' طالبان سے مذاکرات میں کرزئی رکاوٹ '
اسلام آباد: افغانستان کے استحکام میں انتہائی اہم سمجھے جانے والے پاکستان کو افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے سینیئر عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بد اعتمادی کی وجہ سے پاکستان امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اب دوسروں کی جانب دیکھ رہا ہے۔
افغانستان اب تک پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام لگاتا آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کابل میں اپنی مرضی کی حکومت دیکھنا چاہتا ہے، تاہم پاکستان ان الزامات کو یکسر مسترد کرتا رہا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی عہدے دار نے رائٹرز کو بتایا: اس وقت ، کرزئی امن کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ خود کو نجات دہندہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن دراصل وہ اپنے ملک کو سیدھا جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر امن چاہتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگلے سال تک افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ امریکہ، براہ راست اور فوراً ہی طالبان کے ساتھ کوئی معاہدہ کر سکتا ہے۔
پاکستان حکام کے مطابق موجودہ صورتحال سے ان میں حوصلہ شکنی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ کرزئی افغانستان میں خود کو فیصلہ کن کردار ظاہر کرنے کے لیے 'مبہم بیانات' اور 'اشتعال انگیزی' پھیلا رہے ہیں۔
کابل اور عسکریت پسندوں کے درمیان کسی مفاہمت تک پہنچنے میں ناکامی سے ملک میں عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے اور اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ طالبان اقتدار پر قابض ہو جائیں۔
خطے میں پاکستان کے مفادات بھی داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں بحران کے اثرات سرحد پار بھی ظاہر ہوں گے، جس سے حکومت کے خلاف لڑنے والے مقامی عسکریت پسندوں کو مزید شے ملے گی۔
وزارت خارجہ کے عہدے دار نے کہا کہ اگر 2014ء تک تصفیہ نہ ہو سکا تو انہیں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان مکمل افراتفری کی نذر ہو جائے گا۔
'ایسی صورتحال میں خدشہ ہے کہ افغانستان پھٹ پڑے گا اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کو اس کی قیمت چکانا ہو گی'۔
پاکستان اور افغانستان دونوں ہی ایک دوسرے شاکی رہے ہیں۔ حال ہی میں تعلقات میں آئی گرمجوشی دیکھ کر یہ امید ہو چلی ہے کہ دونوں مل کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر عزیز خان کہتے ہیں کہ کرزئی کو مکمل طور پر مورد الزام ٹھرانا درست نہیں۔
'اس وقت سب ہی (پاکستان، افغانستان، امریکہ اور طالبان) یہ نہیں جانتے کہ وہ دراصل افغانستان میں چاہتے کیا ہیں'۔
وزارت خارجہ کے عہدے دار کے مطابق، پاکستان مستقبل میں کرزئی کے ساتھ تعلقات تو قائم رکھے گا تاہم مفاہمت کے فروغ کے لیے وہ طالبان، واشنگٹن اور دوسری تنظیموں سے رابطے بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
'خواہ کرزئی شریک ہوں یا نہیں، ہمارے پاس مفاہمت کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں۔ اگر کرزئی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو وہ اور ان کی امن کونسل قدرتی طور پراکیلی رہ جائے گی'۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک اور اعلٰی عہدے دار نے کرزئی کی جانب سے امن کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنے کی کئی مثالیں پیش کیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جنوری میں ایک کانفرنس میں کرزئی نے اصرار کیا تھا کہ امن کے لیے آئندہ کسی قسم کے 'پس پردہ' رابطے نہیں ہوں گے۔
پاکستانی عہدے دار نے یہ بھی الزام لگایا کہ کرزئی قطر میں مفاہمتی کوششوں کے لیے طالبان کے دفتر کھولنے میں جان بوجھ کر تاخیر کر رہے ہیں۔
تاہم عہدے دار یہ نہیں بتا سکے کہ کرزئی ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
دوسری جانب، افغان حکام کہتے ہیں کہ کرزئی پوری طرح امن مذاکرات کے لیے مخلص ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ مذاکرات افغانیوں کی سربراہی میں ہوں۔
کرزئی پر امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات کے جواب میں ایک افغان عہدے دار نے کہا 'ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، یہ بے بنیاد الزامات ہیں'۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پاکستان کو کافی عرصے سے خدشہ ہے کہ افغان حکومت کے اس کے حریف ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
کرزئی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بیرونی عناصر کو کسی بھی طرح افغان امن کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ کسی کو بھی اس حوالے سے کامیاب ہونے نہیں دیں گے'۔
کرزئی اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کی راہ نکالنے میں ناکام رہے ہیں، اس حوالے سے وہ متعدد مرتبہ پاکستانی معاونت کی درخواست بھی کر چکے ہیں۔
ایک جانب پاکستان نے طالبان نمائندوں کو قطر جانے اور امریکی حکام کے ساتھ رابطوں میں مدد فراہم کی ہے تو دوسری طرف وہ ہندوستان کے قریب سمجھے جانے والے اور اسلام آباد پر مسلسل تنقید کرنے والے شمالی اتحادیوں سے بھی رابطے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن کابل چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے سینیئر رہنماؤں کو اس کے حوالے کرے تاکہ امن مذاکرات میں فائدہ حاصل ہو سکے۔
افغانستان کے وزیر خارجہ زلمے رسول نے سڈنی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'تمام طالبان قیادت پاکستان میں موجود ہے، ہمیں پاکستان کی مکمل تعاون کی ضرورت ہے تاکہ طالبان قیادت کو سفر کرنے اور بات چیت کا موقع مل سکے'۔
افغان صدر کرزئی کے متعدد انٹرویوزمیں خیالات اور پاکستان حکام سے ملاقاتوں کے بعد اسلام آباد نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ انتہائی غیر لچکدار ہیں۔
پاکستان حکام نے حال ہی میں کرزئی کے ان الزامات کی جانب بھی توجہ دلائی جن میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مل کر سازشیں کر رہا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک اور عہدے دار نے کہا کہ 'ہم نے تو طالبان قیدیوں کو رہا کیا، ہم نے ان کے درمیان بات چیت میں سہولت فراہم کی لیکن عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز تک لانے میں کرزئی نے کیا کیا؟'
پاکستان نے گزشتہ سال دو درجن سے زائد ان طالبان رہنماؤں کو رہا کیا تھا جو امن کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ پاکستان کی جانب سے اب تک سب سے واضح سگنل ہے کہ وہ افغان مفاہمتی عمل کے حق میں کس قدر سجنیدہ ہے۔
عسکری ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان فوج کے سربراہ نے افغان دھڑوں کے درمیان مفاہمت کو اپنی ترجیح بنایا ہے۔
طالبان رہنماؤں کی رہائی کے بعد، افغان حکام نے کہا تھا کہ پاکستان عسکریت پسندی کو سیاسی تحریک میں بدلنے کے عمل میں کابل کا ساتھی ہے۔
اس طرح کے بیانات افغانستان کے غیر مثالی امیدوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود پرانے شبہات کہ پاکستان افغان عسکریت پسندوں کو ہندوستان کا اثر ختم کرنے لیے استعمال کر رہا ہے، اب تک اپنی جگہ موجود ہیں۔
کچھ افغان حکام کا ماننا ہے کہ پاکستان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی طالبان پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔
افغان حکومت کے ایک اعلٰی عہدے دار نے کہا کہ 'اصل بات یہ ہے کہ پاکستان پچھلے تیس سالوں سے ان دہشت گردوں کے ذریعے افغانستان کو کنٹرول کرنے کے گندے کھیل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے'۔
گزشتہ مہینے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی سرکاری رہائش گاہ پر ایک ملاقات میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور کرزئی نے مستقبل میں افغان طالبان کی رہائی سے قبل باہمی مشاورت پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
لیکن پاکستان حکام اب شکایت کرتے ہیں کہ کرزئی نے ان کے خیر سگالی پر مبنی اس اقدام کو سراہا تک نہیں۔