• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

مرتضیٰ رضوی، میرا دوست

شائع April 18, 2013

فوٹو السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/88403637" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


کل انیس اپریل ہے۔ پچھلے سال انیس اپریل کی صبح تو اندھیرا ہی چھا گیا تھا۔ ویسے تو اندھیرا اس مملکت خدادادِ پاکستان میں کب سے چھایا ہوا ہے۔ لیکن اس صبح اندھیروں میں ٹمٹماتی ایک لو کو بھجا دیا گیا تھا کہ اندھیروں کے پلے اس ملک کے باسیوں کو روشنی کی کرن سے بھی خدا واسطے کا بیر ہے۔

یہ ٹمٹماتی لو اور روشنی کی کرن میرا دوست اور ساتھی مرتضیٰ رضوی تھا۔ جو اس ملک کے ان اعلی ٰ تعلیمیافتہ بیٹوں میں سے تھا جو دنیا بھر کی ڈگریاں ہونے اور کئی زبانوں پر عبور کے باوجود بھی باہر بیٹھ کے پیسہ کمانے اور عیاشی کی زندگی گذارنے پر اپنے ملک میں آکر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

مرتضیٰ کی روانگی اس کے ساتھیوں، دوستوں اور اہلِ خانہ کے لیے تو بہت بڑا نقصان تھا ہی، لیکن اس قوم اور ملک سے پیار کرنے والوں کا اس سے بھی بڑا نقصان ہوا تھا۔

جہاں ہمیشہ سے اندھیروں کا ہی راج رہتا ہو۔ وہاں مرتضیٰ جیسے لکھنے والے ایک جلتے دیے کی مانند ہوتے ہیں کہ وہ گھپ اندھیرے اور طوفانوں میں بھی نہیں بجھتے۔ اور اپنے حصے میں آئی تھوڑی بہت روشنی سے اپنے ارد گرد کو منور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

اس کی اچانک روانگی ایک حادثے کا نتیجہ ہی سہی۔ لیکن اس کے دوستوں، ساتھیوں اور حلقہ احباب کو ایسی خاموشی دے گیا کہ جو لوگ ہر تقریب میں کسی انجان کے لیے بھی ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا لازمی سمجھتے ہیں وہ پورا سال گذر گیا لیکن اب بھی خاموش ہیں۔

ایسا لگتا ہے مرتضیٰ رضوی نام کا کوئی شخص پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ نا کسی نے اس کے بارے میں لکھنے کی کوشش کی، نا کوئی تعزیتی اجلاس ہوا اور ناہی کسی نے اس کے کام پر نظر ڈالنے کی کوشش کی۔ جو صحافت، ادب اور آرٹ تک پھیلا ہوا ہے۔

اس ملک میں چور چکار، ڈاکو لٹیرا، غریبوں کا خون چوسنے والا ہو یا پوری انسانیت کی تذلیل کرنے والا۔ جھوٹا ہو کہ مکار اس کے مرنے کے بعد بھی ہم نے سوگ مناتے دیکھے، ہڑتالیں ہوتے دیکھیں، برسیاں منتے دیکھیں، نمبر نکلتے دیکھے تو ان کی شان میں کالم بھی چھپتے دیکھے۔ لیکن مرتضیٰ نے آخر ایسا کیا کردیا تھا کہ اس کی سب اچھائیاں، اس کی انسان دوستی، اس کی غریب پروری بھی، اس کے کام بھی یہ حادثہ نگل گیا؟

مرتضیٰ کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ ہم چپ چاپ اسے بھول جائیں۔ وہ ایک زندہ دل، ملنسار، آرٹ اور ادب سے محبت کرنے اور اسے پروجیکٹ کرنے والا شخص تھا۔ جہاں صرف نفرت اور بنیاد پرستی کی ترویج ہو رہی ہے، وہاں وہ پیار، محبت اور رواداری پھیلانے میں مشغول تھا۔

مجھے یاد ہے ہمارے دوست اور سندھی کےشاعر حسن درس کی حادثاتی موت ہوئی تو ہم ڈان کے کاریڈور میں کھڑے ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں تعزیت کر رہے تھے کہ ایسے موقعوں پر زبان بھی ساتھ نہیں دے پاتی۔ پھر اس نے دوستوں کو جمع کیا اور اسی ہفتے ڈان کے بوکس اینڈ آتھرس میں حسن درس کا نمبر نکلا کہ جس سے جہان کو معلوم ہوا کہ اس نے کیا کھو دیا ہے۔

لیکن جب ہم نے مرتضیٰ کو کھویا تو اس پر نمبر نکالنا تو دور کی بات ہے، کسی نے لکھنے کی بھی جسارت نہیں کی۔ مرتضیٰ صحافت کے پیشے میں ہی بڑا نام نہیں تھا، آرٹ اور ادب کے لیے بھی ایڈیٹر کے منصب ہوتے، جتنی اس نے خدمات انجام دیں وہ بھی بہت سوں سے نہیں بھلائی جائینگی۔

صحافت کی گلیاں اب ایسے پڑھے لکھے لوگوں کے وجود سے ناپید ہوتی جارہی ہیں جو اپنی زمین سے بھی جڑے ہوتے ہیں تو کتابوں سے بھی یارانہ نہیں چھوڑتے۔ اب تو صحافی بھی سونے میں تلنے لگے ہیں۔ زمین پر پاؤں انکے بھی نہیں پڑتے۔ لیکن وہ شخص ہمیشہ زمین پر ہی رہا۔ اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو جو دل میں اس کے لیے کچھ بھی لیے پھریں، لیکن اس کی آنکھوں میں ہمیشہ پیار اور ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی۔ وہ نا صرف اپنے ارد گرد کے لوگوں کے کام آتابلکے اور بھی جس جس کے لیے وہ دل میں درد رکھتا انکے لیے نا صرف لکھتا، لیکن خاموشی سے انکی مالی مدد بھی کرتا۔ ایک دن وہ ہمارے ایک دوست کو سیلانی کے ہاں سے نکلتے ہوئے ملا اور اسے مسکرا کر کہا کہ اب تم سمجھو گے کہ میں بھی یہاں کھانا کھانے آیا ہوں۔

ویسے بھی اس کی حسِ مزاح پر لہوری رنگ بہت حاوی تھا، کہ وہ پیدا تو لہور میں ہی ہوا تھا۔ لیکن ہمیشہ اپنے آپ کو کراچی والا ہی کہلانے پر فخر کرتا۔ ماں کے مرنے کے بعد اس نے شاعری بھی بہت کی اور جب بھی کوئی محفل ہوتی تو شاعری ضرور سناتا۔ شاعری سننے اور سنانے کا شوق اسے بہت تھا۔ اس لیے شاعری سنانے والے بھی اس کے قریب ہی رہتے کہ اچھے اور غور سے سننے والے تو اب ڈھونڈھے بھی نہیں ملتے۔

اس معاشرے میں صنفی برابری کے دعویدار مرد تو بہت ملینگے کہ یہ کاروبار بھی زوروں پر ہے۔ لیکن صحیح معنی میں اگر ڈھونڈینگے تو چند ہی ملینگے اور ان سب میں نمایاں مجھے ہمیشہ مرتضیٰ ہی لگا کہ وہ نا صرف اپنی بیوی اور بیٹیوں پر فخر کرتا بلکہ ہر ممکن طریقے سے اپنے ارد گرد کی عورتوں کی بھی حتی الامکان ہمت افزائی بھی کرتا تو مدد بھی کرتا۔ اپنی پبلیکشنز میں ہمیشہ خواتین کےموضوعات کو نمایاں جگہ دی۔ فیشن کے طور پر نہیں بلکہ ایک سچے فیمنسٹ ہونے کے ناطے۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو
فوٹو -- خدا بخش ابڑو

اپنی بڑی ہوتی بیٹیوں کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو بھی اسی خوشی سے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا کہ اس پر پیار آجاتا۔ اگر ایسے اور باپ اس معاشرے کو مل جائیں تو عورتوں کے آدھے مسائل تو خود ہی حل ہوجائیں۔

وہ باس کم اور دوست زیادہ رہتا۔ جو اس کی ٹیم تھی اس میں سب اپنے اپنے طور پرفیصلے کرنے میں با اختیار ہوتے اور اگر وہ کوئی فیصلہ کرتا تو ساری ٹیم کے مشورے کے بعد۔ سب کو جوڑ کے رکھنا اسی کا شیوہ تھا۔ چاہے کوئی ایکدوسرے کی شکل بھی نا دیکھنا چاہتے ہوں، لیکن مرتضیٰ سب کو ایک ہی ٹیبل پر بٹھاتا اور اکثر اپنی جیب سے ہی کھلاتا۔

جس گریڈ اورتنخواہ پر وہ کام کرتا تھا وہ لوگ تو کھانے کا آرڈر کرتے ہیں یا کہیں بڑی گاڑی میں بیٹھ کر جاکر لنچ فرماتے ہیں۔ مرتضیٰ کو ہم نے ہمیشہ کینٹین کا کھانا کھاتےدیکھا۔ اگر ہم اسے جنگ پریس کے سامنے رستم کے تھڑے پر بھی لے گئے تواسی طرح غریبوں اور مزدوروں کے ساتھ بیٹھ کر نا صرف کھانا کھاتا، اسے انجوائے بھی کرتا۔

ویسے کھانے پکانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اکثر وہی کھانا پکاتا اور ہم تو اس کے پکے کھانوں کی خوشبو کبھی نہیں بھولینگے۔ اس نے اپنی ماں سے کھانا پکانا سیکھا اور میں نےاس سےچاول پکانا سیکھا کہ ایک دن باقی ڈش تو تیار تھیں لیکن روٹی کا مسئلہ بیچ میں آگیا۔ اس دفعہ مرتضیٰ نےخود ہی چاول پکائے اور ترکیب مجھے بھی بتادی اور پھر بعد میں ایسا وقت بھی آیا کہ عطیہ نے بھی پوچھ لیا کہ تم کیسے چاول پکاتے ہو۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو
فوٹو -- خدا بخش ابڑو

زبانیں اسے اتنی آتی تھیں کہ میرے جیسا بھی چکرا جاتا۔ پنجابی تو اس کی رگ رگ میں بھری تھی۔ اردو اور انگریزی پر تو دسترس تھی ہی، فارسی، ہندی، فرینچ اور جرمن زبانیں بھی اسی طرح ہی مہارت سے بولتا اور پڑھتا۔ مجھے یاد ہے جب عطیہ کی آٹو بایوگرافی دیوناگری میں چھپی تو سب سے پہلی کتاب میں نے مرتضیٰ کو ہی دی کہ اسی نے ٹائٹل پر لکھا مجھے پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ ٹائیٹل ڈیزائن کے کریڈٹ میں میرا نام لکھا ہے کہ نہیں۔

مرتضیٰ کی معلوم نہیں کتنی یادیں ہیں، باتیں ہیں جو ہمیں شیئر کرنی چاہیئیں۔ میری اس کے دوستوں اور چاہنے والوں سے وینتی ہے کہ خدارا اب چپ کا روزہ توڑ بھی دیں۔ ایسے لوگ با ر بار نہیں آتے۔ آئیں اسے ساتھ مل کر یاد کرتے ہیں اور اس کی یادوں کو ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔ میں نے ابتدا کرنی تھی سو وہ کر ہی دی ہے۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024