• KHI: Maghrib 6:58pm Isha 8:18pm
  • LHR: Maghrib 6:36pm Isha 8:03pm
  • ISB: Maghrib 6:44pm Isha 8:13pm
  • KHI: Maghrib 6:58pm Isha 8:18pm
  • LHR: Maghrib 6:36pm Isha 8:03pm
  • ISB: Maghrib 6:44pm Isha 8:13pm

منافقت کی دیرینہ روایت

شائع April 15, 2013

munafqat ki dereena riwayat copy
جمود پرست اور ماضی پرست گروہ کے کرتا دھرتا اور اس کے بے شعور پیروکار یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان اس بنا پر ذلت و پستی میں گہرے گڑھے میں پڑے ہیں کہ اُن کے اندر تعمیری ذہن قائم نہیں رہا۔ —۔ اللسٹریشن: جمیل خان

آج کل آئین کی باسٹھویں اور تریسٹھویں شقوں کا تذکرہ بہت زیادہ کیا جارہا ہے، اس لیے کہ اس کی چھلنی سے گزار کر عوام کوانتخابی امیدوار فراہم کیے جارہے ہیں۔آئین کی یہ شقیں خودساختہ امیرالمؤمنین، من پسند اسلام کے داعی اور انتہاپسندی کے ملک میں داغ بیل ڈالنے والے مطلق العنان آمر نے آئین میں زبردستی شامل کی تھیں، چنانچہ آج ان شقوں کی وکالت کرنے والے درحقیقت دورسیاہ میں بینائی سے محروم ہونے والے لوگ ہیں جن کی آنکھیں روشنی بحال ہونے کے بعد بھی دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکی ہیں۔ یہ اسی خودرو امربیل کی شاخیں جس کی جڑ کا کردار ادا کرنے والے افراد 1953ء میں جسٹس منیر کمیشن کے سامنے اسلام، مسلمان اور مومن کی کوئی ایک تعریف پر متفق نہیں ہوسکے تھے، مذکورہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں تحریر ہے کہ :

''تمام علماء کی بیان کردہ تعریف کا جائزہ لیا جائے تو عدالت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اس بنیادی سوال پر دو علماء میں اتفاق نہیں، ہر عالم دین کی بیان کردہ تعریف دوسروں سے مختلف ہے۔ اگر ایک عالم دین کی بیان کردہ تعریف کو عدالت تسلیم کرلے تو دوسرے مکتبہ فکر کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جا تے ہیں، اگر ایک مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو دوسرے تمام علمائے دین کی تعریف کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کافر ہے ۔''

معذرت کے ساتھ ہم یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ کیایہ ملک کافر تخلیق کرنے کے لیے بنایا گیا تھا؟

اس لیے کہ  تمام مسالک کے فتووں کی رو سے پورا ملک ہی کافر ہے!

ان شقوں کے ذریعے اس روئیے کو فروغ دینا اصل مقصد ہے جس کے تحت فرد ظاہری و رسمی عبادات کی ادائیگی اور کچھ دعاؤں کے رٹنے سے کامل مسلمان سمجھا جائے اور اس کی معاشرتی ذمہ داریوں کی بابت اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے ، نہ ہی اس کی کرپشن، حرامخوریوں، ملاوٹ، غبن، دھوکے بازی، جھوٹ ، فریب اور کسی بھی ایسے کام میں ملؤث ہونے پر حرف زنی نہ کی جائے جس سے معاشرے میں فساد کا راستہ نکلتا ہو۔

یہاں ہم اسلامی تاریخ کے ایک درخشاں باب، سلطنت ِعثمانیہ! کی مثال دینا چاہیں گے۔ تیرہویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں عثمان خان اوّل نے جس کی بنیاد رکھی۔ جب اناطولیہ کی چند جاگیروں پر مشتمل اس مملکت کا طول 120 میل اور عرض صرف 60 میل تھا۔اس مختصر سی ریاست کو رفتہ رفتہ اس قدر عروج حاصل ہوتا رہا کہ صرف تین سو سال بعد سلیمان اعظم کے عہد میں بلغاریہ، سربیا، بوسینیا، تھسلی، فوسیس، ڈوریس، لوکرسیس، سالونیسکا، موریا، کرمانیہ، یونانی مجمع الجزائر، کریمیا، ولاچیا، البانیہ، ہرزیگووینا، وینس اوڑانٹو سمیت مغرب کی اور بہت سی ریاستیں۔ مشرق میں دیاربکر، کردستان، شام، مصر اور عرب کا ایک بڑا حصہ جس میں حجاز مقدس کا خطہ بھی شامل تھا سلطنتِ عثمانیہ کے ماتحت آگیا۔سولہویں صدی عیسوی میں سلیمان اعظم کا دورِ حکومت صرف اسلامی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ تاریخِ عالم کا بھی اہم اور سنہری دور ہے۔ جب سلطنت عثمانیہ اپنی وسعت اور خوشحالی کے لحاظ سے حد کمال تک جاپہنچی تھی۔

تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ کی بہت سی ریاستوں پر مشتمل اس سپر پاور سلطنت کا زوال سلیمان اعظم کے جانشین سلیم ثانی کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ یاد رہے اس زوال کی وجوہات بیرونی سے زیادہ داخلی تھیں۔ اس روبہ زوال سلطنت میں اقتدار اعلیٰ کی مالک سلطان کی شخصیت تھی۔ سلطان پرست علماء اور مفتیوں نے سلطان کو تقدیر وتعزیر کا پورا پورا  اختیار دے دیا تھا۔ ارکان سلطنت تین طبقات پر مشتمل تھے۔ پہلے طبقے میں اصحابِ قلم تھے۔ ان کے بھی تین مدارج تھے۔ اوّل رجالؔ جن سے وزراء اور اعیانِ سلطنت مراد تھے۔ دوئم خوجہؔ جو سرکاری دفتروں میں کام کرتے تھے اور سوئم آغا یعنی شاہی محلات کے ملازم ومحافظ۔ دوسرے طبقے میں اصحابِ سیف اور جاں نثار شامل تھے۔ اصحابِ سیف سے مراد صوبوں کے فوجی گورنر اور دیگر فوجی عہدیدار۔ ان لوگوں کو شاہی افواج میں سپاہی فراہم کرنے کے عوض جاگیریں دی جاتی تھیں۔ اور ’’جاں نثار‘‘ یہ شاہی فوج کا نچلا دستہ تھا جس میں اقلیتی علاقوں سے کمسن عیسائی لڑکے بھرتی کیے جاتے۔انہیں زبردستی مسلمان بنایا جاتا۔اور انہیں شادی کرنے کی اجازت بھی نہ تھی اور ان کا کوئی گھربار بھی نہ تھا۔ اڑوس پڑوس کی عیسائی ریاستوں میں فاسق مسلمانوں کے اس ظلم کو اسلام کی روایت سے تعبیر کرکے اسلام کے خلاف خوب زہر آلود پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ عیسائی حکمران اور مذہبی پیشوا خود کو حق بجانب یوں بھی سمجھتے تھے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران کو اس عمل پر مسلمان مذہبی پیشواؤں کی زبردست پشت پناہی جو حاصل تھی۔

تیسرا طبقہ اصحاب مذہب کا تھا۔ اور اس طبقے کی اہمیت دیگر تمام طبقوں سے کہیں زیادہ تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ تمام اختیارات اسی طبقے کے قبضے میں تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ مغر ب میں تھیوکریسی کے فرسودہ نظام کا خاتمہ ہورہا تھا اور علم کی روشنی پھیل رہی تھی لیکن مسلم دنیا میں یہ نظام بھرپور طریقے سے قائم تھا۔ شیخ الاسلام کو صدر اعظم کے مساوی اختیارات حاصل تھے۔ وہ سلطنت کا سب سے بڑا قاضی اور مفتی تھا۔ قاضی العسکر رومالیہ، قاضی العسکرانا طولیہ، قاضی استنبول، مُلا مکہ ومدینہ اور ملا بروسا، قاہرہ ودمشق سب اُس کے ماتحت ہوتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کی تمام مساجد اور اوقاف، تمام عدالتیں اور درسگاہیں شیخ الاسلام کے ہی تابع تھیں۔ گویا وہ بیک وقت وزیر تعلیم، وزیر قانون اور وزیر مذہبی امور بھی تھا۔ اس کے علاوہ وہ عدالتِ عالیہ کا چیف جسٹس بھی تھا، اپنے دور میں دنیا کی واحد سپر پاور میں اصناف اور رعایا کے دو طبقے بھی تھے لیکن انہیں اُمورِ سلطنت میں کوئی حق واختیار نہ تھا۔ اصناف کے طبقے میں وہ لوگ شامل تھے جو تجارت پیشہ تھے اور دکانداری، دستکاری یا کسی صنعت سے وابستہ تھے۔ رعایا سے مراد کاشتکار اور کسان تھے۔

تینوں بالادست طبقات کا فرض سلطان کی طاقت کو مستحکم اور محفوظ کرنا تھا نہ کہ رعایا کی فلاح وبہبود کی تدبیریں کرنا۔ اس سے ان لوگوں کو کوئی سروکار نہ تھا۔

یہی وہ دور ہے جب مغرب نے تھیوکریسی کی فرسودہ روایتوں کی زنجیریں توڑ ڈالی تھیں۔ علم وسائنس میں ایسی ایسی ایجادات اور اختراعات کر ڈالیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی شکل اور لوگوں کا طرز زندگی ہی بدلتا چلاگیا۔ فاصلے سمٹنے لگے۔ سمندر، زمین، آسمان یہاں تک کہ فضا میں پوشیدہ لہروں پر بھی ا نسان کی دسترس قائم ہوتی گئی۔

اس دور میں مسلمان مذہبی علماء اپنے فرائض کی ادائیگی میں سراسر ناکام رہے۔ یہ لوگ اس غلط فہمی میں ہی مبتلا رہے کہ علم وحکمت کی تکمیل دوسری صدی ہجری کے فقہاء نے کردی تھی لہٰذا قیامت تک اب اُن کی تقلید کی جائے گی (آج بھی مذہبی علماء کا بڑا طبقہ اور تمام انتہاپسند اسی غلط فہمی میں مبتلا محسوس ہوتے ہیں)۔

اُس دور کے مذہبی اجارہ داروں نے نئی فکر اور روشنی کو اُبھرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُن کی جب تک اجارہ داری قائم رہی اُنہوں نے اپنی ساری توانائی صرف اس کام پر صرف کردی کہ تدریسی نصاب دوسری صدی ہجری کے ذہن پر قائم رہے۔ لہٰذا جمود بڑھتا چلا گیا۔ علماء وفقہا کی ساری توجہ اقتدار وسیاست پر ہی مرکوز رہی۔ اصلاح اُمت کے دعویداروں کو خود اپنی ہی اصلاح کی جانب توجہ کرنے کی فرصت نہ تھی۔ انیسویں صدی عیسوی میں سلطان سلیم، سلطان محمود اور سلطان عبدالمجید نے اصلاحات کی کوششیں کیں لیکن اولین بالادست مذہبی طبقہ ان کوششوں کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا۔ سلطان سلیم نے انجینئرنگ اسکول اور کالجز قائم کیے۔ ایک انجینئرنگ اسکول میں تو وہ خود لیکچر دیا کرتا تھا۔ سلطان محمود دوئم نے جاں نثار کے نام سے عیسائی اقلیت پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ کیا۔ عوام الناس کی فلاح وبہبود کے کام شروع کیے اور بذات خود بھی لوگوں میں گھل مل کر اُن کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ عام لوگ اُس سے بہت خوش تھے اور اُسے پیار سے محمود عدلی کہنے لگے۔ سلطان محمود دوئم نے حکومت کا نیا ڈھانچہ بنایا۔ صدراعظم کا عہدہ ختم کیا۔نظم ونسق کے مختلف شعبوں کو کسی ذاتِ واحد میں مرتکز کرنے کے بجائے مختلف (وکیلوں) وزراء میں تقسیم کردیا۔ شیخ الاسلام کا کردار حکومت وسیاست سے ختم کیا، اور ایک فرمان جاری کیا کہ مذہبی علماء عبادات اور مذہبی رسموں کی ادائیگی کا  کام کریں، سیاست واقتدار میں حصہ نہ لیں۔ جدید طرز کی ملٹری اکیڈمی اور میڈیکل کالج قائم کئے۔ اخبار جاری کیا۔سلطان عبدالمجید نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور ایک فرمان جاری کیا ’’آئندہ ہرشخص کو جان ومال اور عزت وآبرو کا قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ مسلم اور غیر مسلم رعایا قانون کی نظر میں مساوی ہوں گے‘‘۔

توقع کے عین مطابق مذہبی لوگوں نے اس فرمان کو غیر شرعی قرار دیا کہ یہ شیخ الاسلام کی منظوری کے بغیر جاری ہوا تھا۔ مذکورہ تینوں سلطانوں کی اصلاحات سے بالادست طبقات کے مفادات پر ضرب پڑتی تھی اور خصوصاً مذہبی طبقے کی اجارہ داری شدید متاثر ہوئی تھی اس لئے سب سے زیادہ یہی طبقہ حکومت کا دشمن بن گیا۔ فوج، علماء اور اعیان کے باہمی گٹھ جوڑ سے قسطنطنیہ میں بغاوت ہوئی اور سلطان سلیم سوئم کو قتل کردیا گیا۔ میڈیکل کالج میں سرجری کی تعلیم کو غیر شرعی قرار دے کر اُس کی سخت مخالفت کی گئی۔ مظاہروں اور بغاوتوں کے ذریعے شہروں کا نظمِ ونسق تہہ وبالا ہوتا رہا۔ مسلمان مذہبی علماء نے جدید سائنس کے اس نظرئیے کی بھی مخالفت کی کہ زمین گول ہے۔  اس عرصے میں اسلامی دنیا میں یہ بحث بھی جاری رہی کہ وباؤں سے بچنا چاہئے یا تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے وباؤں سے ہلاک ہوجانا چاہئے۔ چیچک کا ٹیکہ جائز ہے یا ناجائز ہے۔

یورپ میں پرنٹنگ پریس 1450 ء میں ایجاد ہوا لیکن عالمِ اسلام میں صدیوں تک اُسے شیطانی مشین کا نام دے کر اِس نعمت کے استفادے سے محروم رکھا گیا۔ یورپ میں دخانی انجن 1764ء میں ایجاد ہوچکا تھا لیکن جائز وناجائز کے مباحثہ کی وجہ سے ابھی تک مسلم دنیا میں اس کا وجود نہ تھا، سلطان محمود نے مذہبی علماء کی مخالفتوں کے باوجود دخانی کشتیوں کو رواج دیا۔ مذہبی لوگوں نے جدید چیزوں کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات اور خوف بھر دیا تھا اس لیے مسلمان ان کشتیوں پر سوار ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے چنانچہ سلطان محمود کو لوگوں کی ہیبت دور کرنے کے لئے کئی ماہ تک خود ان جہازوں میں بیٹھ کر سیرو تفریح کرنی پڑی۔

حکمرانوں کے خلاف مسلسل جاری رہنے والی شورشوں کا بہت بُرا اثر معیشت پر پڑا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب سلطنتِ عثمانیہ ایک طرح کی یورپی کالونی بن گئی جس کا کام محض مغربی ممالک کو سستا خام مال اور مغربی ممالک کی مصنوعات کو وسیع مارکیٹ فراہم کرنا تھا۔

زوال کی آخری چند کڑیوں میں سلطان عبدالحمید کا تذکرہ بھی بے حد اہم ہے۔ اس کے دور میں مذہبی اجارہ داروں نے دوبارہ غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ ان لوگوں نے مخبری کا ایک زبردست نظام قائم کررکھا تھا۔حال یہ تھا کہ لوگ اپنی بیوی تک سے ظلم کے اس نظام کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں وہ مولویوں کی مخبر نہ ہو۔ ان لوگوں کو کسی کے متعلق ذرا سی بھی سن گن ملتی اُسے مرتد، مشرک قرار دے کر جان سے مار دیا جاتا یا جلا وطن کردیا جاتا۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب بحری جہاز جلا وطن کیے جانے والے نوجوانوں کو بھرکر استنبول سے فزان کے ریگستان کی جانب روانہ ہوا کرتے جہاں ان کو صحرا کی تپش میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ بعد میں جن کی ہڈیاں ہی باقی رہ جاتیں اس لیے کہ گدھ گوشت چٹ کرجاتے تھے۔

ظاہر پرستی اور منافقت کو اُس دور میں خوب فروغ ملا۔ نماز باجماعت  کی ادائیگی کے قانون پر بالجبر عمل کرایا جاتا۔ مشاہیر سلطنت کو اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پنچ وقتہ نماز ہاتھ آگئی۔ وہ جہاں جاتے غلام اُن کی جائے نماز بغل میں دبائے پیچھے پیچھے چلتا رہتا۔ حتیٰ کہ وہ امورِ سلطنت کی ادائیگی کے دوران بھی اپنی نمائشی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔

اِدھر منافقانہ روش، نمائشی عبادتوں، جمود، روایت پرستی، اسلاف پرستی، علم وہنر سے دوری کو فروغ ملتا رہا اور نتیجے میں اُدھر اٹھارویں صدی کے آخر تک سلطنت عثمانیہ کے متعدد صوبے ہاتھ سے نکلتے گئے۔ ہنگری، ٹرانسلو نیا، سربیا اور کریمیا کی یورپی ریاستوں سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بحر اسود اور بحر ازف کے شمالی ساحلی علاقے بھی ہاتھ سے گئے۔ شام میں دروزیوں اور لبنان وفلسطین کے قبائلی باشندوں نے تقریباً خودمختاری حاصل کرلی۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ حجاز مقدس بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔

مسلمانوں کے زوال کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اُن میں نفع بخش علوم وفنون کا رواج ختم ہوگیا تھا اور ایسے علوم و فنون نے اُن کی جگہ لے لی جس کا مقصد اہل اقتدار اور دولت مند طبقے کو خوش کرنا تھا۔ دورِ زوال میں اکثر مسلمان اطبّاء کو وبائی امراض اور بچوں کی بیماریوں پر تشویش لاحق نہیں ہوتی تھی اس لئے کہ وہ بادشاہوں، وزیروں، افسروں اور نوابوں کے لئے ’’کشتے‘‘ تیار کرنے میں جو مصروف رہتے تھے۔ اکثر علماء فضلا کا اصل متمع نظر  یہ تھا کہ اپنی علمی دھاک شاہی دربار میں بٹھاکر خلعت فاخرہ حاصل کی جائے۔ غیر منقوط تفسیریں اور تقریریں اُن کا علمی سرمایہ تھیں۔ یعنی علم کا مقصد خلقِ خدا کو نفع پہنچانا ہرگز نہ تھا۔ تعمیرات کے ماہرین کا علم وفن بادشاہوں کے محلات اور اُن کی تفریح گاہوں کے لیے مختص تھا۔ یونیورسٹی، کالج یا ہسپتالوں کی وسیع وعریض قدیم عمارات اسی لیے نہیں ملتیں۔ زراعت وصنعت میں وہی لگے بندھے طریقے رائج تھے۔ عام آدمی کی صحت اور ماحول کو صحت مند رکھنے کے لیے قوانین کی طرف سے غفلت برتی گئی۔ تجارت پیشہ لوگوں کو ایسی معلومات فراہم کرنے کا اجتماعی انتظام نہ تھا کہ وہ برآمدات کو بڑھاسکیں۔ سمندر اور زمین کی تہوں میں پوشیدہ نعمتوں کے حصول کی کوئی جستجو نہ تھی۔ لہٰذا جس خطے کے لوگوں نے نفع بخش علوم کو رائج کیا۔ لوگوں کی فلاح وبہبود کی چیزیں دریافت وایجاد کیں زمین اور سمندر میں پوشیدہ خزانے دریافت کیے، قدرت نے زمین کا اقتدار اُن کے حوالے کردیا۔

آج بھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑا گروہ جس نے عام لوگوں کے ذہنوں پر خود کو خدا کی طرف سے برگزیدہ ثابت کردیا ہے، کی یہی کوشش ہے کہ جمود برقرار رہے اور ترقی کا راستہ کسی صورت کھل نہ سکے۔

جمود پرست اور روایت پرست گروہ کے کرتا دھرتا اور اس کے بے شعور پیروکار یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان اس بنا پر ذلت و پستی میں گہرے گڑھے میں پڑے ہیں کہ اُن کے اندر تعمیری ذہن قائم نہیں رہا۔ اُن کے جمود نے تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں اُنہیں صدیوں پیچھے رکھا ہوا ہے۔ اگر وہ کہیں متحرک ہوتے ہیں تو صرف اس طرزِ فکر کے تحت کہ احتجاج کریں اور شکایات کریں۔ شکایتی ذہن تعمیر کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ اور صرف شور و غل اور منفی سرگرمیوں کی فصل اُگتی ہے۔

موجودہ حالات میں مسلمانان عالم بالعموم اور پاکستان بالخصوص، ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک راستہ نعرے بازی، احتجاج، جلسے، جلوس اور تشدد و عسکریت پسندی کا راستہ ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ تحصیل علم و سائنس، حکمت اور تدبیر کا راستہ ہے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (15) بند ہیں

شانزے Apr 15, 2013 12:55pm
Jamil sb, please change the topic. You have already said enough on this issue.
کاشف Apr 15, 2013 04:19pm
جمیل صاحب علما کرام پر تنقید کرنے سے اتمام حجت نہیں ہو گا. یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے. انتہا ئی معذرت کے ساتھ کے آج کل سب سے اسان کام دوسروں خاص کر علماء پر تنقید کرنا ہے اور یہ ایک فیشن بن چکا ہے. آپ کی بات بجا کہ علما سو بھی ہر زمانے میں رہے ہیں، لیکن تمام لوگوں میں سب سے زیادہ نیک علماء ہی ہیں، اللہ قران میں صاف صاف کہہ چکا ہے کہ تم میں سب سے ذیادہ تقویٰ والے علماء ہی ہیں. اچھا ہو گا کہ علماء پرتنقید کرنے کہ عوام کی اصلاح کی جائے. آج کل ویسے بھی عوام علماء سے دور ہی رہتے ہیں، اس طرح کے کالم سے اور دوریاں پیدا ہوں گی. آللہ پاک ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین
عطا راشد-ٹورانٹو Apr 15, 2013 08:05pm
حقیقت پسندانہ کالم ہے-مسلم امت کی زوال پذیری کے اسباب کی نشاندہی کمال کی ہے-
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 22 اپریل 2025
کارٹون : 21 اپریل 2025