افرا تفریح
شاید ہم لوگوں کو آج تک اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوسکا کہ تفریح کس چڑیا کا نام ہے، یوں بھی ہمارے ہاں تو ایک شہر ایسا ہے جہاں چڑیا تک بھون کر کھالی جاتی ہے۔ چڑیا کا نام دریافت کرنے سے کسےغرض ہوگی؟
پاکستان میں تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ کھانا، کھانا اور صرف کھاتے ہی رہنا تفریح سمجھی جاتی ہے۔ شادیوں میں کھانا، کسی کی فوتگی ہوجائے تو بھی کھانا، عقیقے کا کھانا، ختنے پہ کھانا، مایوں مہندی کی تقریب میں کھانا اور اب تو بعض سیاسی و مذہبی تقریبات میں بھی کھانا پیش کیا جاتا ہے۔
مفت کا کھانا ملے تو مؤمن مسلمان اُسے مَن و سلویٰ سمجھ کر نوش جان کرتا ہے یا پھر کھانے کی ٹیبل یا دسترخوان کو میدانِ جہاد سمجھ کر کود پڑتا ہے۔ اس جہاد میں وہ خوشی غمی کے فرق کو بھی نظر انداز کر کے ہر قیمت پر فتحیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
اس ضمن میں اکثریت کی توجہ گوشت پر مرکوز رہتی ہے، اس لیے کہ بہت سے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ گوشت نہ کھانے سے ایمان کمزور ہو جاتا ہے، اسی لیے تقریبات میں عموماً لوگ صرف گوشت ہی کھاتے ہیں۔
ہمارے ہاں اس کے علاوہ بھی بہت سی تفریحات کو پسند کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک بہت بڑی اکثریت کی تفریح یہ ہے کہ سارا دن کچھ نہ کیا جائے، اس طرز فکر کے حامل کچھ بڑی عمر لوگ بڑے شہروں میں گلی محلّوں کے نکّڑ یا فٹ پاتھوں پر تین چار کی ٹولیوں میں بیٹھے سیاست بگھارتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آتی جاتی خواتین کے جسمانی خدوخال کا نہایت تنقیدی نظروں سے جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں۔
فٹ پاتھوں پر بیٹھنے والے بہت سے نوجوان برہنہ فلموں کے ہیجان انگیز سین جنہیں ان کی زبان میں ٹوٹے کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کو موبائل پر ایم ایم ایس یا بلوٹوتھ کی سہولت کے ذریعے فراہم کرتے ہیں یا محلے کی خواتین اور لڑکیوں کے موبائل فون نمبرز ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ اگلے نکڑ والی ٹولی میں اکھٹا ہونے والے لڑکے خود اُنہی کی باجی، آپا یا پھر والدہ محترمہ کے فون نمبرز کا تبادلہ کر رہے ہیں۔
اب ہمارے ہاں بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں کی تفریح کا ایک ذریعہ فیس بک بھی بن چکا ہے۔ ان میں سے اکثریت کے پاس فیس بک پر شیئر کرنے کے لیے شاید کچھ نہیں ہوتا چنانچہ پورا ہفتہ غیرملکی اداکاراؤں کی تصاویر شیئر کرتے ہیں، لیکن دین ایمان کا بھی شاید انہی لوگوں کو فیس بک پر ٹھیکہ مل گیا ہے، چنانچہ جمعہ شریف کو جمعہ کی مبارکباد اور کبھی کبھی دجال کی نشانیاں، دنیا کی تباہی، قیامت کی آمد اور اپنے اسلاف کی وہ باتیں بھی شیئر کرتے ہیں جن پر کوئی اور تو کیا عمل کرے گا وہ خود بھی کبھی عمل نہیں کر سکتے۔
بعض لوگ سن ستّر کی فلموں کی ہیروئین یا ہیرو کے نوکر کا کردار ادا کرنے والے ایکٹر کی شکل سے ملتی جلتی اپنی تصاویر پوسٹ کرکے ایسی خواتین کو ٹیگ کرتے ہیں جن کی آئی ڈی پکچرز انتہائی ہیجان خیز ہوتی ہیں اور پھر خود خوشی سے اتنے سرشار ہو جاتے ہیں کہ غسل واجب ہو جاتا ہے۔
قرائن بتاتے ہیں کہ خواتین ایسی فیس بک آئی ڈیز جن میں ہیجان خیز تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں، بہت سے ٹھرکی ٹائپ مرد حضرات آپریٹ کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی ماہر و تجربہ کار سرجن سے رجوع کریں تو وہ حقیقی معنوں میں ان کو آپریٹ کرکے ویسا ہی بنا دے گا جیسا کہ وہ اپنی اُن جعلی فیس بُک آئی ڈیز پر خود کو پیش کرتے ہیں۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی تفریحات ہیں، جو ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت میں پسند کی جاتی ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ ڈینگیں مار کر خود کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو کالج، یونیورسٹی یا دفاتر سے گھر آنے جانے والی خواتین کے نقش قدم پر چلنا پسند کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے ان کے ہمراہ ایک قدم پیچھے آتے جاتے ہیں۔
کچھ لوگ خوشی یا غمی کی کسی اجتماعی تقریب میں دخل در معقولات کو اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں اور بعض مرتبہ اپنی ٹانگ کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ایسی جگہ اَڑا بیٹھتے ہیں کہ دوسروں کے لیے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اعلان کرنے کا بہت شوق ہوتا ہے، مسجد میں چندے کے اعلان سے لے کر شادی اور فوتگی کے مواقع پر بھی یہ لوگ ذمہ دار افراد کی مرضی کے بغیر خود سے ایسے شوشے چھوڑ دیتے جنہیں پھر پکڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر ذمہ دار حضرات غیرذمہ دار نکل جائیں تو پھر ایسے لوگوں کے اچانک انتقال کا اعلان محلے کی مسجد سے ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس کا بعض مواقع پر تجسّس دیدنی ہوتا ہے، مثلاً اکثر خواتین شادی کے موقع پر دلہن یا دولہا کی زیارت کے لیے ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور مرد حضرات کسی کی تدفین کے موقع پر مرحوم کے آخری دیدار کے لیے اس طرح اپنا اشتیاق ظاہر کرتے ہیں کہ اس مرحوم کے آخری دیدار کے بعد انہیں اندیشہ ہے کہ وہ خود بھی فوت ہوجائیں گے۔ حالانکہ اس طرح کے دیدار کے لیے کسی مرحوم کو ہی دیکھنا لازم نہیں، ہمارے اردگرد کتنی ہی شخصیات، خاص طور پر معروف مذہبی شخصیات ایسی ہیں جنہیں دیکھتے ہی کانوں میں ایسی آوازیں گونجنے لگتی ہیں کہ:
دیکھتے جائیے، آگے بڑھتے جائیے، مٹی نہ گرائیے، مردے کے لیے اس کا بڑا بوجھ ہوتا ہے، آگے بڑھیے، قبر پر پیر مت رکھیے۔
بہت سے چھوٹے اور بعض درمیانے شہروں میں جہاں وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں یا سرمایہ داروں نے عوام النّاس کی اکثریت کو اپنی تفریح و طبع کا سامان بنایا ہوا ہے، عوام النّاس کے لیے واحد تفریح یہ باقی رہ گئی ہے کہ جب سرعام کسی کو مار مار کر جان سے ہی مارا جارہا ہو، تو وہ ایسا منظر دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر گرے پڑے جاتے ہیں، اوقات بھی ان کی یہی ہوتی ہے۔
ایسے شہروں، قصبات اور دیہاتوں میں عوام کے لیے اس طرز کی تفریحات آج کل تواتر سے فراہم کی جارہی ہیں۔کبھی کسی کو سرعام نذرِ آتش کیا جاتا ہے، کبھی کُوٹ پیٹ کر کسی کی جان لے لی جاتی ہے اور کبھی کسی خاندان کی خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان عام لوگوں کے لیے برہنہ رقص جیسی نایاب تفریح لائیو پیش کریں۔
تب تو لوگوں کے شوق کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔ جو اگلی صف میں ہوتے ہیں، وہ ہجوم کے دھکّوں سے گر کر کچلے جاتے ہیں اور جو پیچھے ہوتے ہیں، وہ آگے والوں سے اس طرح درخواست کررہے ہوتے ہیں کہ جیسے انہیں کلاس روم میں بلیک بورڈ دکھا ئی نہیں دے رہا ہے۔ ایسے میں محوِرقص خواتین کی وحشیانہ چیخوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے جملے بھی سنائی دیتے ہیں:
او یار مینوں وی ویخن دے....او خدا دا بندہ بن....مینوں نظر نئیں آریا اے....!
اور ہوتا یہ ہے کچھ عرصے کے بعد پچھلی صف کے ان محرومین کی امّی جان، آپاجی اور باجیاں یہی رقص پیش کررہی ہوتی ہیں اور ان کی وحشیانہ چیخوں کے درمیان پچھلی صف میں کھڑے نیو کمرز کی زبان سے مذکورہ جملے ادا ہوتے رہتے ہیں!
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں