سرجی، تُسی گریٹ ہو
جب ہمارے شعور کی آنکھ کُھلی تو بد قسمتی سے ہرسُو تاریکی اور ضلالت کا دور دورہ تھا۔ یہاں آپ ضلالت کو ذ سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔
آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا، یہ خودساختہ امیرالمؤمنین کا دورِسیاہ تھا۔
یہ حضرت ابھی ذہنی طور پر شیرخوار ہی تھے کہ اُنہیں مارشل لاء لگا کر قوم کو خوار کرنے کا پروگرام مل گیا، پھر اِنہی حضرت نے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر افغانستان میں جہاد جہاد کھیلنا شروع کردیا،بالآخر اسی کھیل میں انہیں خود اپنی اور اپنی پوری ٹیم کی جان سے کھیلنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔
چونکہ اس کھیل میں شریک دیگر کھلاڑیوں کو جو بچ گئے تھے، انہیں اور کوئی کھیل نہیں آتا تھا، چنانچہ آج یہ کھیل ہمارے شہروں، محلوں اور گلی کوچوں میں پورے جوش و خروش اور تزک و احتشام کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔
یہ وہی دور تھا کہ جب ایک اکلوتے یتیم و مسکین پی ٹی وی کا قبلہ ٹھوک بجا کر دُرست کیا جارہا تھا۔ اس وقت اپنی عاقبت سنوارنے کے چکر میں جدید ذرائع ابلاغ کے ساتھ وہی کچھ کیا گیا، جو صدیوں سے تمام بادشاہ اپنے حرم کے اندر مال غنیمت میں حاصل ہونے والی باکرہ حسیناؤں اور بعض مُلّا اپنے حُجروں میں اَمرد یعنی نوعمر لڑکوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔
ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کے لیے دو ہی راستے چھوڑے گئے، ایک تو کچھ جنون پرست مولویوں کی خودساختہ شریعت اور دوسرا بعض ٹھرکی باباؤں کی وضع کردہ نام نہاد طریقت۔
خود ساختہ شریعت کی رُوسے ٹی وی ہی حرام تھا، چنانچہ ٹی وی پر کام کرنے والوں کی اکثریت نے راہِ طریقت کو اختیار کیا۔
اسی دور میں ٹی وی پر سلسلۂ شہابیہ والبیوروکریسیہ و تلقین شاہیہ کے خانوادوں، متوسلین اور متاثرین نے اپنی باقاعدہ اجارہ داری قائم کرلی تھی۔
یہ وہی دور تھا جب بابوں کی باقاعدہ کاشت کی گئی۔ ہماری پاک فوج کے بعض شعبوں نے اس اہم فصل کی آبیاری اور کھاد وغیرہ کی فراہمی کا نہایت کٹھن فریضہ جنگی بنیادوں پر انجام دیا۔
علم و فضل کے اس دور میں اسلام آباد کی ایک کانفرنس کے دوران ایک پاکستانی سائنسدان نے جنّات سے بجلی حاصل کرنے کا عجوبۂ روزگار فارمولہ بھی پیش کیا تھا۔ اس فارمولے پر کیوں عمل نہیں ہوسکا، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ شاید جنات کی ازواج نے اس پر اعتراض کیا ہوکہ یہ لوگ پہلے ہی کشتۂ اسٹین لیس اسٹیل باقاعدہ استعمال نہ کریں تو ناکارہ ہوجاتے ہیں، تم لوگ بجلی نکال لو گے تو ہمارے لیے ان کے اندر کیا باقی بچے گا۔
موجودہ دور کے بہت سے نامور سائنسدان جن کی صفِ اوّل میں حضرت آغا وقار بھی شامل ہیں، اُس دور کے جناتی سائنسدان کے غائبانہ اور غائب دماغ شاگرد معلوم ہوتے ہیں۔
اس دورِ سیاہ میں اخبارات پر شریعت کے نفاذ کے لیے ایک صفحہ مخصوص کیا گیا، جس میں ناڑا باندھنے و کھولنے سے لے کر وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی اور حیض ونفاس سے لے کر استنجا شریف جیسے ان گنت پیچیدہ اور گنجلک مسائل پر کماحقّہٗ روشنی ڈالی جاتی تھی۔
اس طرز کے صفحات جو آج بھی تقریباً ہر اخبار اور رسالوں میں لازماً مختص کیے جاتے ہیں، کی روایت کا آغاز بھی شاید خود ساختہ امیرالمؤمنین کے دور میں ہوا تھا۔
ان صفحات کے ذریعے اس طرز کے علم کی روشنی پھیلائی گئی کہ چھینکنے سے کتنی طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اگر ریاح خارج ہوجائے تو کتنی طلاقیں؟
اسی دور میں حلالہ جیسی بے مثل روایت کو خوب خوب فروغ ملا۔ بعض مدرسوں میں تو آج بھی خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار بہت سے عظیم الجثّہ مولوی صاحبان اس اہم مشن پر معمور ہیں۔ وہ نہایت معمولی معاوضے پر یہ نیک کام کرتے ہیں اور گارنٹی کے ساتھ صبح طلاق بھی دے دیتے ہیں۔
اس کے بعد شریف لوگ اپنی پردہ دار بیویوں کو گھر لے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ یہ شریف لوگ شاید اپنی بیویوں کو بکریاں خیال کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہ تھی کہ خود ساختہ امیرالمؤمنین نے اپنے دور میں پاکستانی عوام کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک فرمایا تھا کہ جیسے کسی کو استنجا شریف کی ادائیگی کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے بجائے ریگ مال دے دیا جائے اور تکلیف کے اظہار کی بھی اجازت نہ ہو۔
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستانی عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد شاید ریگ مال کے ذریعے استنجا شریف کی ادائیگی سے ملتے جلتے سلوک کی اب اس قدر عادی ہوگئی ہے کہ انہیں اس میں لُطف آنے لگا ہے۔
یہ خود ساختہ امیرالمؤمنین کے دورِ سیاہ کے نادیدہ فیوض وبرکات ہیں کہ غنودگی کے شکار اذہان کو اسلامی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنے والے اور سٹّے کا نمبر بتانے والے ننگ دھڑنگ باباؤں کو پاکستان کی حفاظت پر معمور خدائی ایڈمنسٹریشن کے کارندے خیال کرنے والے غنود و جمود زدہ افراد آج کالم نگاری کرتے کرتے مفکر بن بیٹھے ہیں۔
جب سے ہم نے اردو پڑھنا شروع کیا اور ہماری توجہ ادارتی صفحات پر مرکوز ہوئی ہے، ہم نے اسی طرز کے کالم نگاروں کی اکثریت ہی کو اخبارات کے صفحات اور قوم کا مستقبل سیاہ کرتے پایا ہے۔
یہ بھی ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ مشرف کا دورِ حکومت اپنی تمام تر خرافات، خرابات، جہالتوں اور حماقتوں کے باوجود میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ماضی کی نسبت حیران کن حد تک کافی خوشگوار ثابت ہوا تھا۔
اُسی دور میں بعض غیر روایتی اندازِفکر کے حامل قلمکاروں نے لکھنا شروع کیا تو ہم جیسے لوگوں کی جان میں جان آئی جو برسوں سے چلی آرہی اس معاشرتی گھٹن اور فکری حبس سے عاجز آئے ہوئے تھے۔
غیرروایتی اندازِ فکر اور ماضی پرستی سے آزاد سوچ رکھنے والے قلمکاروں میں ایک محترم نام سرور سکھیرا صاحب کا بھی ہے۔
تقریباً نو سال قبل انہوں نے دس سال سے جاری چُپ کا روزہ کھولا اور اردو اخبارات میں کالم نگاری شروع کی۔ پھر اچانک ملکی سطح کے اخبار میں ان کا کالم بند ہوگیا، ان کی کالم نگاری کا سلسلہ جاری تھا، لیکن لاہور کی سطح کے اخبار تک محدود، جس کی ہم تک یا ہماری اُس اخبار تک رسائی نہ تھی، اس لیے ہم نے خیال کیا کہ شاید سرور سکھیرا صاحب نے لکھنا چھوڑ دیا ہے یا پھر جیسا کہ یہاں ہوتا آیا ہے کہ کسی کو اُن کا کوئی کالم پڑھ کر اتنی ہی تکلیف پہنچ گئی ہوگی، جس قدر تکلیف چہرے کے علاوہ کسی ممنوعہ علاقے کی شیو بناتے ہوئے گہرا کٹ لگ جانے سے اُٹھتے بیٹھتے پہنچتی رہتی ہے۔
پھر وقت گزرتا گیا، سرور سکھیرا صاحب کے کئی کالم ہم نے محفوظ کررکھے تھے اور اکثر دوستوں میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ڈیڑھ سال پہلے ہم نے سرور سکھیرا صاحب کو فیس بُک پر دیکھا۔ پہلے تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی سکھیرا صاحب ہیں، جن کی تحریریں پڑھ کر ہم اجتماعی قہقہے لگایا کرتے تھے۔ ان کی پروفائل کی کافی چھان پھٹک کی، لیکن کوئی ایسی نشانی نہیں ملی کہ یقین ہوجائے کہ یہ وہی سکھیرا صاحب ہیں۔ ایک خیال یہ بھی آیا کہ فیس بک کی روایت کے عین مطابق کسی نے اس نام سے جعلی پروفائل بنا رکھی ہو۔ ہم ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ خود سرور سکھیرا صاحب نے فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی۔ اس کے بعد کئی ایک مرتبہ ان سے چیٹنگ کا موقع ملا۔ ان سے ہم نے فون نمبر مانگا جو انہوں نے فوراً ہی عنایت کردیا۔ ہم نے بھی اُسی وقت ہی فون کرڈالا اور کافی دیر تک بات چیت ہوئی۔ یوں ہمیں یقین آگیا کہ یہ وہی سرور سکھیرا صاحب ہیں جن کی تحریریں پڑھ کر ہم ان کے گرویدہ ہوگئے تھے۔
سکھیرا صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ پہلے دھنک نامی ایک میگزین نکالا کرتے تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم اس میگزین کے بارے میں نہیں جانتے، انہوں نے فرمایا کہ یہ آپ سے پہلے کی بات ہے۔
سکھیرا صاحب کی اس بات سے جہاں ان کے علمی و ادبی شاہکار سے محرومی کا شدید افسوس ہوا، وہیں یک گونہ اطمینان بھی محسوس ہوا کہ ابھی ہماری عمر اتنی زیادہ بھی نہیں ہوئی ہے، حالانکہ اب یونیورسٹی کی طالبات تک نے ہمیں انکل کہنا شروع کردیا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کتنی غلط بات ہے ناں، خود ان کی شادیاں وقت پر ہوجاتیں تو یقیناً ہماری عمر کے اُن کے بچے ہوتے۔
سرور سکھیرا صاحب نے ہم پر ایک اور عنایت یہ فرمائی کہ انہوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ “سُنو گجر کیا گائے” بذریعہ ڈاک ہمیں ارسال کردیا۔
جب یہ کتاب ہمارے ہاتھ میں آئی تو مت پوچھیے کہ ہماری خوشی کا کیا عالم تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے پاس کتابیں نہیں ہیں، لگ بھگ دو ڈھائی ہزار کے قریب تو ہوں گی، جن میں سے چھانٹی جائیں تو سات آٹھ سو تو کام کی بھی نکل ہی آئیں گی۔ ان کتابوں کی بے ترتیبی سے ہماری اہلیہ ہمیشہ شاکی ہی رہتی ہیں، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں لوگ باگ کتابیں ارسال نہیں کرتے، لیکن وہ کتابیں کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں کہ سلسلہ لعنتیہ کی ملنگانہ خدمات، موت کا منظر، حوروں کے خصائل، تحفۂ امرود فی الردِّ نمرود، الدُّھلایا والنّہلایا، گُھلمل یقین واللعین و کمین، 2006ء میں طوفانِ نوح کی آمد۔
لیکن جب 2006ء خیروسلامتی کے ساتھ گزرگیا تو اس کے بعد اس عنوان کی کتابیں موصول ہونے لگیں کہ 2012ء میں دنیا کا خاتمہ۔ پھر جب 2012ء میں بھی دنیا تباہ نہ ہوسکی تو ہم نے سوچا کہ اس طرز کی کتابیں آنا بند ہوجائیں گی، لیکن اب موصول ہونے والی کتابوں میں بتایا جارہا ہے کہ ہمارے اس خطے میں قیامت 2014ء تک ملتوی کردی گئی ہے۔
ہمیں موصول ہونے والی دیگر کتابوں کے موضوعات میں فلاں کافر، کسی فرقے کو کیسے کافر قرار دیا جائے، کاکیاں تاڑنے والی سرکار کی پیش گوئیاں، ہمزاد اور عم زاد قابو کرنے کے عملیات، دلّی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم کب لہرائے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔
المیہ یہ ہے کہ آج پاکستان کے ایک بہت بڑے حصے میں سبزہلالی پرچم لہرانے کا مطلب اپنی جان سے ہاتھ دھونا ہے۔
ہماری اہلیہ اس طرز کی تمام کتابوں کو ردّی میں بیچ کر ہماری چائے نوشی کے اخراجات پورے کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سرور سکھیرا صاحب کی کتاب وصول کرکے ہمیں بے اندازہ خوشی ہوئی۔
ہم نے سکھیرا صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور ان کے مضامین کی تعریف کی، وہ ہماری تعریف سن کر اپنے مخصوص انداز میں فرمانے لگے کہ آپ نے میرا دل خوش کیا ہے، خدا آپ کو جنت میں ستّر حوریں دے گا!
ہم نے عرض کیا کہ "سر، ہمیں ایک حور کو برتنا تو آیا نہیں۔ کل جب ہم دفتر سے گھر پہنچے تو اُس حور نے آپ کی کتاب ہمیں پکڑاتے ہوئے ہم سے کہا تھا کہ جن کی تحریروں سے تم چُرا چُرا کر لکھتے ہو، انہوں نے پوری کتاب بھیج دی ہے۔"
یہاں ہم سکھیرا صاحب کی کتاب ’’سنو گجر کیا گائے‘‘ میں شامل مضامین کے حوالے سے ہم اتنا کہنا چاہیں گے کہ اگر ہم مفتی ہوتے تو ایک فتویٰ جاری کرتے کہ "ہر گاہ کو ہشیار کیا جاتا ہے کہ جس کسی کو یہ کتاب ملے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی کم از کم 100 نقول تقسیم کرے۔"
جو ایسا نہیں کرے گا اس کی شکل قیامت کے دن خود ساختہ مرد مؤمن سے بھی زیادہ منحوس ہوجائے گی۔
ویسے دنیا میں تو اُس سے زیادہ منحوس صورت و سیرت کا سراغ ہمیں نہیں مل سکا۔
یقیناً قیامت برحق ہے، اس لیے اُس روز ایسا ہونا عین ممکن ہے۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں