سات پاکستانی سپاہیوں کے سرقلم
پشاور: پاکستان فوج نے سرحد پار عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کی حدود میں سات سیکورٹی اہلکاروں کے سر تن سے جدا کیئےجانے پر افغان حکومت سے سخت احتجاج کیا ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق اتوار کو دیر بالا میں سرحد پار جنگجوؤں کے حملے میں چھ فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ علاقہ دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے جس کے پڑوس میں وادیِ سوات ہے جہاں دو ہزار نو میں پاکستانی افواج نے مقامی طالبان کا کامیابی سے صفایا کیا تھا۔
انٹیلیجنس حلقوں نے اس حملے کا الزام پاکستانی عسکریت پسند مولوی فضل اللہ کے حامیوں پر عائد کیا ہے جو سوات میں فوجی آپریشن کے بعد افغانستان فرار ہوگیا تھا۔
لیکن پیر کو ایک عسکری افسر کے مطابق دیرحملے میں مزید گیارہ سپاہی لاپتہ ہوئے تھے جن میں سے اطلاعات کے مطابق سات سپاہیوں کو قتل کرکے ان کے سر تن سے جُدا کردیئے گئے ۔
اب تک ان کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں لیکن ایک سینیئرفوجی افسرکا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس حوالوں سے ظاہر ہے کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔
فوج کے مطابق سو سے زائد عسکریت پسند سرحد پار اپنے محفوظ ٹھکانوں سے پاکستان میں داخل ہوئے اور گشت پر معمور فوجیوں پر حملہ کردیا۔ جوابی حملے میںچودہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
قبل ازیں، بعض رپورٹوں کے مطابق دیر حملے میں دس سکیوریٹی اہلکارہلاک ہوئے تھے جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق چھ سپاہی ہلاک اور مزید دس لاپتہ تھے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، ہلاک ہونے والے سپاہیوں کی کل تعداد تیرہ ہے جن میں وہ سات فوجی بھی شامل ہیں جن کے سر قید کے دوران قلم کئے گئے ہیں۔
پاکستان کا احتجاج
پاکستان نے سرحد پار دہشتگردی کے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پیر کے روز نیٹو اور افغان افواج سے احتجاج کیا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق ملک میں افغان مشن کے نائب سربراہ کو دفترِ خارجہ طلب کرکے ایک سخت احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ افغان سفیر سے یہ بھی کہا گیا ہےکہ کابل اب مناسب اقدامات اٹھائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔
پاکستانی وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے ایک بیان میں حملے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر صدر حامد کرزئی سے بات کریں گے۔
انہوں نے کراچی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: 'سرحد پار حملوں پر پاکستان نے افغانستان سے شدید احتجاج کیا ہے اور میں خود کرزئی کے سامنے یہ معاملہ اٹھاوں گا،'
تاہم، ان کےدفتر سےیہ وضاحت نہ مل سکی کہ اس طرح کی بات چیت کب تک متوقع ہے۔
افغانستان میں صوبہ کنڑ کے گورنر، فضل اللہ واحدی نے کہا ہے کہ عسکریت پسند پاکستان میں ہیں ناکہ افغانستان میں ۔
انہوں نے کہا کہ: ' ہمارے پاس عسکریت پسندوں کی افغان سرحد پار کرکے پاکستانی افواج پر حملے کی کوئی اطلاع نہیں ' ۔
مزید حملوں کی دھمکی
پاکستانی طالبان کے مالاکنڈ دھڑے نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔
مالاکنڈ گروپ کے ترجمان سراج الدین احمد نے رائٹرز کو بتایا کہ: "پاکستان میں شرعی نظام کے نفاذ تک ہماری لڑائی جاری رہے گی ۔ جو بھی ہماری راہ میں حائل ہونے کی کوشش کرے گا ہم اس سے لڑیں گے" ۔
واضح رہے کہ دو ہزار نو میں سوات میں فوجی آپریشن تک سوات یا مالاکنڈ گروپ کا سربراہ مولوی فضل اللہ تھا جو آپریشن کے بعد افغانستان بھاگنے پر مجبور ہوا۔
ریڈیو پر اپنی تندو تیز تقاریر کی بناء پر اسے ایف ایم ملا بھی کہا جاتا ہے جس نے پاکستانی فوج کے بقول افغانستان جاکر، منظم ہوکر اپنے مضبوط گڑھ بنالئےہیں۔
گزشتہ برس فضل اللہ کا نام دوبارہ منظرِ عام پراس وقت آیا جب اس کے حامیوں نے پاکستانی سیکیوریٹی فورسز کے سو کے قریب اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں