• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

وومنز پولیس

شائع March 21, 2013

فائل فوٹو --.

قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں دنیا بھر میں سوچ تبدیل ہوتی جارہی ہے لیکن پاکستان میں اب بھی پولیس کے شعبے میں مردوں کی بالادستی برقرار ہے۔

پاکستانی پولیس میں خواتین کی شمولیت کا آغاز سن اُنیسّو ستّر کی دہائی سے ہوتا ہے۔ سن اٹھارہ سو اکسٹھ کے پولیس ایکٹ اور سن اُنیّسو چونتیس کے پولیس قانون میں خواتین پولیس کا کوئی حوالہ موجود نہیں، تاہم سن دو ہزار دو کے پولیس آرڈر میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت اور ان کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔

بطور وزیرِ اعظم، بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان کی حکومت نے پولیس میں خواتین کی شمولیت کے بارے میں نہایت دلچسپی کا اظہار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک کے بعض شہروں میں وومن پولیس اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے لیکن اس کے بعد سے رویوں میں کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

بھرتی، تربیت، کام کرنے کے ماحول، ترقی اور آپریشن میں ان کے کردار کے حوالے سے بدستور مسائل موجود ہیں، جنہیں اب تک منظم انداز میں حل نہیں کیا جاسکا ہے۔

اس وقت ملک کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر پندرہ سو چوالیس پولیس اٹیشنز موجود ہیں۔ ان میں سے صرف بارہ وومن پولیس اسٹیشنز ہیں، جن میں سے تین پنجاب، چھ سندھ، چھ خیبر پختونخواہ اور ایک اسلام آباد میں موجود ہیں تاہم زیادہ تر صرف حوالاتیوں کو رکھنے کی حد تک کام کررہے ہیں۔

اس وقت ملک میں مجموعی طور پر چار ہزار خواتین پولیس افسران و اہلکار موجود ہیں جو پولیس کی مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد ہے۔

اقوام متحدہ کے تحت ایشیائی ممالک کی پولیس میں خواتین کا تناسب جاننے کے لیے ایک سروے کیا گیا تھا۔ جس کے نتائج کے مطابق سنگاپور میں یہ تناسب اُنیس، ملائشیا میں ساڑھے نو، سری لنکا میں پانچ اعشاریہ تین فیصد ہے۔

صنفی صورتِ حال اور معیار میں تبدیلی اور بہتری کے لیے خواتین کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا، لہٰذا قوام متحدہ کا ہدف ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خواتین کی شمولیت کو بڑھا کر مجموعی قوت کے بیس فیصد تک لایا جانا چاہیے۔

روایتی سماجی تصورات کے تحت خواتین، پولیس ملازمت اختیار کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ خواتین کو اس شعبے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کام کے ماحول، معیار اور سہولتوں کا تجزیہ کر کے اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو خواتین پولیس افسران و اہلکار سے یہ معلومات اکھٹی کی جائیں کہ ملازمت اختیار کرنے کے دوران روایتی رکاوٹوں کے علاوہ بھرتی اور انتخاب کے دوران انہیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ساتھ ہی یہ بھی جانا جائے کہ ملازمت کے دوران جنسی طور پر حراساں کرنے، عدم قبولیت، نگرانی، زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ میں انہیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مجموعی تجربات کیسے رہے۔

بھرتیوں کا طریقہ شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس عمل میں خواتین افسران کی شمولیت بھی ہونی چاہیے۔

خواتین پولیس افسران و اہلکاروں کے حوالے سے مرد افسران بیان کرتے ہیں کہ وہ آپریشن میں حصہ لینے یا ذمہ داری اٹھانے سے ہچکچاتی ہیں۔

تربیتی مراکز میں بنیادی طور پر مرد پولیس افسران ہوتے ہیں۔ خواتین تربیتی افسران کی غیر موجودگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

پولیس افسران و اہلکاروں کی تربیت کے لیے چودہ کالج واسکول موجود ہیں۔ بھرتی ہونے والی خواتین کو چاہیے کہ وہ خود کو کڑے تربیتی ماحول میں ڈھالیں۔

غیر متوجہ اور کمزور تربیت کے سبب بھرتی ہونے والی خواتین کا بڑا حصہ یا تو اسی مرحلے پر ہی میدان چھوڑ جاتا ہے یا پھر تربیت کے بعد ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دفتری امور جیسی ذمہ داریاں سنبھالنے کو ملیں۔

پاکستان میں عام طور پر خودکشی، عزت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی جیسے مقدمات عام طور پر مرد پولیس تفتیش کار ہی دیکھتے ہیں۔ مرد پولیس افسران کی وجہ سے اکثر متاثرین یا اُن کے ورثا تعاون نہیں کرتے، جس کی وجہ سے تفتیش میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

ایسی صورت حال میں تفتیشی افسر کے لیے مقدمے کے شواہدات کی تلاش، واقعات کی ترتیب اور انہیں عدالت کے روبرو پیش کرنا تقریباً نا ممکن ہوجاتا ہے۔

عزت کے نام پر قتل یا خواتین کے خلاف تشدد کی دیگر اقسام کے مقدمات میں خاتون ڈاکٹر اور تفتیشی افسر کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

ابتدائی سطح پر ہی رکاوٹیں آنے کے باعث مضبوط اور باقاعدہ تفتیش مکمل نہیں ہو پاتی، یوں کیس شروع میں ہی کمزور پڑ جاتا ہے۔ صورتِ حال کا بھرپور فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے اور کمزور تفتیش کی بنیاد پر بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ عدالت ملزم کو سزا دے سکے، یوں گناہ گار سزا سے بچ جاتے ہیں۔

اب اگر اس طرح کے مقدمات میں خواتین تفتیشی افسران ہوں تو متاثرہ فرد یا ان کے اہلِ خاندان بالخصوص خواتین، زیادہ سہولت اور اعتماد سے تفتیش میں ان کی مدد کرسکتی ہیں۔

تفتیش مضبوط ہونے سے گناہ گار کو سزا مل سکے گی، انسانی حقوق کی پامالی میں کمی آئے گی، نیز پولیس کے متعلق عمومی رویے میں بھی تبدیلی لائی جاسکے گی۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے پتا چلتا ہے کہ پولیس فورس میں خواتین کی شمولیت ایک مرحلہ وار عمل ہے۔ ابتدائی سطح پر وومن پولیس اہلکاروں کو جو ذمہ داریاں سونپی جاسکتی ہیں، ان کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔

پولیس میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت سے نہ صرف پولیس ۔ کمیونٹی ریلشنز میں بہتری لائی جاسکے گی بلکہ اس سے عوام میں پولیس کا نرم تصور یا سوفٹ امیج بھی قائم ہوگا۔

نوشہرہ (خیبر پختون خواہ) سے تعلق رکھنے والی شازیہ گل پاکستان کی پہلی پولیس کانسٹیبل تھیں جن کی پوری زندگی فرائض نبھانے میں گذری۔ انہوں نے خواتین کے صنفِ نازک ہونے کو دوسری تشریح دی اور ہر قسم کے پرانے سماجی تصورات کو توڑتے ہوئے ثابت کردیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی بڑے سے بڑے خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔

پاکستان کی ایک اور خاتون پولیس افسر ڈی ایس پی شہزادی گلفام ہیں، جنہوں نے نہایت قابلِ احترام اعزاز 'انٹرنیشنل فیمیل پولیس پیس کیپر ایوارڈ' حاصل کیا۔ ان خواتین پولیس افسران و اہلکاروں کی روشن مثالوں کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔

گذشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والا تشدد معمول بن چکا ہے۔ جینڈر گیپ انڈیکس یا صنفی خلیج اشاریہ سن دو ہزار بارہ میں، ایک سو پینتیس ممالک میں سے پاکستان کا نمبر ایک سو چونتیسواں ہے۔

یہ اشاریہ سن دو ہزار چھ میں ورلڈ اکنامک فورم نے متعارف کرایا تھا جو خواتین کے خلاف صنفی امتیازات اور ان کے لیے مواقعوں کی گنجائش کا اظہار کرتا ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار گیارہ میں آٹھ ہزار، پانچ سو اُنتالیس خواتین تششد کا شکار ہوئیں۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس مدت کے دوران، ملک میں خواتین کے خلاف تششد کے رجحان میں چھ اعشاریہ چوہتّر فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ریاست نے کریمنل لا ترمیمی ایکٹ دو ہزار چار کے ذریعے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں قصاص اور دیت کے قانون میں ترامیم کی ہیں۔

مزیدِ برآں، خواتین کے خلاف تششدد کے واقعات درج کرنے کے لیے، نیشنل پولیس بیورو میں جینڈر کرائمز سیل بھی (جی سی سی) بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ سیل ابتدائی طور پر صوبوں کی طرف سے مہیا کردہ اعداد و شمار پر انحصار کرتا ہے۔

اس وقت بھی ملک کے طول و عرض کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے، لہٰذا ضروری ہے کہ وہ اپنا تفتیشی طریقہ کار تشکیل دے اور اس پر عمل بھی کرے۔

بہترین بین الاقوامی طریقوں اور تجربات سے واضح ہے کہ خواتین کو پولیس میں بھرتی کر کے جرائم کے خاتمے اور معاشرے کی بہتری کے کی اہم اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

انسانی حقوق کے اشاریے اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے پولیس میں خواتین کی شمولیت بہترین طریقہ کار ثابت ہوسکتا ہے۔


مضمون نگار ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ [email protected] ترجمہ: مختار آزاد

محمد علی باباخیل

لکھاری ’پاکستان: ان بٹوین ایکسٹریم ازم اینڈ پیس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

عون علی Mar 22, 2013 03:44am
تحقیقی اور معلوماتی تحریر ہے ایسے تحقیقاتی تحریروں سے آشنائی فراہم کرنے پر شکر گزارہ ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024