طبقاتی جدوجہد کی بتیسویں کانگریس
رپورٹ اور تصاویر مرسلہ: عدیس صدیقی۔ کیپ ٹاؤن، ساؤتھ افریقہ
انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی کی (آئی ایم ٹی)’’طبقاتی جدوجہد‘‘ کے موضوع پر بتیسویں کانگریس نو اور دس مارچ کو ایوانِ اقبال، لاہور میں منعقد ہوئی۔
کانگریس کا آغاز پاکستان میں بولی جانے والی مختلف مقامی زبانوں پشتو، سندھی، سرائکی، پنجابی، اور دری زبانوں کی نظموں سے ہوا۔ جس کے بعد حمید خان نے کانگریس کا آغاز کیا۔ اس کانگریس کو عظیم مارکسی استاد ٹیڈ گرانٹ کے نام معنون کیا تھا۔ کانگریس کا مرکزی بینر بھی ٹیڈ گرانٹ کے ایک سوویں یومِ پیدائش کی مناسبت سے آویزاں کیاگیاتھا۔ حمیدخان نے واضح کیا کہ ٹیڈ گرانٹ کی زندگی مارکسزم کے حقیقی نظریات کے لیے جدوجہد میں گزری۔ پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کے بانی ڈاکٹر لال خان نے ابتدائی کلمات ادا کیے۔ انہوں نے بتایا کہ شرکت کے اعتبارسے یہ عالمی مارکسی رحجان کے پاکستانی سیکشن کی سب سے بڑی کانگریس ہے۔
اس سال ایلن وڈز کانگریس میں شریک نہیں ہو سکے لیکن ان کا ریکارڈشدہ پیغام کانگریس کو سنوایاگیا۔ ایلن وڈ نے کانگریس کے انعقاد کو سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے بدترین بحران کے پیداکردہ حالات کی روشنی میں ایک اہم سنگ میل قراردیا۔ ان کے علاوہ دیگر ملکوں میں کام کرنے والے مارکسسٹ رہنماؤں کے پیغامات بھی ترجمے کے ساتھ پڑھے گئے۔ ان میں وینزویلااورفرانس کے کامریڈز کے علاوہ امریکہ سے کامریڈ جان پیٹرسن کا وڈیوپیغام بھی شامل تھا۔
اس کانگریس کی خاص بات ملالہ یوسف زئی کا پیغام تھا۔ برطانیہ کے شہر برمنگھم کے جاوید نے ملالہ یوسفزئی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ ملالہ یوسف زئی کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر دنیا بھر میں شہرت ملی۔ وہ پچھلے سال سوات میں ہونے والے نیشنل یوتھ مارکسی اسکول میں بھی شرکت کرچکی تھیں، وہ دہشت گردوں کے حملے میں شدید زخمی ہو گئی تھیں۔ ان کا پیغام کچھ یوں تھا “پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ان سب مسائل کا حل بھی ہم نے ہی کرناہے۔ اس کے لیے ہمیں ہی قدم اٹھاناہوگا۔ ہم کسی کا انتظار نہیں کریں گے کہ کوئی آئے گاا ور ہمارے مسائل حل کرے گا۔ کیوں ہم کسی ایسے کے انتظار میں رہتے ہیں ؟ ہم خود ہی کیوں نہیں اپنے مسائل کا حل کر سکتے؟ میں دل کی گہرائیوں سے کانگریس کو مبارکباد دینا چاہتی ہوں۔ ”
ملالہ کی ایک سہیلی بھی کانگریس میں شریک ہوئیں جو کہ ملالہ پر حملے کے وقت بس میں موجود تھیں۔ انہوں نے ایک نظم بھی پڑھی۔
کانگریس کے پہلے سیشن میں یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں رونما ہونے والے واقعات کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ فریڈ ویسٹن اس موضوع پر تقریر کی جبکہ صدارت کے فرائض حمید خان نے ادا کیے۔ فریڈ وسٹن نے عالمی معیشت کے تضادات کی وضاحت کرتے ہوئے ان عناصر کی تصویر کشی کی جو 2008ء کے عالمی بحران کا باعث بنے۔ انہوں نے دگرگوں سماجی حالات، محنت کش طبقے کے حقوق پر ڈاکے، اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی تصویر کشی کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح عوامی اتحاد اور جدوجہد کے شاندار مظاہرے کے باوجود ایک واضح، مضبوط اور حقائق پر مبنی نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خلاء کو مذہبی انتہاپسندوں نے پُر کردیا۔ لیکن کیونکہ ان کے پاس مسائل کا کوئی حتمی حل موجود نہیں تھا اس لیے حکومت میں آنے کے بعد یہ بہت جلد ہی مصر اور تیونس میں عوام کے سامنے بے نقاب ہو گئے۔ اب دونوں ممالک میں انقلاب کی نئی لہر ابھر رہی ہے کیونکہ محنت کشوں اور نوجوانواں نے اپنے حالیہ تجربات سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس لیے ہم مشرقِ وسطی میں عوام کو مزید ریڈیکلائز ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
اٹلی سے آئے ہوئے کلاڈیونے کہا کہ نہایت مختلف سماجی اور معاشی حالات کی سبب جنم لینے کے باوجود بھی یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے واقعات عالمی انقلاب کی کڑی ہیں اور اس کے اثرات یقیناً پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ انہوں نے دانتے کی نظم Inferno بھی سنائی جسے بہت پسند کیا گیا۔
کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ کی پوسٹ گریجویٹ یونین کے صدر ارسلان غنی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فریڈ ویسٹن سے مذہب کے کردار، وینزویلا اور مصر میں انقلابات کے مستقبل، ایران اور افغانستان کے حالات اور کئی دوسرے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مذہب کے حوالے سے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فریڈ نے کہا کہ مذہب کی گرفت لوگوں کے ذہنوں پر اس لیے مضبوط ہے کیونکہ وہ بد ترین حالات میں جی رہے ہیں۔
دوسرے سیشن کی صدارت غفران احد نے کی۔ اس سیشن میں پاکستان کے سماجی معاشی اور سیاسی بحران کے موضوع پر بات کی گئی۔ آدم پال نے پاکستان کے عوام کو درپیش روزافزوں بدترین صورتحال سمیت بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت، انفراسٹرکچر کے انہدام، صنعتی شعبے کی مکمل بندش وتباہی، اور اس کے ساتھ بڑھتے ہوئے نسلی فسادات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
سوات سے کوکلہ باچہ، کراچی سے پارس جان، بلوچستان سے نذر مینگل، وائی ڈے اے پنجاب کے رہنما آفتاب اشرف، ملتان سے پیپلزپارٹی کے رہنما الیاس خان، افغانستان سے سعداللہ مہمند، اور سکھ برادری کے ایک رکن گرداس سنگھ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شمالی پنجاب سے چنگیزخان نے ایک نظم پیش کی۔
اس سیشن اختتام پر تین کمیشن قائم کیے گئے۔ جو ٹریڈ یونین ورک، یوتھ ورک اور خواتین کے امور سے متعلق تھے۔
سیشن کے اختتام سے قبل پاکستان کے معروف گلوکار جواد احمدنے اپنے تازہ ترین البم کے بارے شرکا کو آگاہ کیا جس میں بہت سے انقلابی گیت بھی شامل ہیں۔ ایک گیت کراچی میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحے میں ہلاک ہونے والے تین سو سے زائد مزدوروں، جبکہ دوسرا گیت برصغیر کے سوشلسٹ انقلابی شہید بھگت سنگھ کے حوالے سے تیار کیاگیا ہے جنہیں برطانوی راج نے1931ء میں پھانسی چڑھادیاتھا۔ جواد نے اردو میں مزدوروں کے بین الاقوامی ترانے کو بھی ایک نئے اسلوب میں لکھا اور گایاہے، یہ گیت بھی ان کے نئے البم میں شامل ہے۔ جواد کےاپنے انقلابی ترانے کے دوران فریڈ ویسٹن اور کامریڈ لال خان دونوں کو اسٹیج پر بلالیا۔ کئی دوسرے رہنما بھی جواد کے ساتھ ترانے میں شامل ہوئے۔ پھر کانگریس کے ہزاروں شرکاء بھی جواد کے ساتھ مزدوروں کے اس انقلابی ترانے میں ہم آواز ہوتے چلے گئے۔
یہ کانگریس کے انتہائی پرجوش اورولولہ انگیز لمحات تھے، جس نے کانگریس کے پہلے روز کو انتہائی شاندار اور یادگار بنا دیا تھا۔
کانگریس کا دوسرادن
کانگریس کے دوسرے دن، دس مارچ کو مزید شرکاء اس کانگریس میں شریک ہوئے اور یوں ان کی مجموعی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچ گئی۔ پہلا سیشن الیکشن 2013ء کی مہم پر مبنی تھا۔ جبکہ دوسرا سیشن تنظیمی اموراور عالمی مارکسی رحجان کی بین الاقوامی رپورٹ پر مشتمل تھا۔ دوسرے دن کی کاروائی کی ابتدا بھی پہلے دن کی طرح انقلابی شاعری سے کی گئی۔ شدیدترین تضادات میں گھرے ایک ملک میں کہ جہاں ایک قلیل تعداد مراعات اور عیاشیوں سے لطف اندوزہورہی جبکہ آبادی کی بھاری اکثریت انتہائی غربت میں زندگی بسر کرتی آرہی ہے، ایسے میں محروم اور درماندہ انسانوں کی حالت زار کو نظموں اور گیتوں میں بیان کیا گیا اور یہ انقلابی نظمیں اور گیت کانگریس کا انتہائی اہم حصہ بن گئیں۔
قمرالزمان نے پہلے سیشن کی میزبانی جبکہ صدارت ڈاکٹر لال خان نے کی ۔ سب سے پہلے کانگریس کے شرکاء کو پاکستان کے معروف گلوکار جواداحمد کی بلدیہ ٹاؤن کراچی کے المیے کے حوالے سے تیارکی گئی وڈیو دکھائی گئی۔ اس کے بعد رؤف خان نے ایک انقلابی نظم پڑھی۔
اس کے بعد ڈاکٹر لال خان نے اگلے متوقع الیکشن کی مہم کے موضوع پر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ“پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیاں سولہ مارچ کو تحلیل کیے جانے جبکہ مئی کے مہینے میں نئے الیکشن کرائے جانے کا امکان ہے۔ لال خان نے کہا کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جارہے ہیں کہ جب پاکستانی سماج ایک شدیدگہرے بحران کی زد میں آیاہواہے۔ غربت جوپہلے ہی سماج کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئی تھی، مزید بڑھتی چلی جارہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مزدوروں کسانوں بیروزگاروں اور غریبوں کی حقیقی نمائندگی کون کررہا ہے؟ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادایک سوشلسٹ پروگرام پر رکھی گئی۔ لیکن آج پارٹی پچھلے پانچ سالوں سے اقتدارکے مزے لوٹتے ہوئے، سامراج کے دیے گئے ایجنڈے کو مسلط کرتی چلی آرہی ہے۔ جس میں نجکاری اور غریبوں کو دی جانے والی سبسڈیز میں کٹوتیاں شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام الناس سیاستدانوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ جو کہ سب کے سب اپنی اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ عوام کی فلاح کے لیے کوئی ایک سنجیدہ کام نہیں کیا گیا۔ 2008ء میں ہونے والے الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں لیتے ہوئے پیپلز پارٹی نے صرف17فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔”
لال خان نے کہا کہ “حالات ایسے ہیں کہ نواز شریف کی پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔ جبکہ ووٹروں کی بڑی تعداد الیکشن میں حصہ لینے سے گریز کرسکتی ہے، اور ایسے حالات میں غریب لوگ اپنے ووٹ بیچنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ووٹوں کا اس سے زیادہ فائدہ نظر ہی نہیں آئے گا۔ کہ اس سے کم ازکم لوگوں کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے ایک دو دنوں کی خوراک تو میسر آسکے گی۔
لال خان نے سماج کی کیفیتوں کی زبوں حالی پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ “بحران سماج میں ہر سطح پر اپنے اثرات مرتب کررہاہے۔ نہ صرف بدعنوانی ہر جگہ آسمان کو چھورہی ہے بلکہ یہ بحران ثقافت کی ابتری، اور انسانیت کی گراوٹ کی شکلوں میں بھی اپنا واضح اظاہر کررہاہے۔ ایک روز قبل ہی لاہورشہر میں ہونے والا دلدوز واقعہ اسی کیفیت کا ہی عکاس ہے جس میں مسیحیوں کے ایک سو اٹھہتر گھروں کو جلا ڈالا گیا۔ اس کے لیے جو عذر تراشاگیاوہ توہین رسالت کا الزام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات قبضہ گروپوں کی کارستانیاں ہیں۔ ریاست اس ساری بربریت کے دوران ایک طرف کھڑے ہوکر تماشا دیکھتی رہی۔”
لال خان کے بعد ریاض، پشاور سے فضل قادر، فیصل آباد سے عادل، الیاس خان،رؤف خان، کوئٹہ سے جلالہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جلالہ نے بتایا کہ مولویوں نے ان کے خلاف فتویٰ جاری کردیا ہے، لیکن وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی، انہوں نے پروین شاکر کی نظم پر اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ آخر میں جام پور سے آئے ہوئےسرائیکی زبان کے انقلابی شاعرکلیم محسن نے اپنی نظم پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکوؤں اور لٹیروں پر کبھی بھروسہ نہ کیا جائے۔
اگلے سیشن میں کراچی کے پارس جان نے صدارت جبکہ یاسر ارشاد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نذر مینگل نے ٹریڈیونین کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔ جس میں بتایاگیا کہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین، الیکشن کی مناسبت سے محنت کشوں کے اجتماعی اور عمومی مسائل کے حوالے سے ایک خصوصی پمفلٹ شائع کرے گی۔
امجد شاہسوار نے یوتھ کمیشن کی رپورٹ کانگریس میں پیش کی اور پچھلے سال کے دوران کی جانے والی سرگرمیوں بارے بتایا۔
پاکستان بھر سے محنت کش خواتین سمیت طالبات کی بڑی تعداد نے کانگریس میں شرکت کی۔ انعم نے خواتین کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔
فریڈ ویسٹن نے عالمی مارکسی رحجان کی انٹرنیشنل رپورٹ پیش کی۔
کانگریس کے اختتام پر تمام شرکاء نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر کامریڈ جواد احمد کے سنگ مزدورں کا عالمی ترانہ گایا۔
اس مرتبہ کانگریس کے شرکاء کی تعداد منتظمین کی توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ پاکستان بھر سے پرجوش، پرعزم اور انقلابی جذبات سےلبریز کارکنان بد ترین معاشی و سماجی حالات کے باوجود بڑی تعداد میں کانگریس میں شرکت کے لیے پہنچے، جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک سے بھی مندوبین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔