• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

'اوباما کو پاکستان کے ٹوٹ جانے کا خوف تھا'

شائع June 26, 2012

کتاب کے مطابق اوباما نے پاکستان کو قومی سلامتی کے لئےسب سے بڑی تشویش قرار دیا    — اے ایف پی

واشنگٹن: نیو یارک ٹائمزکےواشنگٹن میں  سینئر نامہ نگار ڈیوڈ ای سنگر کی ایک کتاب کے مطابق،امریکی صدر براک حسین اوباما نے ۲۰۱۱ میں اپنے عملے کو بتایا تھا کہ پاکستان ٹوٹ سکتا ہے اوراس کے(نیوکلیائی) ہتھیاروں کے حصول دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

امریکی میڈیا نے پچھلے ماہ شائع شدہ اس کتاب کے اقتباسات شائع کئے مگرمعاملے کو اہمیت تب ملی جب امریکی حکام نے پاکستانی سفارتکاروں،دورے پر آئے ہوئے حکام،قانون سازوں یہاں تک کہ صحافیوں کو بھی اس کتاب کے مطالعے کا کہا۔

اس عمل سے سینیئر پاکستانی سفارتکار مجبور ہوئے کہ وہ یہ کتاب پڑھ کر اس کے دوسرے رخ پر بات کریں بعض نے واشنگٹن میں مقیم پاکستانی صحافیوں کو کتاب پڑھنے کے بعد اپنے خیالات سے آگاہ کرنے کو کہا۔

کتاب کے مطابق صدر اوبامہ کے لئے پاکستان ' قومی سلامتی کا واحد سب سے بڑا اندیشہ ' ہے۔ کتاب میں اوبامہ کے اپنے سینیئر معاونین سے کہے یہ الفاظ بھی رقم ہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اس ملک کو ممکنہ طور پر ٹوٹنے سے بچانے کے لئے بہت کم طاقت رکھتے ہیں اور وہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اس کے جوہری ہتھیاروں کی چھینا جھپٹی کی دوڑ کو قابو نہیں کرسکیں گے۔

کتاب "کنفرنٹ اینڈ کنسیل: اوباما'س سیکرٹ واراینڈ سرپرائیزنگ یوز آف امریکن پاور" نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تقریباً ہر تین ماہ بعد امریکیوں نے پاکستانی جوہری اسٹیبلشمنٹ سے جہاں تک ممکن ہوا محتاط رابطوں کی کوششیں کیں۔

امریکا کی نمائندگی قومی جوہری سلامتی انتظامیہ کے سربراہ،  تھامس ڈی آگوسٹینو اور محکمہ خارجہ کے رابرٹ آئین ہارن نے کی جبکہ پاکستان کی جانب سے جنرل خالد قدوائی اور اور ان کے ساتھ اسٹریٹیجک پلاننگ ڈائریکٹرکا سینیئرعملہ شامل رہا۔

 کتاب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستانی نزاکتوں کی وجہ سے ان ملاقاتوں کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ ملاقاتوں کے منظرِ عام پر آنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات سے بچنے کے لئے ایسے شہروں کا انتخاب کیا گیا جہاں فریقین کے لئے نظر میں آئے بغیر آمدورفت آسان تھی جن میں لندن سے لے کر ابو دھابی شامل ہیں۔

ایک اہم امریکی اہلکار نے کتاب کے مصنف کو بتایا کہ پاکستان کے ایک عمل نے وائٹ ہاوس کو متاثر کیا کہ

'پاکستان اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں کے معاملے میں اتنا سنجیدہ ہے کہ شاید ہی دنیا کو کوئی اور ملک اس معاملے میں اتنی سنجیدگی دکھاتا ہوگا۔'

 لیکن اس کے باوجود، امریکی حکام کو ڈر ہے کہ اگر پاکستان کبھی شکست و ریخت کا شکار ہوا تو معاملات بہت تیزی سے بے قابو ہوسکتے ہیں جنہیں بہتر آلات اور تربیت سے قابو نہیں کیا جاسکتا۔

کتاب میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اپنے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے موسمِ گرما میں صدر اوبامہ کے سامنے بھیانک سپنے کی طرح کا منظر نامہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان میں گمشدہ ایٹمی ہتھیاروں کو تلاش کرنا تھا۔

 درحقیقت صدراوباما کو انٹیلیجنس کی بنیاد پر جمع ہونے والے حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ شاید پاکستانی ایٹمی ہتھیار طالبان کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔

 اسی سلسلے کے بعد کی ملاقاتوں میں انٹیلیجنس کے ماہرین نے اوبامہ کو بتایا کہ 'ڈرٹی بم' یعنی تابکار مادہ روایتی دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ملاکر استعمال کرنے کے خدشات ہیں جس سے ہلاکتیں تو کم ہوں گی لیکن گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بہت سے لوگ باقاعدہ ایٹمی دھماکے اور ڈرٹی بم کے درمیان فرق سے آگاہ نہیں اور ان میں خود امریکی حکومت کے افسران بھی شامل ہے۔

اوبامہ نے اس مسئلے کے لئے اپنے سینیئر اہلکاروں کو پاکستان روانہ کیا، لیکن ابتدائی طور پر انہوں نے یہ رپورٹ مسترد کردی۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ کوئی موقع نہیں گنواسکتے ، اوبامہ نے اپنی نیوکلیائی شناخت اور تلف کرنے والی  ٹیم سے رابطہ کیا کہ اگر تلاش کی ضرورت ہوئی تو وہ اس خطے کا دورہ کرے گی۔

اس کے بعد، پاکستانی حکام نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں وہ بہت چھان بین کے بعد اس فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہتھیاروں کے ذخیرے سے کچھ بھی غائب نہیں ہوا ۔ لیکن ایک افسرنے مصنف کو بتایا کہ اوبامہ عہد کی ابتدا میں ایٹمی گہرائیوں میں جھانکنے کے عمل نے ہم سب پر ایک گہرا دیرپا تاثرچھوڑا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024