• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

بلوچستان: پرچی یا گولی

شائع April 22, 2013

سردار اختر مینگل -- فائل تصویر
سردار اختر مینگل -- فائل تصویر

اس وقت بلوچ ذیلی قومیتیں خود کو دو اہم صورتِ حال میں گھرا محسوس کرتی ہیں: کشیدگی کو مضبوط تر کریں اور آنے والے انتخابات کو سبو تاژ کردیں یا پھر ووٹ دیں اور پرچی کے ذریعے اپنی آواز اوپر تک پہنچائیں۔

علیحدگی پسند گروہ بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کے مطابق 'انتخابات اسلام آباد کی طرف سے تھوپے گئے ایک حیلے کے سوا کچھ اور نہیں، جس کا مقصد بلوچوں کی آواز اور ان کے مطالبات کو کچلنا ہیں۔'

بلوچستان نیشنل پارٹی ۔ مینگل کے سربراہ اختر مینگل کو بھی انتخابات میں حصہ لے کر جمہوری جدوجہد کی راہ اختیار کرنے پر، سخت گیر قوم پرستوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔

ان کے ساتھ ساتھ بعض دیگر معروف بلوچ قوم پرست سیاستدان بھی آنے والے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جیسا کہ میر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک اور طلال بگٹی۔ بغاوت کے بجائے ان کی ترجیح جمہوریت ہے۔

لیکن ڈاکٹر نذر کا کہنا ہے کہ 'اگر اختر مینگل ان شرمناک انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو یہ اس سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے کے مترادف ہوگا جو اگر ہزاروں نہیں، تب بھی سیکڑوں بلوچوں کے قاتل ہیں۔

اختر مینگل کو بلوچوں کی ناراضی کا احساس ہے۔ گذشتہ ماہ، اپنی آمد سے قبل انہوں نے سپریم کورٹ کو ایک کھلا خط لکھ کر، انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق تمام تر تحفظات کا اظہار کر کے، انہیں دور کرنے کی ایک کوشش بھی کی تھی۔

اختر مینگل کے خط کے مطابق ستمبر دو ہزار بارہ میں، سپریم کورٹ میں ان کے پیش ہونے کے بعد سے اب تک بلوچستان میں 'ساٹھ تشدد زدہ لاشیں پھینکی گئیں، ہدف بنا کر ستر قتل کیے گئے اور ایک سو افراد لاپتا ہوئے۔'

خط کے مندرجات میں اختر مینگل کا کہنا تھا کہ 'لاپتا افراد کے لواحقین کو جس کرب کا سامنا ہے، اُسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نظامِ انصاف پر سے اُن کا اعتماد ختم ہوچکا۔'

انہوں نے اپنے گذشتہ چار روزہ دورے کو 'آخری امید' سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر جنگ زدہ ماحول میں، جو کہ بلوچستان بن چکا، اگر ایسے میں یہ منعقد کیے گئے تو پھر الیکشن صرف سلیکشن ہوں گے۔'

بلوچوں کے اندر جاری کشمکش کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریاست اور سول سوسائٹی کو یہ سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو قوم پرستوں کو دو مختلف سمتوں میں کھینچ رہے ہیں۔

ایک مکمل طور پر آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کے لیے پُرعزم ہے تو دوسرا وفاق کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، ان دونوں کے درمیان واضح فرق کرنا ہوگا۔

اللہ نذر، بلوچ باغیانہ صورتِ حال کا چہرہ ہے تاہم بلوچ لبریشن فرنٹ کے علاوہ، مزید تین دیگر کلیدی اہم بلوچ شدت پسند تنظیمیں، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ یونائیٹڈ فرنٹ بھی ہیں، جو بلوچستان کے تین حصوں میں منقسم ہونے کی وکالت کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نذر، بلوچ بغاوت کو باغیوں کے مضبوط گڑھ سے باہر نکال کر، دوسرے علاقوں تک پھیلانے میں کامیاب رہا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز پر ان کے حملے بھی بڑھ چکے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جارحیت پسند بلوچ نوجوانوں میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ کا حامل، ڈاکٹر نذر ایک ایسی کیس اسٹڈی کے طور پر ہے جو اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ مستقبل کو چھوڑ کر، مغربی بلوچستان کے پہاڑی علاقوں کے کشیدہ حالات میں ہتھیاراٹھانے والوں میں شامل ہوگیا۔ نذر کا تعلق آواران ضلع کے ایک قصبے مشکے میں آباد متوسط گھرانے سے ہے۔

سن اُنیّسو اڑسٹھ کو پیدا ہونے والا نذر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، جس کے لیے اُس نے ابتدائی طور پر، سن اُنیّسو چھیاسی میں تربت کی عطا شاد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

سخت محنت اور مقصد سے لگن کے باعث نہ صرف وہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا بلکہ سن اُنیّسو ننانوے میں اسے گائنا کالوجی کے مضمون میں گولڈ میڈل سے بھی نواز گیا۔

دیگر بلوچ سرگرم نوجوان طالب علموں کی طرح اس نے بھی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی۔ یہ بلوچستان نیشنل موومنٹ، جو اب نیشنل پارٹی کہلاتی ہے، کی طلبہ تنظیم تھی۔

سن دو ہزار نو میں اس تنظیم سے علیحدگی کے بعد نذر کا رابطہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہوا، جس کا جھکاؤ آزادی کی طرف اور وہ مسلح مزاحمت کی حمایت کرتی ہے۔

مارچ، دو ہزار پانچ میں، بعض سادہ لباس مسلح افراد نے نذر کو کراچی کے ایک فلیٹ سے اٹھایا اور وہ تقریباً ایک سال تک لاپتا رہے۔ سن دو ہزار چھ میں وہ سامنے آئے۔ انہین کوئٹہ جیل بھیج دیا گیا، جہاں نذر نے قید کے مزید کئی ماہ گذارے۔

چند ماہ بعد انہین ضمانت پر رہائی ملی لیکن اس بات نذر نے خود روپوشی اختیار کی۔ وہ تربت کے قریب واقع پہاڑوں میں روپوش ہوئے اور ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد میں حصہ لینا شروع کردیا۔

سکیورٹی حکام کا تخمینہ ہے کہ مجموعی طور پر ایک ہزار مسلح شدت پسند سرگرم ہیں، جن میں سے سے ڈھائی سو کے قریب بنیادی نوعیت کے حامل ہیں۔ بلوچ لبریشن فرنٹ کے تین سو سے چار سو جنگجو مسلح جدوجہد میں شامل ہیں۔

مزیدِ برآں، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نذر نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت چھ ہزار سے زائد جنگجو موجود ہیں، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اگرچہ نذر کی مسلح جارحیت بہت بڑے پیمانے پر نہیں لیکن اس سے ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے: قبائلی پس منظر نہ رکھنے والے، متوسط طبقے کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شمولیت۔

روایتی طور پر شورش پسند عموماً نا خواندہ اور قبائلی جنگجو ہوتے تھے مگر اس کے برخلاف پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی شدت پسند گروہ غیر قبائلی ہے۔ اس نے سورش پسندوں کا خاکہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔

جارحیت پسندوں کا اہم چیلنج، آئندہ عام انتخابات اور انتخابی عمل کو مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت سبوتاژ کرنا ہوگا اور نہایت نازک نگراں حکومت کو ان کوششوں کو ناکام بنانا ہوگا۔

ان کے مقاصد تو بارہ مارچ کو ہی واضح ہوچکے تھے جب حربیار مری کی زیرِ قیادت بلوچ لبریشن آرمی نے کوئٹہ میں ضلعی الیکشن کمشنر ضیااللہ قاسمی کو ہدف بنا کر قتل کیا تھا۔ بلوچستان لبریشن آرمی کے ایک ترجمان ترجمان کا کہنا تھا کہ 'ہم پاکستان کو بلوچستان میں انتخابات کرنے نہیں دیں گے۔'

ساتھ ہی براہمداغ بگٹی کی زیرِ قیادت بلوچ ری پبلکن آرمی کا بھی دیگر علیحدگی پسندوں کے قریب تر ہونے کا امکان ہے۔

اس داخلی سنگین کشمکش میں کہ جہاں شدت پسند قوم پرست باغیانہ سرگرمیوں کی حمایت کررہے ہیں جبکہ بلوچ سیاسی جماعتیں جمہوری راہ اختیار کرچکیں، ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ وعدہ حوصلہ افزا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرتے ہوئے، انتخابات کے واسطے انہیں ہموار میدان فراہم کیا جائے گا۔

ساتھ ہی فوک کے سربراہ کا دورہ کوئٹہ اور صوبے کی سیاسی جماعتوں پر اس ضرورت کا اظہار کہ وہ آنے والے عام انتخابات میں حصہ لیں، مثبت علامات ہیں، جن سے جمہورہت مضبوط ہوگی۔

یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم اور فیصلہ کُن لمحہ ہے۔ ریاستی سلامتی کے ذمہ دار تمام اداروں کو جمہوری عمل مضبوط بنانے والے اُن بلوچ سیاستدانوں کی حمایت کرنی چاہیے جو اپنی شکایات کے ازالے کے لیے ایک دہائی سے جاری جارحیت پسندی میں شمولیت کے بجائے، جان بوجھ کر جمہوری عمل کا انتخاب کررہے ہیں۔

اب وقت آچکا کہ کہ ان تک پیار کے ساتھ پہنچا جائے اور ان کے زخموں پہ مرہم رکھ کر انہیں مندمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ جان لیں کہ بلوچ کو توڑا جاسکتا ہے مگر اسے جھکایا نہی جاسکتا۔ آئیں اور ان کے کردار کی اس قوت کو احتیاط کے ساتھ مضبوط، خوشحال اور مستحکم پاکستان کی تشکیل میں استعمال کریں۔


مضمون نگار بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔

ترجمہ: مختار آزاد

طارق کھوسہ

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024