• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:49pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:42pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:49pm

'جرگوں پر پابندی کے بجائے اسے بہتر بنائیں'

شائع March 14, 2013

 ۔ — اے پی فائل فوٹو
۔ — اے پی فائل فوٹو

اسلام آباد: سندھ کے ایک گاؤں کی پنچایت نے سکندر بھٹو نامی شخص کو قتل کرنے اور بعد میں اسے کتوں کے سامنے ڈال دینے کی سزا سنائی تھی۔

سکندر بھٹو کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک خاتون کو اس کے شوہر کے ہاتھوں تشدد اور پھر قتل کیے جانے کے واقعہ کو عوام میں بیان کر دیا تھا۔

انسانی حقوق کے ایک رکن نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے معاملہ میں مداخلت کے بعد پولیس کو حکم دیا گیا کہ سکندر بھٹو کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

سکندر بھٹو نے گھوٹکی سے رائٹرز کو بتایا کہ جرگے نے اسے دو لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ بصورت دیگر وہ مرنے کے لیے تیار ہو جائے۔

ملک کی اعلی عدلیہ نے صدیوں پرانے اور فوری انصاف فراہم کرنے والے جرگہ نظام کو چیلنج کیا ہے، لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات کی تعداد بڑھتی ہی جا رہے ہیں۔

جرگے اور پنچایتیں اٹھارہ کروڑ کی آبادی والے ملک کے زیادہ تر حصوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔

جرگہ علاقے کے معززین اور اثر و رسوخ رکھنے والے بڑے بوڑھوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو تنازعات کو سنتے اور فوری فیصلہ کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ فوری انصاف کے لیے ان جرگوں سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ ملک کا عدالتی نظام غیر موثر اور بدعنوان ہے جس کی وجہ سے عدالتوں میں چلنے والے مقدموں کے فیصلے برسوں تک نہیں ہو پاتے۔

عدالتی نظام ملک کے زیادہ تر حصوں میں کام کرنے والے ان جرگوں کو باقاعدہ تسلیم تو نہیں کرتا لیکن ان کے کاموں میں رکاوٹ بھی نہیں ڈالی جاتی۔

جرگوں کے فیصلے قانونی طور پر لاگو نہیں ہوتے لیکن گاؤں دیہات کا ماحول ان فیصلوں پر عملدرامد کو یقینی بناتا ہے۔

سپریم کورٹ میں انسانی حقوق کے سیل کے سربراہ قمر الدین بوہرہ خود بھی ایک جرگے میں حصہ لے چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جرگوں کے 95 فیصد فیصلے درست ہوتے ہیں اور ملک کے عدالتی نظام کے برعکس اپنے فیصلوں پرعملدرامد بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔

'اکثر اوقات لوگ عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن ان کے لیے اپنی ہی برادریوں پر مشتمل جرگوں کے فیصلے تسلیم کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔'

بوہرہ نے بتایا کہ جرگوں کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے والوں کو گاؤں بدر ہونا پڑتا ہے۔

تاہم کچھ عرصے سے عدالتوں نے  مردوں کے زیر تسلط ان قدامت پسند جرگوں کے سزائے موت، اجتماعی ریپ اور کم سن لڑکیوں کی جبری شادیوں جیسے فیصلوں پر سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

اس قسم کے فیصلوں کا مقصد اس خاندان کی تضحیک ہوتا ہے جس کے کسی مرد نے جرم کا ارتکاب کیا ہو۔

یاد رہے کہ دو ہزار دو میں ملتان کے ایک نواحی گاؤں کے جرگے کی جانب سے مختاراں مائی کے اجتماعی رپپ کے فیصلے نے عالمی شہرت حاصل کی تھی۔

گاؤں میں غیرت کے ایک حل طلب معاملے پر اس فیصلے کے بعد مختاراں مائی کے ساتھ ریپ کیا گیا اور بعد میں انہیں برہنہ حالت میں گاؤں کی گلیوں میں بھی گھمایا گیا۔

مختاراں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا مقدمہ درج کرایا اور چودہ ملزمان نامزد کیے، تاہم ان میں سے ایک کو ہی سزائے موت سنائی گئی۔

گزشتہ سال اس قسم کے ایک اور واقعہ میں، چیف جسٹس نے کوہستان میں ایک جرگہ کی جانب سے پانچ عورتوں اور دو مردوں کو مبینہ طور پر سزائے موت سنائے جانے کی خبر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

ان ساتوں افراد کی ایک وڈیو کلپ منظرعام آئی تھی جس میں یہ لوگ شادی کی تقریب میں مل کر گانا گانے اور تالیاں بجانے کے 'جرم' کے مرتکب ٹھرے تھے۔

جرگہ کا خیال تھا کہ ان عورتوں اور مردوں نے قبائلی روایات کی توہین کی ہے، جس کی سزا موت ہونی چاہیے۔

ایک عینی شاہد نے رائڑرز کو بتایا تھا کہ فیصلے کے تحت  پانچوں عورتوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ دونوں مرد چھپ گئے ہیں۔

بعد میں کوہستان کے عمائدین نے ایسے کسی واقعہ کی تردید کرتے ہوئے تحقیقات کرنے والوں کے سامنے 'واقعہ' میں ملوث چارعورتوں کو پیش کر دیا تھا۔

رائٹرز کی جانب سے جو تصاویر اور شواہد جمع کیے گئے، اس کے تحت پیش کی جانے والی عورتیں کوئی اور تھیں جبکہ تحقیقات کرنے والوں نے بھی ان عورتوں کو شناخت کرنے کا تردد نہیں کیا تھا۔

پاکستان میں کام کرنے والے جرگوں کے کتنے فیصلے عدالتوں میں چیلنج کیے گئے، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہیں۔

تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کہتے ہیں کہ میڈیا کی طرف سے جرگوں کے فیصلوں کی مسلسل کوریج کے بعد ججوں نے ایسے معاملات کا زیادہ نوٹس لینا شروع کر دیا ہے۔

ثمرمن اللہ خان نے جرگوں پر مکمل پابندی کے لیے دو درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 2005ء میں ان کی پٹیشن کے بعد سے اب تک عدالتوں نے جرگوں کی جانب سے ساٹھ سے زائد جبری شادیوں کے فیصلوں پر عملدرآمد رکوایا ہے۔

خیال رہے کہ جبری شادیوں کو 2004ء میں غیر قانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسے ختم نہیں کیا جا سکا۔

وہ کہتی ہیں کہ عدلیہ کی جانب سے اس قسم کے معاملات میں مداخت یقیناً بڑھی ہے اور اب لوگوں میں عدالت اور پولیس سے رجوع کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔

جرگوں کو جوابدہ بنانے کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک ادارے کیمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اب بھی لوگ جرگوں کے حامی ہیں کیونکہ ان جرگوں کے مقابلے میں عدالتی نظام کی حالت کافی خستہ ہے۔

دو ہزار دس میں کیمپ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پندرہ سو افراد پر مشتمل ایک سروے کیا تھا، جس کے نتائج کے مطابق جواب دینے والے دو تہائی افراد نے جرگوں کو انصاف کی فراہمی کا مؤثر ذریعہ قرار دیا تھا۔

سروے میں نصف کے قریب لوگوں کی یہ بھی رائے تھی کہ بعض اوقات جرگوں کے فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے۔

گزشتہ مئی کیمپ نے فیصلوں میں اصلاحات لانے کے لیے اسلام آباد میں ایک گرینڈ جرگے کا بھی انعقاد کیا تھا۔

اس جرگے میں خواتین کے خلاف انسانیت سوز نوعیت کے فیصلوں کو جرمانوں سے تبدیل کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔

کیمپ نامی ادارے سے وابستہ ایک وکیل نیہا گوہر نے بتایا کہ گرینڈ جرگے کے رہنماؤں نے ایک مہینے کے اندر مختلف پنچایتوں کے درجن بھر فیصلوں میں مداخلت کی تھی۔

ایک واقعہ میں جہاں ایک شخص اسی سال سے جاری تنازعہ کے خاتمے کے لیے تین خواتین کا مطالبہ کر رہا تھا، رہنماؤں کی مداخلت کے بعد  اسے محض گندم کی دس بوریوں اور ایک گائے پر اکتفا کرنا پڑا۔

نیہا کہتی ہیں کہ 'ان جرگوں پر پابندی لگانے کے بجائے ان کے ارکان کی تربیت ہونی چاہیے'۔

تبصرے (1) بند ہیں

lala jan Mar 15, 2013 05:21am
سلام جو تصویر دی ہے وہ سندھ کی نہیں بلکہ قبائلی علاقے پاراچنار کے ایک جرگے کی تصویر ہے۔ چنانچہ تصویر میں اگر احتیاط برتی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 23 اپریل 2025
کارٹون : 22 اپریل 2025