بھگوڑا پکڑا گیا
لوک داستانوں کا سندھو سانپ ہمالیہ کے کن پھٹے جوگیوں کے ہاتھ سے کب پھسلا، شاید ہزاروں برس پہلے، یقین سے کچھ کہنامشکل مگر پکڑا کب گیا، یہ پکا پتا ہے: اب، زیریں سندھ کے مچھیروں کے ہاتھوں۔
شروع کے تین بلاگ پڑھنے کے لیے کِلک کیجیے: پہلا حصہ: ہمالیہ کا سندھو سانپ؛ دوسرا: تِمر کی تہذیب؛ تیسرا: سندھو کا ڈیلٹا۔
سندھو کیا پیچھے ہٹا کہ ڈیلٹا ختم ہونے لگا اور کل کے بعض مچھیرے آج کے جوگی بن گئے۔ وہ جو پہلے مچھلی پکڑتے تھے اب سانپ پکڑ کر زندگی کی کشتی کھے رہے ہیں۔
سندھو دریا کے بھگوڑے سانپ نے سمجھا تھا کہ ہمالیہ کے جوگیوں سے بچا تو جیون پایا پر کہاں، ڈیلٹا پہ کمند ڈالنے کے لیے اِنگلستانی گوروں کے آنے کی دیر تھی۔ جو بھگوڑا ہزاروں سال سے جان بچنے کی خوشی میں سمندر کو پیچھے دھکیل رہا تھا، اُس پہ گوروں کی کمند پڑنے والی اور سمندر کو آگے بڑھ کر بدلہ لینے کی شہ ملنے والی تھی۔
لگ بھگ ایک صدی سے ذرا پہلے شروع ہونے والی سندھ ڈیلٹا کی تباہی کی داستان کا سِرا برطانوی عہد کے اُس دورسے جا ملتا ہے، جب پنجاب اور سندھ پر ان کا قبضہ مضبوط ہوچکا ا اور وہ منہ زور دریاؤں پر لگامیں ڈال کر خطّے میں باضابطہ نظامِ آب پاشی کے بانی کہلوانا چاہتے تھے۔
سن اٹھارہ سو نوّے میں پہلی بار دریائے سندھ کے پانیوں کو قابو میں کرنے کے لیے 'پنجاب منصوبہ برائے آب پاشی' شروع ہوا ۔ جس کے تحت دریائے سندھ کی پانچ مشرقی شاخوں کے پانیوں کا رُخ دو آبوں میں مستقل آب پاشی کے لیے موڑ دیا گیا۔
یہ پانی دریائے سندھ کی مجموعی مقدارکا بہت معمولی حصہ تھا، اس لیے ڈیلٹا پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے، ماسوائے اس کے، انتہائی مغربی موسمی نہریں، جن میں مون سون میں دریائے سندھ سے پانی آتا تھا بند ہوگئیں۔ طغیانی میں کمی واقع ہوئی۔ جس کے سبب لائی کے جنگلات کا لگ بھگ پانچ فیصد حصہ متاثر ہوا۔
اس کے بعد سن اُنیّسو چھتیس میں دریائے سندھ پر سکھر بیراج کی تعمیر مکمل ہوئی اور دنیا کے بڑے بڑے بیراجوں میں شمار ہونے والے اس بیراج سے نہروں اور زرعی مقاصد کے لیے نظامِ آب پاشی کا ایک منظم سلسلہ شروع ہوا۔
سکھر بیراج کی تعمیر کے نتیجے میں دریائے سندھ کی نہروں میں، سوائے حیدری اور اوچٹو شاخوں کے، سال کے چار مہینوں میں تازہ پانی کا آنا موقوف ہوا، جس سے سندھ ڈیلٹا کے ساحلی علاقوں میں واقع تِمر کی دَلدَلوں کو اس دوران تازہ میٹھا پانی ملنا بند ہوگیا۔
یہ سب وہ مراحل ہیں جن کے باعث عظیم الشان سندھ ڈیلٹا اور اس کے باسیوں کی تہذیب و ثقافت اور خوشحالی ماضی کا قصّہ بننے جارہی تھی۔
دریا کے میٹھے پانی کی روانی کم ہونے لگی تو ڈیلٹا کے باشندوں کی معاشی اور تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں، گو کہ حالات قابلِ گزارہ تھے لیکن واقعات، انحطاط کی رفتار میں اضافے کا اشارہ دے رہے تھے۔
یہی وہ ایّام تھے جب دریائے سندھ کی آبی گزرگاہوں میں سمندر کی موجیں سست روی سے ٹہلنے لگیں۔ زمینیں شور زدہ ہو نے لگیں، سُرخ چاول کی کاشت نہ ہونے کے برابر تھی، چاول چِھڑنے کے میکانیکی کارخانے کیا کرتے، بندہوئے، ڈیلٹاکے بالائی حصے میں، سیلابی پانی پر انحصار کرنے والے لائی کے جنگلات بھی ختم ہونا شروع ہوئے۔
رفتہ رفتہ کراچی کا 'ساہو کار' کیٹی بندر اور شاہ بندر سمٹتے سمٹاتے چند سو مقامی باشندوں کی بستیاں بن کر ماضی کا قصہ ہوئے اور یہاں کے میمن تاجر اورہندو سیٹھ اُٹھ کر نئے ساحلی شہر کراچی کو چلے آئے۔
دُور دراز کے ملکوں سے آنے والے جہازیوں نے اپنے اپنے بحری جہازوں کے بادبان کھولے اور ہوا کے رُخ پر موافق بندر گاہوں کا رُخ کرگئے۔
کیٹی بندر اور شاہ بندر کے عالیشان مکانات اور میونسپل عمارتیں یا تو سمندر بُرد ہوئیں یا کھنڈر بن کر نشانِ عبرت رہ گئیں۔ علی رضا عابدی سفرنامہ 'شیر دریا' میں رقمطراز ہیں:
" میرے ہاتھ میں دریائے سندھ کا نقشہ ہے، جس کے مطابق اس جگہ، جہاں دریا ختم اور سمندر شروع ہورہا ہے، شاہ بندر ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں تو جا بجا سمندری پانی میں گلی سرخ اینٹوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ قطاروں میں بنی ہوئی عمارتیں کھڑے قد سے گرپڑیں اور ساری آبادی یا تو ان کے نیچے آکر کچلی گئی یا موئن جو دڑو والوں کی طرح اٹھ کر کسی اور طرف نکل گئی ہے۔ یہاں پر صرف دوچار ذرا اونچے ٹیلوں پر کچھ قبریں باقی رہ گئی ہیں۔ یہاں تو وہ شاہ بندر ہونا چاہیے تھا جو کسی زمانے میں عظیم الشان ساحلی شہر تھا۔ جہاں دنیا بھر کے جہاز آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ یہاں تو وہ بندرگاہ ہونی چاہیے تھی، جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اسے مغل شہزادہ اورنگزیب نے بنوایا تھا۔ جسے اُس کی نسبت سے 'اورنگ بندر' بھی کہتے تھے، پھر یہ شاہی بندر کہلائی۔ اس کے بعد شاہ بندر اِس کا نام ہوا اور بالآخر بڑا بُرا انجام ہوا۔"
سن اٹھارہ سو نوّے کی دہائی سے بیسویں صدی کی اوائلی تین دہائیوں تک، ڈیلٹا (پچھلے بلاگ میں بیان کردہ) تین واضح زرخیز حصوں پر مشتمل تھا مگر پھر بیراجوں نے سندھو کی روانی روکنا شروع کی اور تابوت کی آخری کیل ٹھونکی سن اُنیّسو چھپن میں تعمیر ہونے والے غلام محمد المعروف کوٹری بیراج نے۔
بیراج کی تکمیل ایک عظیم الشان ڈیلٹائی تہذیب، تجارت، معیشت اور تِمر کی دَلدَلوں میں آباد ساحلی باشندوں کی ثقافت کے زوال کا آخری باب ثابت ہوئی۔
بیراجوں کی تعمیر اور سن ساٹھ کی دہائی کے بعد ڈیلٹاکی اُن قدرتی نہروں میں کہ جن میں ٹھاٹیں مارتا پُرجوش دریائے سندھ کا گدلاپانی، سمندر کی نیلگوں موجوں کو میلوں دور تک مٹیالا بنادیتا تھا، اب اُن میں مون سون کے سیلابی موسم کے ایک دو ہفتوں کے سوا، تازہ دریائی پانی کا آنا بالکل موقوف ہوا۔
بیراجوں اور نہروں کے اس سلسلے کے بعد جب دریا کا پانی سمندر سے ہم آغوش ہونا بند ہوا تو سمندر آگے بڑھا دریا کے ہاتھوں اپنی چھینی گئی زمین واپس لینے کے لیے۔
سمندر گردی کے نتیجے میں بیسویں صدی کے نصف تک ڈیلٹا کے دو خطّے، جن کا ذکر پہلے کیا جاچکا، تباہ ہوگئے۔ اب صرف اس کے انتہائی نشیب میں تِمر کی وہ دَلدَلیں باقی رہ گئی تھیں، جہاں لاکھوں لوگ آباد تھے اور تِمر میں ابھی کچھ اور دیر تک سمندر کے تابڑ توڑ حملوں کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی تھی۔
ان حالات کے سبب ڈیلٹائی باشندوں کا بڑا حصہ آہستہ آہستہ سندھ کے دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی کر نے لگا اور وہ غیر محسوس طور پر دوسرے پیشوں اور ثقافتوں میں کھوگئے۔
جن لوگوں کے لیے جانا ممکن نہیں تھا، وہ دریا کے اُس دَہانے پر جسے 'حیدری' کہا جاتا تھا اور جہاں نہ صرف تِمر کی دَلدَلیں بلکہ میٹھا پانی بھی موجود تھا، منتقل ہوگئے۔
پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اب ان کی آخری اُمید تِمر کی دَلدَلوں سے ملحقہ ساحلی کنارے اور اس کی دولتِ ماہی تھی۔ جت اور خاصخیلی سمیت کئی قبیلے جو تِمر کی دَلدَلوں میں ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ باشندوں کوکبھی حقارت کی نظرسے دیکھتے تھے، پیٹ کی آنچ سرد کرنے کے لیے ماہی گیری پر مجبور ہوئے۔
اب حالات یہ ہیں کہ تِمرکے گھٹتے دَلدَلی جنگلوں کے سبب بعض ماہی گیر قبیلے سندھ ڈیلٹا کے بچے کچھے علاقے سے سانپ پکڑتے ہیں اور ان کی فروخت سے دو وقت کی روزی کمارہے ہیں۔
قدرت کے بھی کیا کہنے۔۔۔ دریا پیچھے ہٹا،سمندر آگے بڑھا اور کن پھٹے ہمالیائی جوگیوں کا مفرور سانپ سندھ ڈیلٹا کے مچھیروں کے ہاتھ لگ گیا۔۔۔ کیا کہنے تقدیر کے۔ جوگیوں سے بچنے جانے والا سانپ مچھیروں کے ہاتھوں پکڑاگیا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی سندھ ڈیلٹا کی تباہی کاعمل بدستور، شاید کچھ زیدہ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ لگتا ہے کہ اب یہ اپنے اختتامی مرحلے میں ہے۔
سمندر، دریائے سندھ کے ہاتھوں چھینی گئی اپنی زمین واپس لینے کے لیے مسلسل پیش قدمی کررہا ہے۔ زیریں سندھ کے ساحلی اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کے بارے میں خطرہ ہے کہ کہیں آنے والی دہائیوں میں یہ سندھ کے نقشے پر سے ہی غائب نہ ہوجائیں۔
سمندر انہیں اپنا نشانہ بنارہا ہے۔۔۔ سمندر آگے بڑھ رہا ہے اور لوگ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ رہی سندھ ڈیلٹا کی زمین تو جان لیں سندھو بادشاہ، سمندر شاہ کے ہاتھوں پسپا ہوتا جارہا ہے۔
ماہرینِ ماحولیات کا تخمینہ ہے کہ سندھ ڈیلٹا، جس کا رقبہ اُنیسویں صدی کے اختتام تک لگ بھگ چھ لاکھ ہیکٹر پر محیط تھا، اب اس کا لگ بھگ صرف دس فیصد ہی باقی بچا ہے۔ یہ بھی وہ رقبہ ہے جہاں پر تِمر کی دَلدَلیں واقع ہیں۔
اب جبکہ بحیرۂ عرب کے اس حصے میں دریائے سندھ کے میٹھے پانی کی آمد موقوف ہوچکی ہے تویہ بھی بہت دنوں کی بات نظر نہیں آتی ہے کہ جب ڈیلٹا کا باقی ماندہ دس فیصد رقبہ بھی سمندر بُرد ہوچکا ہوگا ۔
تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت ،جس طرح ایک دن میں جنم نہیں لیتے، بالکل اسی طرح ڈیلٹا بھی دریا کی ہزاروں برس کی شبانہ روز ریاضتوں کا ثمر ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ نے بھی ہزاروں برس کی ریاضت سے اپنا ڈیلٹا تشکیل دیا تھا۔
جس خاموش اور بتدریج عمل سے یہ خطّہ تشکیل پایا اوراس پرشاندار ساحلی تہذیب و ثقافت کا جنم ہوا، بالکل اسی طرح اب وہ موت کے منہ میں بھی جارہا ہے، ۔سست روی، خاموشی اور لگ بھگ ایک صدی کے بتدریج عملِ زوال سے۔
تِمر کی دَلدَلوں اور اس میں واقع تِمر کے ساحلی جنگلات دریا ئے سندھ کے میٹھے پانی سے مشروط ہیں لیکن وہ وقت بہت زیادہ دور نظر نہیں آتاجب تِمر کی دَلدَلوں میں آباد باقی ماندہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ نفوس اور تِمر کے ساحلی جنگلات عظیم سندھو کے ڈیلٹاکی تباہی اور اس کے باسیوں کی تہذیب و ثقافت کی معدومی کی جاری داستان مکمل کردیں گے۔
کاش ایسا نہ ہو مگر کیا کیجیے۔ خواہشات کی تکمیل عمل کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ سندھ ڈیلٹا کے تحفظ ، اس کے باشندوں کی معاشی حفاظت اور ساحلی ثقافت۔۔۔ لگتا ہے صرف خواہشات ہی باقی رہ گئی ہیں اور بے عمل خواہش کا انجام سب کو معلوم ہے ۔۔۔۔ قصہ تمام۔
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔