نعرہ پارٹی کا
چالیس سال سے زیادہ ہوچکے مگر پاکستان پیپلز پارٹی، فوجی آمریت، سیاسی اتحاد، انتخابات اور نعرے، تاریخ سے جُڑی حال تک، ایسی زنجیر ہے کہ خواہ وفاق کی سیاست ہو یا صوبوں کی یا پھر سندھ کی بات کی جائے، سب اُسی سے منسلک کڑیاں ہیں۔
پاکستان کے آٹھ عام انتخابات کی تاریخ میں صرف ایک کے سوا، کوئی ایسا نہیں جس کا بظاہر محور پیپلز پارٹی نہ رہی ہو۔
سن اُنیّسو ستتر کے بعد تو پاکستانی سیاست ہی 'بھٹو اور پیلز پارٹی' پر استوار ہے۔ اب چاہے یہ حمایت میں ہو یا مخالفت میں، بیلٹ باکس میں پڑنے والے ووٹ کی بنیاد اسی پر رہی ہے۔
البتہ سن دو ہزار تیرہ کے یہ انتخابات تحریکِ انصاف کی صورت ذرا سا منفرد ہیں تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ تبدیلی کے لیے عمران خان کا نعرہ بیلٹ باکس سے کیا باہر لاتا ہے۔
سن اُنیّسو پچاسی کے عام انتخاب بظاہر پیپلز پارٹی اور سیاست کے بغیر تھے۔ پیپلز پارٹی نے خود اُس میں حصہ نہیں لیا اور جمہوریت کی بحالی کے کوشاں دوسری جماعتیں بھی اُس سے دور تھیں مگر ایک لحاظ سے وہ بھی پیپلز پارٹی کی بنیاد پر تھے۔
اسی لیے جنرل ضیا الحق کے 'غیر سیاسی' اصول پر وہ اسمبلیوں میں پہنچے جن کی رگوں میں بھٹو مخالف اتری تھی یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے قدم چھولینے کی بدترین خواہش اور یہی خوبی کئیوں کو اُس مقام تک لے گئی جہاں آج وہ جمہوریت کے بہت بڑے حمایتی ہونے کے دعویدار ہیں۔
ذرا ایک نظر سن ستّر کے بعد کی سیاسی اور انتخابی تاریخ پر ڈالیے:
ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت کا محور فوجی آمر ایوب خان تھے لیکن جب اپنی قائم کردہ جماعت کی زندگی کے پہلے عام انتخابات میں حصہ لیا تو انتخابی مہم فوجی آمریت کی مخالفت پر نہیں، سماجی انصاف و مساوات پر رکھی، حالانکہ اُس وقت جنرل یحییٰ خان اقتدار میں تھے اور بھٹو ایسا کرسکتے تھے مگر وہ نئی طرز کے بانی ثابت ہوئے۔
روٹی، کپڑا اور مکان وہ نعرہ تھا جو پورا نہ ہونے کے باوجود چالیس سال سے بدستور پُرکشش ہے اور بد ترین تنقید کا ہدف بھی۔
اگرچہ اب پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں منشور اپنے مندرجات کے بجائے صرف لفظ 'منشور' کے پرچار تک ہی محدود ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی تاریخ کو ایک لفظ میں کہیں تو وہ ہے 'بھٹو'۔
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے منشور کو ایسے نعرے میں تبدیل کیا جو زبانِ زدِ عام ہوا اور چار دہائی بعد بھی بھرپور بازگشت لیے نہ صرف انتخابات بلکہ پیپلز پارٹی کے ادوارِ حکومت پر بھی اپنی انمٹ چھاپ لیے موجود ہے۔
یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شاید بدنصیبی رہی ہے کہ اُس کا نعرہ جتنا مقبول رہا، اُس پر عمل درآمد اتنا ہی تنقید کا ہدف بنا اور اس مقصد کے لیے پیشرفت بھی اتنی ہی کمزور رہی۔
ماہرینِ سماجیات کا کہنا ہے کہ کوئی حکومت انفرادی سطح پر ریاست کے شہریوں کو فرداً فرداً یہ سہولت فراہم نہیں کرسکتی، جس کا پرچم پیپلز پارٹی تھامے رہی ہے۔ یہ سہولت پالیسی پر عمل سے میسر ہوتی ہے مگر سحر انگیز نعرے میں جکڑے لوگوں کو تصور دیا گیا کہ جماعت تنہا یہ وعدہ پورا کرے گی اور سیاست میں حقیقت سے زیادہ تصور اہمیت رکھتا ہے۔
تصور کی اہمیت یہ ہے کہ خوش نما وعدے اب تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہیں مگر اُن کی بے وقعتی کا عالم یہ ہے کہ 'روٹی، کپڑا اور مکان' کے ایک نعرے کے سوا کسی سیاسی جماعت کا منشور غالباً ووٹرز کے علم میں نہیں۔ یہ بھی انتخابات اور اقتدار تک پہنچنے کی کوشش میں ایک ضرورت ہے جو پوری کردی جاتی ہے۔
رہے ووٹ تو اب تک کی تاریخ یہی اشارہ دیتی ہے کہ یہ یا تو بھٹو کی حمایت میں پڑا یا اُس کی مخالفت میں، یا پھر بقول مرحوم پیر پگارا 'فرشتے ووٹ ڈال گئے'، اس کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پارٹی کے اندر انتخابات، سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے اور پارٹی میں جمہوریت بھی اپنا کام بھی دکھا جاتی ہے۔
سیاست میں جہاں تصور اہمیت رکھتا ہے وہیں الیکشن کمیشن کے لیے دستاویزات۔ حقیقی تبدیلی ووٹ کے ذریعے شاید سن ستر کے عام انتخابات کے بعد سے اب تک نہیں آئی۔
آگے کیا ہوگا، اب یہ خدا جانے یا پھر تحریکِ انصاف جس کے سربراہ کلین سوئپ کے دعویدار ہیں لیکن انتخابات میں دعوے نہ ہوں تو انتخابی میلے کا لطف نہیں رہتا۔ اس لیے اب تک شاید یہ دعویٰ لطف اندوزی کے لیے ہی ہے کم از کم گیارہ مئی کی شب ڈھلنے تک۔
تبدیلی اور تصور سے ہٹ کر ذرا آگے بڑھتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک دلچسپ خوبی بھی ہے جو ملک کی کسی اور سیاسی جماعت میں نہیں۔آپس میں لاکھ اختلافات رکھنے والی جماعتیں بھی انتخابات میں اس کے خلاف متحد ہو کر باہم شِیر و شکر ہوجاتی ہیں۔ رہے نظریات تو شاید اب وہ بھی سیاسی جماعتوں کی پارٹی انتخابات اور منشور جیسی ہی ضرورت ہیں، بے وقعت اور غیر ضروری۔
البتہ عمران خان ایک بار پھر ان اقدار کے نشاطِ ثانیہ کی باتیں کررہے ہیں مگر وہی بات لُطف اندوزی کی، دیکھنا ابھی باقی ہے۔
سندھ پیپلز پارٹی کا گھر اور اس کا مضبوط گڑھ ہے۔ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں بھی اس کا مظاہرہ ہوچکا، جب انہیں صوبائی اسمبلی میں بلا شرکت غیرے حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد حاصل تھی، مگر اس کے ساتھ ایک اور پہلو بھی ہے۔ اب اس کے اپنے گھر میں بھی تمام مخالفین صف بندیاں کررہے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کو مشکل وقت دینے کے لیے صوبائی سطح پر وفاق کی حامل مسلم لیگ نون سمیت تقریباً دس قوم پرست اور چھوٹی جماعتیں تو مشترکہ انتخابی محاذ کی تشکیل میں ہیں جن کا ہدف مشترکہ دشمن 'پیپلز پارٹی' ہی ہے۔
مگر ایک سوال ہے۔ اگرچہ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات، پیپلز پارٹی سمیت لگ بھگ تمام جماعتیں اپنی حیثیت میں جیتیں مگر بعد میں وہ مخلوط حکومت کے نام پر 'پوسٹ الیکشن الائنس' میں شامل ہوگئیں۔ یوں ملک بھر میں، حقیقی معنوں میں لگ بھگ تمام پارلیمانی جماعتٰیں حکومت میں تھیں۔ وہی صورتِ حال تھی: جو ذرّہ جس جگہ ہے، وہیں آفتاب ہے۔
قبل از انتخابات بننے والے سیاسی اتحاد اقتدار کے لیے ہوتے ہیں اور بعد از انتخابات اتحاد، اقتدار سے لُطف اندوزی کے لیے سیاسی دانشمندی کا ثبوت ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمان کی یہ دانشمندی تو سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں۔
اب پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ نون، مسلم لیگ ۔ ق، اے این پی، جے یو آئی ۔ ف یا سندھ کی فنکشنل لیگ پیر پگارا یا ایم کیو ایم؛ ایک بات طے کہ انتخابات میں شراکت یا اقتدار کے لیے شراکت، بار بار بنتے ٹوٹتے اتحاد سب کے سامنے ہیں۔
آج جو اقتدار کے لیے انتخابی اتحاد قائم کررہے ہیں، زیادہ تر یہی کوئی چار چھ ہفتے پہلے تک اقتدار میں تھے۔ تو کوئی ٹھوس وجہ جو اب انہیں نئے اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پوچھ لو تو قائدین ایک سو ایک جواب دیں گے مگر سچ ایک ہے جس کا اعتراف نہ ہوگا: کرسی۔
رہے ظاہری اعترافات تو ایم کیو ایم کی مثال لیجیے: مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے حاصل شدہ تجربات اس کی انتخابی جھولی کا طویل عرصے سے حصہ ہیں مگر جو دو ماہ پہلے تک ریاست چلانے والوں میں تھی اب ریاستی جبر کی دُہائی دے رہی ہے۔
سب دو ہزار آٹھ کی مخلوط حکومت کی سربراہ جماعت پییپلز پارٹی کے گناہوں میں شریک ہونے کے بعد اب توبہ تلافی کے بعد تجدیدِ عوام کررہے ہیں، رہی خود پیپلز پارٹی تو ایک بات طے، ووٹ اب بھی منشور کو نہیں پیپلز پارٹی کی حمایت میں پڑے گا یا اس کی مخالفت میں۔
البتہ اگر عمران خان کی سونامی گیارہ مئی کو بپھر گئی تو کوئی اور بات، ورنہ ان انتخابی اتحادوں کے بعد پھر نئی مخلوط حکومت میں ذرا سے ردّ و بدل کے بعد حالات وہی ہوں گے، دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد والے۔
عمران خان نہ ہوئے تو پھر جو تبدیلی ہوگی وہ اتنی ہی سی کہ بس قتدار کے میخانہ میں ساقیوں کے چہرے ذرا سا بدلیں گے باقی مَے خوار اور جام وہی رہیں گے۔