• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:43pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:51pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:43pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:51pm

وہیں کے وہیں

شائع March 16, 2013

blog
۔—.اللسٹریشن: صابر نذر

ہمیشہ سے ہمارے ہاں یہ دستور رہا ہے کہ ہر نئی چیز اور نئے طریقوں کے حوالے سے کچھ لوگ منفی سوچ کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ جب ہماری والدہ کے کزن کی 35 برس قبل شادی ہوئی تو اس وقت عام رواج کے برعکس انہوں نے اپنے ولیمے میں کھانے کا اہتمام کرسی اور میز پر کیا، جسے دیکھ کر اس وقت کے بڑے بوڑھوں نے گویا ایک ہنگامہ ہی کھڑا کردیا۔

دوسری نئی چیز یہ تھی کہ کھانے میں گائے کے گوشت کے بجائے مرغی کا گوشت استعمال کیا گیا تھا، دراصل اس زمانے میں بلکہ اس کےکئی عشروں بعد بھی ہم نے دیکھا کہ مڈل کلاس گھرانوں میں مرغی اسی وقت پکائی جاتی تھی جبکہ گھر میں کوئی بیمار ہو یا خود مرغی بیمار ہو اور اس کی وفات کا خطرہ لاحق ہو۔

چنانچہ مرغ پلاؤ اور قورمہ اچھی طرح ڈکار لینے کے بھی طرح طرح کی باتیں بنائی گئیں۔

یادرہے کہ کراچی میں اس وقت تک بریانی نے اپنی جگہ نہیں بنائی تھی اور پلاؤ کا اقتدار قائم تھا۔

بڑے بوڑھوں کی گفتگو سے ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ شاید گائے کا گوشت کھانے سے ہی ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ بحرحال بڑے بوڑھے اپنی گفت اور گو کرتے رہے لیکن وقت آگے بڑھتا رہا، اور آج اتنا آگے بڑھ گیا کہ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا میلاد شریف میں کھانا پیش کیا جارہا ہو، ہر جگہ بوفے سسٹم کا ہی اہتمام کیا جاتا ہے۔

یعنی لوگ باگ کھڑے کھڑے کھانا کھاتے ہیں۔ ایسے تمام بڑے بوڑھے جو عمر رسیدہ تھے اور کچھ ایسے بھی جو کم عمری میں ہی اپنے بھیجہ سکیڑ کر رکھنا چاہتے تھے، نے کرسی میز پر کھانا پیش کیے جانے پر خوب ناک بھوں سکیڑی تھی۔

ایسے بعض بزرگوں  میں سے آج جو بقید حیات ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تقریبات میں کھانے پر بُری طرح ٹوٹ پڑنے والوں کی صف میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔

ایک شادی کی تقریب میں ایسے ہی ایک بزرگ کی جلد بازی سے, جو چکن تکے پر جھپٹ رہے تھے، کسی کی پلیٹ اُن سے ٹکرائی اور ان کے سفید کرتے کو داغدار کرگئی۔

ہم نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو فرمانے لگے کہ “داغ تو چلا جائے گا، لیکن یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔”

ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ ماضی میں جب ہمارے خاندان کے ایک فرد کی شادی کا اہتمام شادی ہال میں کیا گیا تو یہ ہمارے خاندان میں پہلا واقعہ تھا۔ اُس پر بھی ان بڑے بوڑھوں نے خوب ہنگامہ کیا، بہت سے بڈّھے تو اس شادی میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ کچھ جو منت سماجت کی وجہ سے چلے آئے تھے، مسلسل یہی بڑبڑاتے رہے کہ “واہ میاں واہ....کیا زمانہ آگیا ہے، اب شادیاں کلبوں میں ہوں گی، قیامت کی نشانی ہے، دیکھ لینا ایک دن طوائفیں بھی ناچیں گی، اور شرابیں بھی بٹیں گی۔”

ان میں سے بہت سے بڈّھے آج بھی زندہ ہیں، جی تو چاہتا کہ اُن سے پوچھا جائے:

“حضرت تین چار عشرے بیت گئے، ہمیں تو حسرت ہی رہ گئی کہ کسی شادی میں طوائفیں ناچیں اور کہیں تو شراب پیش کی جائے۔ کب تک مرنے کا انتظار کریں اور اس کے بعد جنت ملے یا نہ ملے کیا معلوم، اس طرح تو شراب طہورا کی موہوم امید میں فوت ہوجانے کا خطرہ ہے۔”

بالکل اسی طرح ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو آٹھویں کلاس سے آگے نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ ہماری ایک خالہ نے آٹھویں جماعت پاس کی اور ان کی شادی کردی گئی۔ جبکہ بہت سے گھرانے تو ایسے تھے جہاں لڑکیوں کو اسکول میں داخل ہی نہیں کروایا جاتا تھا۔ گھر میں ہی بے چاریاں اسکول اسکول کھیل کر گزارا کرتی تھیں۔

ہمارے ایک عزیز نے اپنی صاحبزادی کو میٹرک کروایا، تو بہت سے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں اور جب ان کی صاحبزادی نے ایف ایس سی کے لیے کالج میں داخلہ لیا تو خاندان کے تمام بڑے بوڑھوں نے ان پر زور دیا کہ وہ اپنی بیٹی کو گھر بٹھالیں، انہوں نے انکار کیا تو سب نے ان کا ناطقہ ہی بند کر ڈالا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ انہی بڈھوں کی، جن میں کچھ زندہ اور کچھ مرحوم ہوچکے ہیں، تیسری نسل میں لڑکیاں کالج تو کیا یونیورسٹی میں پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب محلّے میں کسی گھر میں ٹی وی نہیں تھا، ریڈیو بھی ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا۔

اُسی گھر میں سارا دن ریڈیو آن رہتا تھا جس گھر میں بڑے بوڑھوں یا بوڑھیوں کی حکمرانی نہیں تھی۔ اس لیے کہ بڑے بوڑھوں کو اس کی آواز میں بھی شیطان کی آواز ہی سنائی دیتی تھی، ہم سوچتے تھے کہ شاید ان کا ریڈیو غلط چینل تو نہیں پکڑ لیتا یا پھر ان کی شخصیت لحاظ سے درست چینل پکڑا دیتا ہے۔

پھر یہ ہوا کہ ہمارے ایک عزیز جو بیرون ملک مقیم تھے، وطن واپس لوٹے تو اپنے ساتھ اور بہت سی چیزوں کے ٹی وی بھی لیتے آئے۔ ان کے آنے تک تو باتیں یہی بنائی جارہی تھیں کہ وہ ولایت سے گوری بیوی لے کر آئیں گے، اس ضمن میں بہت سی تیاریاں بھی کرلی  گئی تھیں، مثلاً ان کے والد بزرگوار یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ ولایتی بیوی لانے کی صورت میں ان کو جائیداد وغیرہ سے عاق کردیں گے، حالانکہ یہ جائیداد وغیرہ کا آج تک پتہ نہیں چل پایا کہ کہاں پائی جاتی تھی۔

بہرحال غنیمت ہوا کہ وہ بیوی کی جگہ ٹی وی لے آئے۔ ورنہ جائیداد کا بھانڈا تو ضرور پھوٹ ہی جاتا۔

پورے علاقے میں چونکہ اس سے پہلے کسی کے گھر بھی ٹی وی موجود نہیں تھا، اس لیے اس کے پروگرام دیکھنے کے لیے گویا پورا علاقہ اکھٹّا ہوجاتا تھا۔

بڑے بوڑھوں نے حسب معمول ٹی وی کے حوالے سے بہت سخت ردّعمل ظاہر کیا لیکن چونکہ کماؤ پوت سے لڑائی مول لینا خسارے کا سودا تھا، اس لیے متوقع ولایتی بیوی کو نکالنے کے منصوبے بنانے والے ٹی وی کو گھر سے باہر نہ نکال سکے۔

ہاں البتہ جب ٹی وی آن ہوتا تو ان کے والد بزرگوار اپنے کمرے میں کھڑکیاں اور دروازے بند کرلیتے کہ اس طرح اس شیطانی چرخے سے خود کو بچا سکیں۔

ایسے کئی بڑے بوڑھوں کو ہم جانتے ہیں جو ٹیلیویژن کی آمد پر بہت چیں بہ چیں ہوئے تھے، لیکن آج یہ حال ہے کہ اُن کے دن کا بڑا حصہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گزرتا ہے۔ اور وہ ایسے چینلز ملاحظہ فرمارہے ہوتے ہیں کہ ہم دیکھ لیں تو پوری دنیا میں ڈنکا پیٹ ڈالیں، لیکن خود دیکھتے ہیں اور کوئی فرد اچانک ان کے کمرے میں یا ٹی وی لاؤنج میں آن دھمکے تو فوراً کسی مذہبی چینلز پر چھلانگ لگادیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک صاحب کے پاس ہم جب کسی کام سے پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ٹی وی پر نیوز چینل دیکھ رہے ہیں، باتوں کے دوران جب وہ کسی کام سے اُٹھ کر باہر گئے تو ہم نے شرارتاً ریموٹ  پر Jump کا بٹن دبایا تو انگریزی موسیقی کا ایک کچھ زیادہ ہی بے باک و چنچل سا چینل سامنے آگیا۔

معاملہ جو بھی ہو، بڑے بوڑھوں کو ہم نے ہمیشہ نوجوانوں سے خفا ہی دیکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے نوجوان بھی جب بوڑھے ہوجاتے ہیں، تب وہ بھی نوجوانوں سے خفا ہوجاتے ہیں۔

شعوری سفر کے پچھلے چالیس سالوں کے دوران ہمیں تو پُرانی نسل ہمیشہ نئی نسل سے شاکی ہی نظر آئی۔

پُرانی نسل جب پھٹی پُرانی ہوگئی اور ان کی جگہ نئی نسل کے لوگوں نے سالخوردہ ہونے کے بعد لے لی تو وہ بھی وہی کچھ ہی کرنے لگے جو ان کے بڑے ان کے ساتھ کرتے چلے آرہے تھے۔

یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، ہمیں نہیں معلوم؟

زمانہ بدل گیا ہے، اور ہر لمحے بدل رہا ہے، لیکن ہمارے ہاں شاید لوگوں کا شعور کولہو کے بیل کی مانندایک ہی دائرے میں میلوں کا سفر طے کرچکا ہے، اس لیے آج بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

imamism Mar 17, 2013 12:51am
جمیل صاحب! ہمیشہ کی طرح باکمال لکھا ہے
kauserbaig Mar 17, 2013 10:13am
ہاہاہاہا ، بہت زبردست لکھا ۔ ایک وقت میں چار عشروں کی یاد تازہ ہوگئی۔ بہت خوب جناب

کارٹون

کارٹون : 26 اپریل 2025
کارٹون : 25 اپریل 2025