پاکستان کیا چاہتا ہے؟
پاکستان کے سرکاری ترجمان کے تازہ ترین بیانات کے مطابق اسلام آباد ایک پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتا ہے۔ حالیہ موقف میں نہ تو پڑوسی ملک میں دوستانہ حکومت کی خواہش ظاہر کی گئی ہے اور نہ ہی افغانستان میں ہندوستان کےکردار کے بارے میں تحفظات کا ذکر ہے۔
پشاور کے کور کمانڈر نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان قبضے کی مخالفت کرے گا کیونکہ اس عمل سے پاکستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کا خاتمہ اور بھی مشکل ہو جائے گا۔
ماضی میں پشاور کور ہی کے ڈویژن کمانڈر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ڈرون حملوں کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ مگر آئی ایس پی آر نے ان کے بیان کوذاتی جائزہ قرار دیا ۔ لیکن اس دفعہ ایسا کوئی فرق نہیں رکھا گیا، اس لئے ہم یہ فرض کر سکتے ہیں حالیہ بیان سرکاری ترجمانی کرتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان کا تسلط نہیں چاہتا تاہم اس کی یہ خواہش ضرور ہو گی کہ افغانیوں کے درمیان طے شدہ کسی بھی سیاسی انتظام میں پختونوں کو مناسب نمائندگی حاصل ہو۔
ہمیں سمجھ آگئی ہے کہ اگر افغانستان میں پختون نمائندگی سے محروم رہے تو پاکستان کی اپنی پختون عوام میں بدامنی پیدا ہوگی جو دونوں ملکوں کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ تاہم پاکستان کے اُن بیانات پر تاحال سوالیہ نشانات موجود ہیں جن کے مطابق پاکستان افغانیوں کے درمیان کسی بھی مصالحتی عمل میں اپنی موجودگی کو لازمی سمجھتا ہے ۔ یہ نقطہِ پاکستان کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔
اس تناظرمیں ہمیں ماضی کا افسوس ناک تجربہ نہیں بھولنا چاہیے جب ہم نے سوویت یونین کی واپسی کے بعد قابلَ قبول شراکتِ اقتدار کیلئے ہم نے افغان گروہوں کے ساتھ مل کر ایک کوشش کی تھی۔ لیکن مجاہدین کے تمام وعدے ٹوٹ گئے اور اختلافات پہلے سے زیادہ اور اس حد تک بڑھ گئے کہ خانہ جنگی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے اُن دو سالوں میں جو نقصان ہوا وہ ایک دہائی تک قابض رہنے والے سوویت یونین کے دور سے کہیں زیادہ تھا ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی وجہ دیگرعلاقائی طاقتوں کی اپنی مفادات کے لئے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی تھی مگر ایسا ہونے کی تو ہمیشہ سے توقع تھی۔ ہمیں اسے ذہن میں رکھتے ہوئے وہ افسوسناک تجربہ بھی یاد رکھنا چاہئے جب ہم نے اپنے سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کی خاطر اس وقت ساتھی سمجھے جانے والے طالبان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
اب ہمارا کردار یہ ہونا چاہیے کہ ہم مفاہمتی مذاکرات پر اثر انداز ہونے سے اجتناب برتیں ہر ممکن کوشش کریں کہ دیگر علاقائی طاقتوں کو بھی ان مذاکرات سے دور رہنے کے لئے قائل کریں۔
دوسرے الفاظ میں ہمیں دو ہزار دو میں ہونے والے اس معاہدے کی پاس داری کرنی چاہیے جس پر تمام پڑوسی ممالک نے دستخط کئے تھے ۔ ہمیں دوسرے پڑوسیوں کو بھی اس کا احترام کرنے کی تاکید کرنی چاہئے۔
صدر آصف علی زرداری نے شکاگو کے سربراہی اجلاس میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ نے تجویز کیا ہے کہ اگر پاکستان میں ایسےغیر ملکی جنگجو اور غیر ریاستی عناصر پائے جائیں جو افغانستان اور خطے کو غیرمستحکم کرنے کے درپے ہوں تو انہیں ملک بدرکر دیا جائے ۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ: "ہم اس مقصد کے لئے ایک جامع منصوبہ وضع کر رہے ہیں جس کے لئے بین الاقوامی برادری سے وسائل اور صلاحیتوں میں مدد کی ضرورت پڑے گی"۔
حال ہی میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس حوالے سے ہم خود اپنی ٹائم لائن کی پیروی کریں گے ۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ اس جامع منصوبے کے خدوخال کو ظاہر کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس کی کامیابی کیلئے کن وسائل کو ضرورت ہے اور اسکی تکمیل میں کتنا وقت درکار ہو گا۔
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ پچھلے چونتیس سالوں سے افغانستان ایک پھندے کی مانند ہماری گردن کے گرد لپٹا ہوا ہے۔ انیس سو اٹھتر اور انہتر میں ہماری مداخلت کا جواز بنتا تھا۔ ہمیں خوف تھا کہ افغانستان پر قبضے کے بعد سوویت یونین بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی کے لئے پاکستان کے صوبہِ بلوچستان کی جانب پیش قدمی کرے گا ۔ یہ درست ہے کہ منظر عام پر آنے والی پرانی سرکاری دستاویزات تجویز کرتی ہیں کہ سوویت یونین کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا مگر پاکستان میں اس کا حقیقی خوف ضرور موجود تھا۔
یہ ہرگز ضروری نہیں تھا کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کو یقینی بنانے کیلئےاس مفروضے کا سہارا لیتے ہوئے ضیاء کی اسلامائزیشن پالیسی کو فروغ دیا جاتا۔ اس پالیسی کے تحت دنیا بھر سے کٹر مجاہدین کو مدعو کیا گیا اور سوویت یونین کی واپسی کے بعد انہیں پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ ایسے مدرسے قائم کئے گئے جن میں نہ صرف افغانیوں بلکہ پاکستانیوں کو 'جہاد' کی تربیت دی گئی۔ یا پھر افغان مہاجرین کو پاکستان میں کہیں بھی جانے کی اجازت دی گئی اور اس مقصد کیلئے پاکستانی دستاویزات دی گیئں ۔ اورسب سے اہم یہ کہ 'جہاد' کی مالی اعانت یا اپنے ذاتی مقاصد کے لئے پاکستانی بازاروں میں ہتھیاروں کی فروخت اور منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث افغان مہاجرین کو نظرانداز کیا گیا۔
یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد بھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت جاری رکھی جاتی اور جیسے ہی طالبان ایک اصلاحی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آتے تو ان کے ساتھ کام شروع کر دیا جاتا ۔ کابل میں ہمارے سفارتخانے کو جلا دینے کی وجہ یہی تھی کہ احمد شاہ مسعود کو یقین ہو گیا تھا کہ ہیرات پر قبضہ کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کے لئے ہم نے طالبان کی مدد کی تھی۔
اس سب کے نتیجے میں ہم نے وسطی ایشیاء اور باقی دنیا کے درمیان متبادل تجارتی اور ایندھن فراہم کرنے کی اہم راہ داری فراہم کرنے کا موقع گنوا دیا جس کی وجہ سے روسی راہداریوں کی اہمیت مزید بڑھتی گئی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انیس سو اکیانوے میں اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ایک بھی کمرہ خالی نہیں ملتا تھا کیونکہ اس زمانے میں ترکمانستان سے گیس اور ازبکستان اور قازقستان سے تیل پاکستانی بندرگاہوں اور یہاں سے آگے جنوبی ایشیائی ریاستوں تک بھیجنے کیلئے آنا شروع ہو گیا تھا اور دنیا بھر سے تیل اور گیس کمپنیوں کے سربراہ اپنا اپنا حصہ بٹورنے کیلئے یہاں موجود ہوا کرتے تھے۔
جب ہم غور کریں کہ ہم افغانستان میں کیا چاہتے ہیں تو ہماری توجہ جامع سیکورٹی پر مرکوز ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب ہو گا کہ ممکنہ حد تک مصالحتی عمل کی رفتار تیز کی جائے،جو بھی حکومت سامنے آئے اسے قبول کیا جائے، افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل تیز کیا جائے اور اسمگلنگ کو روکا جائے۔ اس کے علاوہ راستے کھولے جائیں تاکہ ایک دوسرے پر اقتصادی انحصار بڑھے جس کے نتیجے میں فوجی یا دیگر خطرات ختم کئے جاسکیں۔
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے افغانستان کا باقی دنیا تک پینچنے کا راستہ ہے، عین اسی طرح جس طرح افغانستان پاکستان کے لئے جنوبی اور وسظی ایشیا اور ان تمام خطوں تک رسائی کی کنجی ہے جن کے بارے میں ہم نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہوئے انیس سو اکیانوے میں اقتصادی تعاون تنظیم کی توسیع کی تھی تاکہ اس میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو شامل کیا جاسکے۔ افغانستان ہماری گردن کے گرد پھندہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے ایک قابلِ قدر ساتھی ہونا چاہئے جو خطے اور ہمارے لئے اقتصادی فوائد حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو ۔
تبصرے (1) بند ہیں