'سعودی عرب: ٹوئیٹر پر رسائی محدود کرنے کا منصوبہ'
ریاض: سعودی عرب ملک میں ٹوئیٹر استعمال کرنے والوں کی پوشیدہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
روزنامہ دی عرب نیوز نے ہفتہ کو بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ صرف ان صارفین کو ٹوئیٹر ویب سائٹ تک رسائی دی جائے جو پہلے اپنی شناخت کے حوالے سے رجسٹریشن کرائیں۔
اخبار نے سرکاری حکام کے حوالے سے بتایا اس اقدام سے صارف کی شناخت دوسرے ٹوئیٹر صارفین سے تو پوشیدہ رہ سکے گی لیکن حکومت کسی بھی صارف کی بھیجی گئی ٹوئیٹس کی مکمل نگرانی کر سکے گی۔
والی عہد سلمان کے بیٹے کے زیر نگرانی شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار اشراق الاوسط نے یہ نہیں بتایا کہ حکام کس طرح ٹوئیٹر پر کچھ بھی پوسٹ کرنے کی صلاحیت کو ختم کر سکیں گے۔
مقامی میڈیا نے گزشتہ ہفتہ بتایا تھا کہ حکومت نے ٹیلی کام کمپنیوں سے ایسے طریقہ کار تلاش کرنے کو کہا ہے جس سے اسکائیپ جیسی مخلتف مفت انٹرنیٹ ٹیلی فون سہولیات کی نگرانی کی جا سکے اور ضرورت پڑنے پر انہیں بند بھی کیا جا سکے۔
ملک کی ٹیلی کام ریگولیٹر اتھارٹی نے ان خبروں پر فوری طور پر کسی بھی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔
گزشتہ ہفتے اسکائیپ کی بندش سے متعلق خبروں پر بھی اتھارٹی نے خاموشی اختیار کی تھی۔
سعودی شہریوں میں ٹوئیٹر بے انتہا مقبول ہے اور اس کے ذریعے مذہب، ملکی سیاست اور دوسرے بے شمار موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
عموماً سعودی عرب میں ان موضوعات پر کھلے عام بحث نہیں کی جاتی کیونکہ بعض اوقات اس طرح کی بحث قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آتی ہے۔
محکمہ داخلہ کے ترجمان نے مارچ کے آغاز میں ایک بیان میں کہا تھا کہ عسکریت پسند سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص ٹوئیٹر کو معاشرے میں بد امنی پھیلانے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔
مقامہ اخباروں کے مطابق، ملک کے مفتی اعظم نے گزشتہ ہفتہ ٹوئیٹر استعمال کرنے والوں کو ایسا 'مسخرہ' قرار دیا تھا جو فضول اور نقصان دہ بحث کر کے اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔
ملک میں پہلے ہی انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والی کمپنیاں قانونی طور پر عریاں مواد پر مبنی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کی پابند ہیں۔
خیال رہے کہ ٹوئیٹر میں سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کے بھتیجے شہزادے الولید بن طلال نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ان کی 'کنگڈم ہولڈنگ کمپنی' کے سٹی گروپ، نیوز کارپس اور ایپل میں بھی بڑی تعداد میں شیئرز ہیں۔
سعودی عرب کے سیکیورٹی ترجمان میجر جنرل منصور ترکی نے آٹھ مارچ کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ' یہاں کئی ایسے لوگ ہیں جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا غلط استعمال کرتے ہوئے ملکی صورتحال اور یہاں پولیس فورس کے کام کرنے کے طریقہ کارکے حوالے سے جھوٹی معلومات بھیجتے اوران پر تبصرے کرتے ہیں'۔
رائٹرز کے ساتھ ایک نشست میں ترکی کا کہنا تھا کہ 'القاعدہ کے کچھ حامی اور ملک میں اقلیتی شیعہ برادری کے کارکن معاشرے میں بد امنی اور اپنے مقاصد کے لیے ہمدردری حاصل کرنے کے لیے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہیں'۔
دو ہفتے قبل سعودی عرب کے بہت ہی نمایاں مذہبی عالم سلمان الاوداح نے، جن کے ٹوئیٹر پر چوبیس لاکھ سے زائد فالورز ہیں، حکومت کی سیکیورٹی پالیسی کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے انتہائی سخت قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ اگر حکومت نے بہتر سہولیات مہیا نہ کیں تو 'پرتشدد ردعمل' سامنے آ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ مارچ میں انسانی حقوق کے دو اہم رضا کاروں کو مختلف الزامات کے تحت لمبے عرصے تک عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ان دونوں پر انٹرنیٹ کے ذریعے جرائم کا بھی الزام تھا کیونکہ انہوں نے ٹوئیٹر اور دوسری ویب سائٹس کے ذریعے حکومت کو ہدف بنایا تھا۔
سعودی عرب کے حکمران خاندان کے بہت سے شہزادے بھی ٹوئیٹر استعمال کرتے ہیں۔
حال ہی میں وزیر دفاع اور بادشاہ عبداللہ کے نامزد ولی عہد سلمان نے بھی باقاعدہ طور پر اپنا ٹوئیٹر اکاؤنٹ کھول لیا ہے۔