• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:49pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:49pm

بس کے مسافر اور فلسفۂ ہمہ اوست

شائع March 23, 2013

bas ka safar 670
بس اور وہ بھی کراچی کی، تو اس کے مسافروں کو مال مویشی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے، اور آپس میں باتیں کرتے ہوئے یہ تک کہہ جاتے ہیں کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمارا نام بھی بدنام کر رکھا ہے۔
۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

کسی پر بس نہ چلے اور بے بسی اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ آپ بس میں سوار ہیں۔

بس اور وہ بھی کراچی کی، تو اس کے مسافروں کو مال مویشی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے، اور آپس میں باتیں کرتے ہوئے یہ تک کہہ جاتے ہیں کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمارا نام بھی بدنام کر رکھا ہے۔

اگر خوش قسمتی سے بس میں سیٹ مل جائے تو بھی ان تمام آفات و بلّیات سے نجات نہیں ملتی جو کھچا کھچ بھری بس میں ایک دوسرے میں پیوست مسافروں پر مسلّط رہتی ہیں، بلکہ بعض مرتبہ تو اُن میں اضافہ ہی ہوجاتا ہے۔

قدیم و جدید صوفیاء نے فلسفہ ہمہ اوست کو ثابت کرنے کے لیے بڑی طویل بحثیں کی ہیں، لیکن موجودہ سائنسی دور میں بہت سے دانشور اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ کراچی کی بسوں کے اندر مسافروں کو ایک دوسرے میں گُم دیکھ لیتے تو شاید وہ اس نظریہ سے ہرگز انکار نہ کرتے اور اوّل الذّکر طبقے کو بھی طویل بحثوں اور ادق دلیلوں کی چنداں ضرورت نہ پڑتی، صرف ڈبلیو گیارہ اور ون ڈی کی تصویروں سے ہی کام چل جاتا۔

بعض ناقدین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جون ایلیا کے اس شعر:

کوئی دم چین پڑجاتا مجھے بھی

مگر میں خود سے دم بھر کو جدا نہیں

میں فلسفۂ ہمہ اوست کو ایک نئے زاویے سے اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیشتر ناقدین جن میں ہمارا دوست نون بھی شامل ہے، کا یہی کہنا ہے کہ اس زاویے کا انکشاف جون ایلیا مرحوم کے ذہن پر کراچی کی بسوں میں سفر کے بعد ہی ہوسکا تھا۔

اب دیکھیے ناں کہ کراچی کی بسوں کے مسافروں کی انفرادیت بھی برقرار رہتی ہے اور وہ اجتماعی طور پر وحدانیت میں بھی گُم رہتے ہیں۔

ہمیں تو بارہا اس کے تجربے ہوچکے ہیں، کہ بہت سے لوگوں کا ہاتھ اپنی جیبوں میں جانے کے بجائے ہماری جیب میں چلا آتا ہے، ہم ہمہ اوست کے کچھ زیادہ قائل نہیں ہیں اسی لیے ایک مرتبہ ایسی حرکت پر برہم ہوگئے تو موصوف نے نہایت سادگی سے ارشاد فرمایا کہ آپ کی جیب سے کنگھا نکال رہا تھا، ہم نے کہا کہ مانگ نہیں سکتے تھے؟ تو خودداری کے کسی بلند وبالا چھجے پر متمکن حضرت نہایت بے نیازی کے ساتھ بولے:

‘‘مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔’’

ہم مزید کیا کہتے، خاموش ہوگئے۔ ویسے بھی ہمیں تو اب کنگھے نام کی کسی شئے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ گنتی کے جو دو ڈھائی سو بال سر پرباقی رہ گئے ہیں، انہیں ہماری اُنگلیاں ہی بہت اچھی طرح سنوار لیتی ہے۔

اور پھر یہ بھی کہ  اگر شادی زدہ افراد کی جیب میں سے ان کی بیویاں کنگھا برامد کرلیں تو گھر خواہ مخواہ خیبر پختونخوا بن جاتا ہے۔ انہیں شک نہیں یقین ہوجاتا ہے کہ ضرور کسی کلموہی سے ملنے جارہے ہوں گے، حالانکہ بیوی نامی مخلوق کو کون سمجھائے کہ اب کلموہی تو کیا، کوئی منہ ہی نہیں لگاتا۔

خیر بات ہورہی تھی بس کے سفر کی، جس میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ کھجلی کسی کو ہورہی ہے اور کھجا کسی اور کو دیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کی انگلیاں دوسروں کے جسموں میں ایسی ایسی جگہوں پر ہو آتی ہیں، جہاں اس طرح انگلیوں کے تصرف کا حق صرف ہماری  حکومتوں کو ہی حاصل ہے، دوسروں کے لیے وہ تاحال ممنوعہ علاقے ہی ہیں۔

یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ موبائل فون کی بیل کسی اور کی بجتی ہے اور ہاتھ ہمارا اپنی جیب میں چلا جاتا ہے، لیکن ایسا بھی بارہا ہوتا ہے کہ کسی کا ہاتھ کسی اور کی جیب میں چلا جائے۔ بعض اوقات جیب سے موبائل کے بجائے پستول ہاتھ میں آجاتا ہے، نون کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ کئی لوگوں نے پستول کو موبائل سمجھ کر کال ریسیو کرنے کی کوشش میں کان پر رکھ کر ٹرائیگر تک دبا دیا تھا۔

اس قدر ہمہ اوست قسم کی حالت میں سفر کرنے کے باوجود بھی بسوں میں مختلف اشیاء فروخت کرنے والوں اور گداگروں کو اپنے کام کا موقع کس طرح مل جاتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ اس عمل پر تو ان کا نام گنیز بُک میں درج ہونا چاہئے تھا۔

مسجد کے لیے چندہ وصول کرنے والے مولوی اپنے طویل و عریض جثّہ شریف سمیت گھس آتے ہیں۔ اب تو ان کے ہاتھ میں میگا فون بھی ہوتا ہے، شاید ان کا خیال یہ ہو کہ بسوں کے مسافر بہرے ہوتے ہیں، اسی لیے وہ لوگوں کے کانوں سے قریب کرکے میگافون پر اطلاع دے رہے ہوتے ہیں کہ مسجد سے منسلک بچوں نے کل سے کچھ نہیں کھایا ہے، سوائے مولوی صاحب کی مار اور گالیوں کے۔ یا پھر آج مدرسے میں قرآن خوانی ہے اور سیپاروں کی ضرورت ہے، ایک سیپارہ پچاس روپے کاہے۔

ہمہ اقسام کی بیماریوں سے نجات دلانے والے چورن فروخت کرنے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اس میں بیسیوں قسم کی جڑی بوٹیاں شامل ہیں، جو بہو بیٹیاں بصد شوق استعمال کرسکتی ہیں۔

ہم ابھی تک اسی اُلجھن میں ہیں کہ یہ ساری جڑی بوٹیاں شامل کرکے پچاس گرام کے پیکٹ میں فروخت کیا جائے تو کم از کم قیمت بھی پچاس ساٹھ سے کم نہ ہو، لیکن قبلہ حکیم صاحب سے یہ کرامت کس طرح صادر ہوجاتی ہے کہ دس روپے میں فروخت کرنے چلے آتے ہیں بس میں، اور وہ بھی صرف کومپنی کی مشہوری کے لیے؟

نون کا کہنا ہے کہ قبلہ حکیم صاحب لکڑی کے بُرادے پر ٹاٹری کا اسپرے کرنے کے بعد مراقبے میں بیٹھ جاتے ہیں پھر ایک ایک جڑی بوٹیوں کا تصور کرتے ہیں اور اس بُرادے پر دم کرتے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ہمہ اقسام کی جڑی بوٹیوں پر مشتمل چورن کا پیکٹ دس روپے میں فروخت کیا جاسکتا ہے۔

گداگروں سے زیادہ گداگرنیوں کو بسوں کے ہمہ اوست ماحول میں اہمیت ملتی ہے، وہ یک جان ودل ہوئے لوگوں کے درمیان سے کس طرح گزرتی ہیں یہ یا تو وہ خود جانتی ہیں یا پھر وہ لوگ جن کے درمیان سے وہ گزرتی ہیں۔ اس لیے کہ ان کے لمس و قرب سے وہ مسافر اس قدر سرشار ہوجاتے ہیں کہ اکثر دس بیس روپے خیرات میں دے دیتے ہیں، جبکہ یہ وہی لوگ ہیں جو سبزی و پھل فروشوں سے دو دو روپے لیے لڑ جاتے ہیں۔

نون کا کہنا ہے کہ ایسے بعض مسافروں پر سرشاری کا ایسا عالم طاری ہوتا ہے کہ غسل تک فرض ہوجاتا ہے۔

بس میں اگر سیٹ مل جائے تب بھی بہت سی آفات و بلیات سے نجات نہیں مل پاتی، حالانکہ سیٹ کے لیے اکثر سر پھٹوول تک ہوجاتی ہے۔

بہت سے لوگوں نے محض اس غرض سے داڑھی بڑھا رکھی ہےاور خضاب لگانا چھوڑ دیا ہے کہ بسوں میں لوگ بزرگ سمجھ کر ان کے لیے سیٹ چھوڑ دیتے ہیں۔

نون بزرگوں کو اپنی  سیٹ پیش نہیں کرتا، اور نہایت بے نیازی کے ساتھ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے۔ اس کا کہنا ہے ایسے بزرگ حضرات محض بس کی سیٹ کے لیے اپنی ضعیف العمری کا برملا اظہار کرنے سے نہیں کتراتے، جبکہ شادی کے لیے ان کے اندر جواں عمری عود کرآتی ہے، بلکہ شادی کے لیے تو وہ لب مرگ بھی اپنی آمادگی کا اظہار کرسکتے ہیں۔

عموماً سیٹ پر بیٹھنا بس میں کھڑے ہوکر سفر کرنے سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی دیگیں جو وہ کینگرو نامی مخلوق کی طرح خود اُٹھائے پھرتے ہیں، سیٹ پر بیٹھے مسافروں کے کندھوں پر لا کر رکھ دیتے ہیں۔

بہت بڑی تعدا ایسے لوگوں کی ہے جو آج بھی دفتر جاتے ہوئے اپنا لنچ پلاسٹک کی تھیلیوں میں لے جاتے ہیں، چنانچہ ان کی تھیلیوں سے ٹپکتا تیل سیٹ پر بیٹھے لوگوں کے بالوں کو تر کرکے انہیں چمکدار اور گھنے کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں سے خوشبو نہاری یا پھر آلو قیمہ کی آتی ہے، یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔

یہاں ہماری قوم کے شاہین بچوں اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، جن کا ذکر اقبال علیہ الرحمہ بھی کر گئے ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ان کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ الفاظ ایسے نہیں کہ یہاں بیان کیے جاسکیں۔

اقبال کے ان شاہین بچوں اور تاڑو بزرگوں کی نگاہوں میں لگتا ہے کہ ایکسرے والے اسکینرز فٹ ہوتے ہیں کہ وہ مسلسل خواتین مسافروں کا اسکین کرتے رہتے ہیں۔ ان کو اگر کھڑکی کے ساتھ کی نشست میسر آجائے تو پھر ان کی نگاہ کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے۔

خدا نے صرف الّو کو ہی یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ تین سو ساٹھ درجے تک اپنی گردن کو گھما سکتا ہے، اور کسی مخلوق کو یہ صلاحیت عطا نہیں ہوئی۔ لیکن اس حقیقت کا علم شاید ان شاہین بچوں اور تاڑو بزرگوں کو نہیں ہے، اسی لیے وہ بس کے آگے بڑھ جانے کے بعد بھی اپنی گردن کو تین سو ساٹھ درجے تک گھمانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کی نگاہوں کا ہدف بننے والی خاتون کو آخر تک دیکھ سکیں۔

ان کی ثابت قدمی اور استقلال پسندی کی داد دیجیے کہ جسے دیکھتے ہیں وہ خجل ہوجاتا ہے، لیکن خود اُن کی ذلالت خجالت پر غالب آجاتی ہے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Mian Mohsin Zia Mar 24, 2013 05:36am
واہ بھیا واہ۔۔۔ آپ کی خستہ گری کے کیا کہنے۔۔۔!
tabishkafili Mar 24, 2013 10:53am
یقین مانیے آپ کے اس لاجواب تجزیئے کے کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو موبائل ٹارچ دکھانے کے مترادف ہے ۔ مسحور کن مسکراہٹ بلکہ ایک شاندار قہقہ ہمارے اندر امنڈ رہا ہےمگر مجال ہے کے زور سے ہنس سکیں کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ موصوف پر آمد ہو گئ ہے۔ بہت خوب، لاجواب
tabishkafili Mar 24, 2013 10:55am
یقین مانیے آپ کے اس لاجواب تجزیئے کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو موبائل ٹارچ دکھانے کے مترادف ہے ۔ مسحور کن مسکراہٹ بلکہ ایک شاندار قہقہ ہمارے اندر امنڈ رہا ہےمگر مجال ہے کے زور سے ہنس سکیں کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ موصوف پر آمد ہو گئ ہے۔ بہت خوب، لاجواب

کارٹون

کارٹون : 21 اپریل 2025
کارٹون : 20 اپریل 2025