ہیرا خود کو بھٹو کا پروانہ کہتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر عام انسانوں کی طرح نہیں۔ انہیں ہلنے جلنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور بولنا تو ان کے لیے اور زیادہ مشکل ہے۔ حتٰی کہ وہ تو سہارے کے بغیر چل پھر تک نہیں سکتے۔

سائیں کہیں آنے جانے کے لیے لاٹھی کے بجائے ایک ٹوٹی پھوٹی ویل چیئر استعمال کرتے ہیں، جس پر بھٹو خاندان کے دو شہدا کی تصاویر سجائی گئی ہیں۔

سائیں جب بھی کبھی اپنی بہو کے کسی کام کے سلسلے میں بازار جاتے ہیں تو دونوں بھٹو ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔

میں نے کچھ وقت سائیں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گزارا۔ اس کا احوال جاننے کے لیے کلک کریں۔ saeen-1a یہ مزنگ کے علاقے میں رہتے ہیں۔ کبھی یہ لاہور شہر سے باہرایک نواحی علاقہ ہوا کرتا تھا، جہاں قریب ہی ایک آکٹرائے پوسٹ اور سینٹرل جیل تھی۔

ایک جانب، غیر آباد ٹیلا بھی تھا جو شہد کی مکھیوں کی آماشگاہ تھا، شاید اسی مناسبت سے اس کا نام بھونڈ پورہ پڑ گیا۔ یہ علاقہ بھی آج کچی آبادی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

لاہور کی کچی آبادیاں اب کچی نہیں رہیں۔ یہاں موجود عمارتوں پر متلعقہ قوانین لاگو نہیں کیے جاتے، سڑکیں بے ترتیب اور شہری سہولیات ناکافی ہیں۔ اس سب کے باوجود یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ زمین کی ملکیت کا ہے۔

جن زمینوں کے دعوے دار نہیں تھے وہاں لوگوں نے اچھی جگہیں دیکھ کر رہنا شروع کر دیا۔ ان کی اکثریت شہری حدود یا پھر گندھے نالوں کے کنارے آباد ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ دلیر ہو چکے ہیں اور اب قبضے کی ان زمینوں پر پختہ مکان بنانے لگے ہیں۔

ان سب عمارتوں کی تعمیر بہر حال غیر قانونی ہے اور قابضین کو وقتاً فوقتاً شہری انتظامیہ کے اہلکاروں کی مٹھیاں گرم رکھنی پڑتی ہیں۔

ان زمینوں کو خرید کر باقاعدہ رہائشی کالونیاں اور دیگر کارروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے لینڈ ڈیولپرز کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔

یہ کچی آبادیاں منتخب نمائندوں کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں کیونکہ بنیادی طور پر یہاں آبادی بہت زیادہ ہوتی ہے - جس کا مطلب ہے زیادہ ووٹرز۔

یہ آبادیاں شہری سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر انتخابی امیدوار نظر رکھتا ہے ایسی کتنی آبادیاں اس کے حلقے میں آتی ہیں اور وہ ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی مالکانہ حقوق دینے کا وعدہ نہیں بھولتا۔

باغ میں لائیو ٹاک شو talkshow-1 میں ٹی وی بہت کم دیکھتا ہوں اور ٹاک شوز تو ہرگز نہیں۔

مجھے مرغوں یا اوردوسرے جانوروں بالخصوص سیاسی جانوروں کے درمیان لڑائی تو بالکل بھی پسند نہیں۔

وجہ یہ ہے کہ ان کی دلچسپی اور توجہ معیاری بحث و مباحثے سے کہیں زیادہ اپنے دکھاوے میں ہوتی ہے۔

لیکن میں لاہور کے جناح باغ میں ہر صبح ہونے والے ایک اور طرح کے 'حقیقی' لائیو ٹاک شو سے بہت لطف اندوز ہوا ہوں۔

اس شو کے مہمان چونکہ اندورن شہر کے ملحقہ علاقوں میں رہتے ہیں، لہذا آپ انہیں پکے لاہوری کہہ سکتے ہیں۔

ان میں آپ کو نواز شریف کے کٹر حامی، جان نچھاور کرنے والے پپلیے، مشرف کے پرستار، عمران کے مداح اور ق لیگیے بھی ملیں گے۔

اس شو کا کوئی میزبان نہیں ہوتا اور کسی مخصوص موضوع کی بھی کوئی قید نہیں۔

بنگلہ دیش علیحدگی میں بھٹو کے کردار سے لے کر توانائی بحران کے اصل ذمہ داروں کی کھوج تک سبھی موضوعات پر بات ہوتی ہے۔

لیکن آج کا سوال یہ تھا کہ آیا مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے؟

نواز گروپ کے حامی انتقام لینے، پی پی پی کے جیالے ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کی رائے رکھتے ہیں۔ ق لیگیوں کو ردعمل 'تھماری ہمت کیسے ہوئی' نوعیت کا تھا، جس پر کافی فقرے بھی چست کیے گئے۔ talkshow-2 ان کی مختلف آراء میرے لیے کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی لیکن ان سب کے مثبت رویے یقیناً حیران کن تھے۔

آپس میں لاہوری یار دوست ہونے کے باوجود اتنے مختلف خیالات رکھنا پختگی کی خوشگوار مثال نہیں؟

ان سب نے اپنے سیاسی خیالات کے قطع نظر ہنستے کھیلتے ہوئے پرامن انداز میں مل جل کر رہنے کا فن سیکھ لیا ہے۔

میں سمجھتا تھا کہ اس طرح کی سیاسی پختگی صرف اعلٰی قیادت تک ہی محدود ہے، جنہوں نے اس بار، نوے کی دہائی کے برعکس، اپنے سیاسی اختلافات کو قبائیلی دشمنیوں جیسا نہیں بنایا۔

تو کیا یہ تبدیلی نیچے سے اوپر کی جانب اٹھی ہے یا پھر اوپر سے ہوتے ہوئے نیچے سیاسی ورکروں تک پہنچی؟ مجھے ابھی یہ جاننا ہے۔ talkshow-3 یہ ٹاک شو جگتوں کے بغیر ناکمل ہوتا ہے کیونکہ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی محفل کا شریک مخصوص لاہوری انداز میں جگت لگانا نہیں بھولتا۔

آج کی محفل میں جگتوں کا نشانہ ایک بیچارہ نوجوان ہے جس کی بیوی پانچ سال ناراض رہنے کے بعد واپس آئی ہے۔

محفل میں ستر، اسی کے پیٹھے میں ایک بوڑھے شوقیہ گلوکار بھی شامل ہیں جو وقتا فقتا رفیع کو گنگناتے ہیں۔

مجھے بتایا گیا کہ یہ بزرگ ستر کی دہائی اور اس سے پہلے کے گانوں، گلوکاروں، موسیقاروں کی چلتی پھرتی انسائیکلو پیڈیا ہیں۔

محفل کے ارکان نے مجھے بتایا کہ وہ اس خوبصورت باغ میں چہل قدمی کرنے آتے ہیں اور پھر کچھ دیر کے لیے دیر تک چلتے رہنے والے اس ٹاک شو کا حصہ بن جاتے ہیں۔

میرے خیال میں تو وہ یہاں اپنی سیاسی کیلوریز جلانے آتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ رات ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھنے کے دوران جمع کر لی تھیں۔

خاموش بحث لاہور سے سفر کا باقاعدہ آغاز کرنے سے پہلے میرا ٹیمپل روڈ پر ایک چائے کے کھوکے پر بھی جانے کا اتفاق ہوا تھا، جہاں سماعت اور بولنے سے محروم لوگوں کا اکٹھ ہوتا ہے۔

یہ لوگ زیادہ تر ہفتہ اتوار کو ایک دوسرے کے خیالات جاننے کے لیے شہر کے دور دراز علاوں سے یہاں آتے ہیں۔

میں نے بھی انہیں جوائن کرنے کی کوشش کی جس پر مجھے خوش آمدید کہا گیا۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں بھی سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔ یہ گفتگو کیا تھی، آئے دیکھتے ہیں۔

لور لور اے۔ لاہوریوں کی بڑی تعداد کی طرح یہ بھی نواز لیگ کے کٹر حامی ہیں۔ دیکھیں، یہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔

پی پی پی، مائی فٹ آراء مختلف ہو سکتی ہے اور بحث و مباحثہ ماحول کو گرما سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں پی پی پی کے محدود حامی ہیں۔ دیکھیں یہاں ایک پی پی پی حامی سے کیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025