ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔
دُنیا میں بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جن میں اکثر گویا ہاتھی نکل جاتا ہے مگر دُم اَٹکی رہ جاتی ہے۔ اور اُسی دُم کے نکالنے میں اِنسان کا دَم نکل جاتا ہے۔ کبھی کبھی اِنسان کی پوری زندگی میں اُس کے مقصد کی صرف دُم ہی نِکل پاتی ہے اور پُورا کا پُورا ہاتھی اَٹکا رہ جاتا ہے۔ شاید اسی کیفیت میں مبتلا ہونے کے بعد حضرت غالب نے فرمایا تھا کہ:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
لیکن ہمارے معاشرے میں صورتحال کچھ ایسی ہوچکی ہے کہ “د” پر زبر لگا کر نہیں بلکہ پیش لگا کر پڑھنے سے ہی اس مصرعے کا حقیقی مفہوم واضح ہوسکتا ہے۔
ایسی ہی ایک خواہش کا اظہار کچھ لوگ ملک کے مختلف شہروں کی دیواروں پر چاکنگ کے ذریعے کررہے ہیں کہ “مشرف کو پھانسی دی جائے۔”
ایسی خواہشات پر بھی وہی صورتحال ہوتی ہے، جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔
ہمارے ہاں باشعور شہری وہی سمجھا جاتا ہے جو سلطان راہی کی طرز کی فلمی بڑھکیں مار سکے۔ عملی طور پر ظاہر ہے، ان بڑھکوں سے صوتی آلودگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ عام لوگوں کی بے چارگی اور کم مائیگی کا عالم تو یہ ہوچکا ہے کہ کوئی ان کے ساتھ وہ سلوک بھی کر ڈالے جو شفقت چیمہ پنجابی فلموں میں اپنے مدمقابل کے ساتھ کیا کرتا ہے، تب بھی قدرت اس کا مکافات نہیں کرتی ۔
اب تو ایسی خبریں بڑے اخبارات کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں کہ فلاں گاؤں میں خواتین کے ساتھ یہ ہوا اور وہ ہوا،وغیرہ وغیرہ ۔
سوال یہ کہ اس گاؤں میں مسجد تو ہوگی، ظاہر ہے کہ اس کے امام صاحب بھی ہوں گے۔
وہ شلوار پائنچے سے اونچی رکھنے کی تلقین تو ضرور کرتے ہوں گے، لیکن ظلم کے خلاف احتجاج کے لیے ان زبانِ مقدس ہلنے سے بھی گریز کرتی ہوگی۔
ان کاتو یہ حال ہے کہ
جتھے ملدی دال روٹی اُتھے پڑھدے آیتاں چھوٹی
جتھے ملدا مرغ حلوہ اتھے ویخو ملا لوگوں دا جلوا
شاید آپ کو یاد ہو کہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے دوران وکلاء کے ایک گروپ نے کراچی میں مشرف کے ہم شکل کو علامتی پھانسی دی تھی۔
ہم نے اپنے دوست نون سے پوچھا کہ یہ اس سے زیادہ اور کیا کر سکتے تھے؟
کسی غریب کا کیس بغیر فیس کے لڑ سکتے ہیں؟
نون نے کہا کہ انہوں نے مشرف کے ہم شکل کو پیمنٹ پوری دی ہوگی، کہ وہ مفت میں تو ان کے مظاہرے میں نہیں آیا ہوگا ؟ اس نے تو ان وکلاء سے اپنا پورا معاوضہ لیا ہوگا۔
دراصل ہم زندگی کے حقائق کو روایتوں میں قید کرکے سمجھنا چاہتے ہیں، نتیجہ ظاہر ہے کہ سمجھ نہیں پاتے۔
مثال کے طور پر ہم خودساختہ امیرالمؤمنین کے دور میں وضع کیے جانے والے تعلیمی نصاب میں پڑھتے آئے تھے کہ “شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”
یہ قول اُس وقت تک ضرور فیصل تھا، جب علم عام نہیں تھا، اب کنواں خود چل کر پیاس بجھانے آرہا ہے، تو ہم نے بھی ٹی وی چینلز پر دیکھ لیا کہ شیر تو سب سے سُست اور کاہل جانور ہے۔ اُس کی ایک دن کی تو کیا پوری زندگی میں بہادری کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے گھرانے کی روزی روٹی کا بندوبست تو اُس کے گھر کی خواتین یعنی شیرنیاں کرتی ہیں، نر شیر یعنی شیرِمرد بھوک سے بیتاب ہو تو اپنے بچے بھی خود ہی کھا جاتا ہے۔
اور اکثر ایسے شیرِ مرد کی اس شاہانہ زندگی کا انجام نہایت بھیانک اور عبرتناک ہوتا ہے۔ بہت سے شیروں کو جب کہ وہ قبر میں پیر لٹکائے جوانی واپس لوٹانے والا چلّا کاٹ رہے ہوتے ہیں، اور شکاری جانوروں کے دستر خوانوں کے بچے کھچے رزق پر گزارہ کر کے صبر و شکر کی تسبیحات پڑھ رہے ہوتے ہیں، اگر گیدڑ کی فیملی کے ایک جانور لکڑبگھے کی نظروں میں آجائیں تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت ان کے گوشت پر اپنی فیئرویل پارٹی مناتا ہے اور سب مل جل کر شیر مرد کو زندہ نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو آج بھی خود کو شیر کہلوانا پسند کرتی ہے، حالانکہ اس طرح براہ راست ان کے شجرہ نسب پر حرف آتا ہے۔
ایک دن ریموٹ سے چینل تبدیل کرتے کرتے اتفاقاً ایک مغربی ٹی وی چینل پر ہم آکر ٹھہر گئے، وجہ وہاں سے ٹیلی کاسٹ ہونے والا ایک پروگرام تھا۔ ریموٹ کے بہت سے فوائد ہیں، جس سے نئی اور پرانی نسل کے لوگ یکساں فوائد حاصل کرتے ہیں۔ دونوں ہی نسل کے لوگوں کی اکثریت ٹی وی کے مغربی چینلز کے “وہ” پروگرامز دیکھنا چاہتی ہے، جو وہ دوسروں ہمراہ نہیں دیکھ سکتی، چنانچہ ان کی اس مشکل کا حل ریموٹ کے ایک بٹن میں پوشیدہ ہے، جسے جمپ یا کوئی اور نام دیا گیا ہے۔
وہ چپکے چپکے اپنی پسند کے پروگرام دیکھتے ہیں اور اچانک کسی کے وہاں آ جانے پر اس بٹن جمپ کے ذریعے کسی شریفانہ چینل پر چھلانگ مار کر پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی میڈونا کا ڈانس یا شکیرا کا گانا دیکھا جارہا ہوتا ہے، اور اچانک چھاپہ پڑجانے پر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مذہبی پروگرام دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ ہم نے اس طرز کی چالاکی سے کام لیتے ہوئے دونوں ہی نسل کے لوگوں کو دیکھا ہے۔
ارے بھئی آپ ہمیں کیوں گھور رہے ہیں؟
ہمیں اس قسم کی زحمت نہیں کرنی پڑتی کہ ہم رمضان شریف میں بھی ظالم آن لائن کی طرز کے پروگراموں سے پرہیز کرتے ہیں، اور سب جانتے ہیں کہ ہم کیا دیکھتے ہیں۔
لیکن اب ایسا بھی کچھ نہیں دیکھتے کہ جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں اور اس دن بھی ہم جس پروگرام کو دیکھ کر رُک گئے تھے، اس کا عنوان تو ہمارے ذہن میں محفوظ نہیں رہ سکا، لیکن اس کا خاکہ ہم آپ کو سمجھائے دیتے ہیں جو کچھ یوں تھا کہ بہت سے شرکاء مختلف پالتو جانور اپنے ساتھ لائے تھے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اُن کی اپنی صورتیں اِن جانوروں کی صورت سے خاصی مشابہت رکھتی ہیں۔ مثلاً :
LOOK LIKE A DOG
LOOK LIKE A CAT
وغیرہ وغیرہ کے سلوگن کے ساتھ کئی جوڑے اس پروگرام میں پیش کیے گئے۔ ان کی مشابہت کی وجہ سے بعض مرتبہ یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ مس یا مسٹر اور Pets دائیں سے بائیں ہیں یا بائیں سے دائیں۔
نون کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی اس قسم کے اعترافات کیے جاتے ہیں، لیکن صرف دوسروں کے لیے۔
آپ کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری ادارے میں جائیں یا کسی اپارٹمنٹس یا شاپنگ پلازہ میں آپ کا جانا ہو تو آپ غور کیجیے گا کہ ایسی تمام جگہوں پر جہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، دیواروں کا کوئی ایک کونا پان کی پیک سے ضرور لہولہان ہورہا ہوگا۔
خود ہمارے دفتر کی ایک مثال خاصی عبرت انگیز ہے، جہاں پلاسٹک کے ایک ٹب میں ایئر کنڈیشنر کا ڈرین پائپ اس لیے لٹک رہا ہے، کہ قطرہ قطرہ ٹپکنے والا پانی اس میں جمع ہوتا رہے۔ اس ٹب کے منہ پر اے سی کے پائپ کے سائز سے کچھ بڑا سوارخ ہے، جس میں سے پائپ ٹب میں جارہا ہے، لیکن پان کی پیک تھوکنے والوں کا نشانہ کیا کمال کا ہے جناب کہ عین اس سوراخ پر پیک تھوک تھوک کر اس پانی کو اس طرح سرخ کررکھا ہے، جس طرح ماضی میں ہمارے بہت سے بادشاہ جو دن رات ٹوپیاں سینے اور پہنانے میں مصروف رہا کرتے تھے، اور اسی سے اپنا گزارا کیا کرتے تھے، جب کبھی فرصت پاتے تو دریاؤں کو انسانوں کے خون سے سُرخ کردیا کرتے تھے۔
نون کے مطابق دیواروں کے کونوں میں پان کی پیک تھوکنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں نے اس کام کے لیے احتیاطاً دیوار کا کونا استعمال کیا ہے، ورنہ وہ سرِ راہ ہر جانب تھوک سکتے تھے۔
یوں ہمیں اُن کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
لیکن یاد رہے ایسی ہی احتیاط ایک جانور میں بھی پائی جاتی ہے، جو اپنی ایک حاجت رفع کرنے کے لیے بھی اسی طرح کا کوئی کونا تلاش کرتا ہے۔
سرکاری اداروں میں جھانکیے تو جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے کی مشہورِ زمانہ مثال کی روشنی میں بہت کچھ دکھائی دے جائے گا۔ گرمی کی شدت اپنے عروج پر ہو اور رمضان کا مہینہ بھی ہو تو بسوں ویگنوں میں سفر کے دوران مرغوں کی جھڑپ اور کتوں کی غرّاہٹ کے مماثل خاصا کچھ سننے کو مل جاتا ہے۔
بلکہ اکثر اوقات تو بسوں ویگنوں کے مسافروں کی ذہنی و جسمانی حالت ٹرکوں میں ایک دوسرے پر لدے مویشیوں سے زیادہ مختلف تو محسوس نہیں ہوتی۔
تعلیمی اداروں میں بیشتر طالبِ علم، کتابوں کی بار برداری تک محدود ہیں۔ بلکہ بعض کی گفتگو سن کر اُس گدھے کی تصویر ذہن پر اُبھرتی ہے جس کے متعلق قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بہت سی کتابیں اپنی پیٹھ پر لاد کر لیے چلتا ہے اور اُس کو ان کتابوں سے کوئی نفع حاصل نہیں ہوتا۔
یاد رہے اس گدھے کو قرآن میں عالمِ بےعمل کے مشابہہ قرار دیا گیا ہے۔
یہاں ہمیں اپنے دوست نون کے خیالات سن کر بے ساختہ ن م راشدؔ مرحوم یاد آگئے۔
اُن کی ایک نظم کا عنوان ‘‘وزیر بے چنیں’’ ہے۔
یہ نظم انہوں نے اُس وقت لکھی تھی، جب وہ ایران میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ اس نظم میں ن م راشدؔ نے ایک نائی کا قصہ شہرزاد کی زبانی سنایا تھا۔ وہ نائی بال تراشنے اور شیو بنانے کے ساتھ ساتھ یہ ہنر بھی رکھتا تھا کہ جب کسی مردِ دانا کا ذہنِ کرشمہ ساز کچھ زنگ آلود ہوجاتا تو وہ اپنا کاسۂ سر(کھوپڑی) اس نائی کے سپرد کردیتا۔ وہ نائی مردِ دانا کے کاسئہ سر(کھوپڑی) سے دماغ نکال کر اُسے تمام آلائشوں سے پاک کرتا اور دوبارہ اُسے کھوپڑی میں فِٹ کردیتا۔
ایک روز ایک وزیرِ باتدبیر اپنے دماغ کی صفائی کے لیے نائی کی دکان پر جاپہنچے۔ نائی نے ابھی موصوف کا دماغ نکالا ہی تھا کہ شاہی محل سے بلاوا آگیا، وہ ہانپتے کانپتے چلے گئے۔ دوسرے دن خالی کھوپڑی میں اپنا دماغ فٹ کروانے آئے۔
اس کے بعد کی کہانی آپ ن م راشدؔ کے الفاظ میں نائی کی زبانی سنیے:
کل شب پڑوسی کی بلی
کسی روزنِ در سے گھس کر
جناب وزارتِ پنّہ کے دماغِ فلک تاز کو کھاگئی!
اب حکمِ سرکار ہو تو،
کسی اور حیوان کا مغز لے کر لگادوں؟
تو دلاک نے رکھ دیا،
دانیالِ زمانہ کے سر میں،
کسی بیل کا مغز لے کر!
تو لوگوں نے دیکھا....
جناب وزارتِ پنہّ اب!
فراست میں، دانش میں
اور کاروبارِ وزارت میں،
پہلے سے بھی چاق و چوبند تر ہوگئے ہیں!
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں