راقم الحروف-2
السٹریشن — جمیل خان –.
(مزید کچھ یادداشتیں)
حضرت راقم الحروف کے مشہورِ زمانہ رومال کے کثرتِ استعمال کا قصّہ آپ اس تذکرے کے پہلے حصے میں پڑھ ہی چکے ہیں۔ اس قدر کثیر المستعمل ہونے کے باوجود اُسے جمعہ کے جمعہ ہی تبدیل کیا جاتا تھا۔
حضرت کے گزشتہ تذکرہ سے اُمید ہے، آپ اندازہ کر چکے ہوں گے کہ حضرت راقم الحروف جمعہ کے روز ہی غسل فرمایا کرتے تھے۔
اُن کی اِس عادتِ دیرینہ کی اصل وجہ پانی کی عدم دستیابی سے کہیں زیادہ حصولِ ثوابِ دارین تھی۔ کیونکہ پانی ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ تھا، وہ کسی بھی خوبصورت خاتون کو کچھ ایسی نظروں سے تاڑتے، معاف کیجیے گا دیکھتے تھے کہ وہ بے چاری پانی پانی ہوجاتی تھی۔
اکثر صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپس آتے ہوئے سڑک پررُک جاتے ، پھر ایک ہاتھ کمر پر رکھے، ایک ہاتھ میں جھاڑو پکڑے ہوئے قدرے جھک کر صفائی کرتی مہترانی کو اتنی ہی کمینگی سے گھورتے کہ جس کمینگی سے برصغیر کے اکثر بادشاہ، زیرنگیں ریاستوں کے راجاؤں کی رانیوں کو گھورا کرتے تھے۔
کسی جمعہ اگر غسل شریف کا ناغہ ہوجاتا تو بقول ہمارے دوست نون کے، پھر یہ ثوابِ دارین حضرت کے ملنے جلنے والوں کو صبر و برداشت کے صلے میں منتقل ہونے لگتا تھا۔ دراصل حضرت راقم الحروف صرف غسل کے بعد ہی لباس بمعہ رومال تبدیل کیا کرتے تھے۔
ایسے میں جوڑیا بازار سے خریدے گیے برسوں پرانے عطر کی، جو استعمال میں انتہائی احتیاط کی بنا پر اب تک خاصی مقدار میں موجود تھا، زناّٹے دار خوشبو، میل و کچیل اور پسینے کی بدبو اور بھبکوں کے باہم یکجان ہونے کے بعد جو کاک ٹیل قسم کی چیز قُرب وجوار کے لوگوں کی قوتِ شامّہ تک پہنچتی تھی، اُس کے بعد اکثر افراد تو کچھ ایسی کیفیت سے دوچار ہوجایا کرتے جس میں عموماً حاملہ خواتین پہلے مہینے میں مبتلا ہوتی ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ حضرت راقم الحروف اپنی وضع داری کو قائم رکھنے کی خاطر ہرایک سے معانقہ ضرور فرماتے تھے۔
اس مرتبہ ہم آپ کو حضرت راقم الحروف کی دھوتی سے بھی متعارف کراتے چلیں۔ حضرت کی دھوتی کا حال یہ تھا کہ دھوتی دھوتی، نہ دھوتی نہ دھوتی۔
اپنی دھوتی کو وہ بہت احترام کے ساتھ تہمد کہا کرتے تھے، حالانکہ وہ ان کی سوچ کی مانند ان کے لیے ایک تہمت تھی۔
ایک مرتبہ شہر میں شدید بارشیں ہوئیں، اتنی کہ آبادی کے بیچوں بیچ سے گزرنے والا برساتی نالہ جو ندّی میں گرتا تھا، ندّی کے بہاؤ کی وجہ سے پلٹ گیا اور اُلٹا بہنے لگا۔
یہ عجیب الخلقت واقعہ دیکھنے پوری خلقت نالے کے کنارے اِکھٹّا ہوگئی۔ بچے، بوڑھے، نوجوان اور خواتین، سب ہی۔ راقم الحروف نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا تھا کہ وہ اسمِ اعظم جانتے ہیں، اُن کے اس دعوے پر تو ہمیں بھی کوئی شک نہیں تھا کہ ان کے ڈھیروں بچوں میں سے ایک کا اسم شریف یعنی نام اعظم تھا۔
کسی نے اُس وقت انہیں اُکسایا اور کہا کہ آپ اسمِ اعظم کا کمال دکھائیے تاکہ اس نالے کی شوریدہ سَری کم ہو اور آبادی کسی بھی مصیبت سے محفوظ رہے۔ چنانچہ وہ بلندی سے کچھ نیچے اُترے تاکہ نالے پر اسمِ اعظم کا دَم وغیرہ کرسکیں۔ اس وقت بارش تو خیر رُکی ہوئی تھی لیکن ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے ان کی تہمد کو کالی سفید فلم کے دور کی کسی رقّاصہ کے غرارے کی مانند چاروں طرف پھیلا دیا۔ راقم الحروف کھابڑ کھوبڑ جگہ پر خود کو سنبھالتے کہ اپنی تہمد کو؟
چند ہی لمحوں میں انہوں نے دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ تہمد سے زیادہ وہ خود قیمتی ہیں کہ نالے میں گر گئے تو دنیا ایک نابغۂ روزگار سےمحروم ہوجائے گی، جو اکثر بے روزگار رہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے تہمد یعنی دھوتی کو چھوڑا اور خود کو سنبھالا۔ پھر اس کے بعد چراغوں پر دھوتی نہ رہی۔ ہوا نے اُسے اپنے پروں پر اُٹھا کر نالے میں پھینک دیا۔ عوام النّاس کا ہجوم جو راقم الحروف سے کچھ بلندی پر تھا، اُن کی صوفیانہ شان دیکھ کر نعرہ ہائے ہائے تحسین بلند کرنے لگا۔ بہت سی خواتین نے اپنے ہاتھ منہ پر رکھ لیے، آنکھوں پر نہیں۔
حضرت راقم الحروف مغربی ممالک کے بعض ٹی وی چینلز کے ناظرین، جن میں ازدواجی تعلقات کی باریکیوں پر کچھ قریب سے روشنی ڈالی جاتی ہے، کو سخت ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا کرتے، جبکہ مذکورہ چینلز خود کن انکھیوں سے یا ترچھی نظروں سے دیکھتے۔
حضرت راقم الحروف نے کبھی ٹی وی نہیں خریدا۔ نون کا خیال ہے کہ دو عدد بیویوں کی موجودگی میں ٹی وی کی کبھی اُنہیں ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہوگی۔
لیکن پڑوسیوں کے گھر زبردستی براجمان ہوکر ترچھی نظروں سے ہی ٹی وی پر اُنہیں وہ کچھ دکھائی دے جاتا تھا جو دوسروں کی چشم ما روشن کو بھی نظر نہ آتا تھا۔
پھر ایسے ایسے فتوے داغے جاتے کہ خدا کی پناہ۔
پی ٹی وی جیسا معصوم اور پردہ دار چینل بھی جب اُن کا ہدفِ تنقید و ملامت بنا کرتا تو سب ہی کو سخت حیرت ہوتی۔ یہ بات ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر اُنہیں ٹی وی دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ہم نے نون سے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ ’اُن کی فتویٰ ساز فیکٹری کو خام مال بھی تو چاہیے۔‘
حضرت اپنے ہفت روزہ گزٹ میں اکثر ایسے مغربی ممالک کے ٹیوی چینلز کی نشاندہی بھی فرماتے رہتے تھے، جن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا یہ نہایت غیر اخلاقی چینلز ہیں اور پی ٹی وی بے چارے کو تو قبلہ درست کرلینے کی اکثر دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔ غیراخلاقی چینلز کی نشاندہی کی بناء پر راقم الحروف کا یہ گزٹ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوا۔
عید کی آمد سے قبل اُن کا بیان آتا کہ فلمی اداکاراؤں کی ہیجان خیز تصاویر کے عید کارڈز کی فروخت پر پابندی لگائی جائے۔
ایک مرتبہ نون نے اُن سے کہا ’حضرت آپ دیکھتے ہی کاہے کو ہیں وہ عید کارڈز؟ آپ کی عمر کا ہیجان خیز دور تو کب کا گزر گیا اب تو خلجان ہی خلجان ہے۔ اور آپ یہ بھی تو سوچئے کہ ایسے کارڈز کے خریدنے والے موجود ہیں تب ہی تو وہ دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہیں۔‘
نون کی اس توجیہہ پر حضرت نے نہایت بُرا سا منہ بنایا تھا۔ حالانکہ اُسے بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
حضرت راقم الحروف پیری مریدی سے بھی شغف رکھتے تھے لیکن باوجود کوشش کے کسی کو اپنا مرید نہ بناسکے۔ لہٰذا پیری مریدی کا کھیل زندگی بھر اکیلے اکیلے ہی کھیلتے رہے۔
اکثر گلی محلے کے لڑکوں کو اپنے روحانی درجات بیان کرکے مرعوب کرنے کی ناکام کوشش بھی کیا کرتے۔
ایک مرتبہ تو اُنہوں نے اپنے ہفتہ وار گزٹ میں یہ اعلان بھی کر ڈالا کہ راقم الحروف کو یعنی اُنہیں عرفانِ ذات حاصل ہوگیا ہے،چنانچہ اس بات کا بہت چرچا ہوا۔
سو جتنے منہ اُتنی گالیاں معاف کیجیے گا جتنے منہ اتنی باتیں۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت موصوف پہلی بیوی سے نو بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والے اپنے نومولود بیٹے عرفان کی بات کررہے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست نون سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا تو اُس نے بلاجھجک اُن کے دعوے کی فی الفور تصدیق کرڈالی۔ ہم نے دلیل چاہی اور کہا کہ عرفانِ ذات کے لیے تو صوفیاء سخت اور طویل مجاہدے کرتے آئے ہیں۔ اُس نے کہا کہ ’دوبیویوں کے درمیان گھن چکر بننے سے زیادہ بڑا مجاہدہ کیا ہوسکتا ہے۔‘
پھر اُس نے بتایا کہ’عرفانِ ذات تو اُنہیں برسوں سے حاصل تھا۔ چند برس قبل میں نے خود حضرت راقم الحروف کو گھر میں اپنی بھاری بھرکم بیویوں سے یہ کہتےسنا تھا۔‘
حضرت راقم الحروف فرمارہے تھے کہ ’تم دونوں نے تو مجھے دُم ہلانے والا جانور بنادیا ہے۔‘
حضرت راقم الحروف دوسروں کو ہمہ وقت نیکیوں کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کے سامنے نیک بننے کا جو فارمولہ پیش کیا تھا، وہ نہایت آسان اور سہل تھا۔ پھر بھی وہ لوگوں سے ہمیشہ شاکی ہی رہے کہ بہت کم لوگوں نے اُن کے بتائے ہوئے فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ فارمولہ حد درجہ سہل تھا۔ کچھ بھی تو نہیں کرنا تھا نیک بننے کے لیے۔
بس چھوٹے بھائی کی شلوار اور بڑے بھائی کا کرتہ زیب تن کرلیجئے اور نیک بن جایئے۔
پھر جو چاہے کرتے رہیے، کوئی آپ سے کچھ نہیں پوچھے گا۔ اس لیے کہ آپ نیکی کا چلتا پھرتا اشتہار جو بن جائیں گے۔ اگر آج حضرت راقم الحروف زندہ ہوتے تو اپنی تعلیمات کو پھلتے پھولتے دیکھ کر کتنے خوش ہوتے، اس لیے کہ آج تو بہت سے ایسے اداروں کے دفاتر جہاں کے ملازمین پر لازم تھا کہ وہ پینٹ شرٹ کے ساتھ ٹائی ضرور لگائیں اور روزانہ شیو کرکے دفتر آیا کریں، ان اداروں کے ایگزیکٹیوز تک گھنی داڑھیوں کے ہمراہ اپنے ابّو کا کرتہ اور چھوٹے صاحبزادے کی شلوار زیب تن کرکے آتے ہیں۔
حضرت راقم الحروف کرائے کے مکان میں برسوں سے کرایہ ادا کیے بغیر مقیم رہے۔ مالک مکان نقصِ امن کے خطرے سے ڈر کر اُنہیں کچھ کہتا نہیں تھا۔ اس حوالے سے نون کہتا ہے کہ نقصِ امن سے مالک مکان کی مُراد حضرت راقم الحروف کی دونوں بیویاں تھیں۔
پانی کا کنکشن مین لائن سے چوری چھپے لیا ہوا تھا۔ کہتے یہ تھے کہ یہ چوری نہیں تھی بس اُس وقت رات کا وقت تھا۔ اس ضمن میں نون کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ ہرگز چوری نہیں تھی۔ بلکہ اُس وقوعے کا تعلق تو بدمعاشی سے جُڑتا ہے۔
بجلی کے حصول کے لیے ’یک نہ شد دو شد‘ کنڈے ڈالے ہوئے تھے،اور حضرت راقم الحروف کی ’شہادت گہہ کرنٹ‘ کا سبب بھی یہی دو کنڈے تھے کہ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ انہوں نے چھاپہ مار ٹیم کی آمد کا سُن کر ہڑبڑاہٹ میں دونوں کنڈوں کو علیٰحدہ کرنے کے بجائے اُن کا آپس میں ملاپ کرا دیا تھا۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں