نشے میں ملی خوشی؟
چاہے کوئے کھارادر، کٹی پہاڑی، بنارس، سعید آباد، سلطانہ آباد، منگھوپیر، لانڈھی یا پھر کراچی کے مرکزی علاقوں میں ہو، ہر جگہ لاتعداد لوگ ایسے ملیں گے جو نشے کے عادی ہوب گے اور مختلف قسم کا نشہ کرتے ہوں گے۔
بے تاثر انکھیں، جسم ڈھلتا ہوا اور زمانے کی ٹھوکرین کھائے ہوئے کچھ ہیروئنچی اپنی پھولی ہوئی رگوں میں ہیروئین کا انجیکشن لگاتے ہوئے ملیں گے، دوسرے چیتھڑوں پر چپکنے والی گوند سونگھتے ہوئے نظر آئیں گے، کچھ تازی بھری ہوئی سگریٹیں جو کہ سوفٹ ڈرگ کہلاتی ہے، پیتے ہوئے نظر آئیں گے جبکہ کچھ گندی سڑکوں اور خالی ٹھیلوں پر ہشیش پی کر سوتے ہوئے نظر آئے گے۔ہر روز آوارہ لڑکے، جو زیادہ تر جیب کترے ہوں گے، صبح کو ایک ساتھ نظر آئیں گے تاکہ شہر بھر سے بڑھئی کی دکانوں کے کچرے سے چپکنے والی گوند سے بھرے کاٹن کے کپڑے جمع کرسکیں۔
چودہ سالہ امین جو کہ اپنی زیادہ تر راتیں کھارادر مین واقع بکرا ہوٹل کے قریب ایک پتلی سی گلی مین گزارتا ہے، کہتا ہے کہ اس کے لیے کچرے میں پھینکیں ہوئے صمد بانڈ کی خوشبو لیے کاٹن کے کپڑے اس کے لیے کافی ہوتے ہیں اور اسے صمد بانڈ خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس نے بتایا کہ گوند سونگھنے والے آہستہ آہستہ ہیروئین کا نشہ کرنے لگتے ہیں۔ 'اور اب وہ نشے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ وہ اس ایک خوراک خریدنے کے لیے بھیک مانگتے ہیں اور چوری تک کرتے ہیں۔' ایک خورادک کو ٹاکن بھی کہا جاتا ہے اور ایک خوراک تقریباً ساٹھ سے اسّی روپے کی ہوتی ہے۔
پشاور میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بیس سے بچیس سال کے نوجوان حشیش کا استعمال کرتے ہیں جن کو عام طور پر گردا، شیرا اور چرس کہا جاتا ہے۔
ہیروئن کے صارفین کو مندرجہ ذیل تناسب کی بناہ پر تقسیم کیا گیا ہے: 65 فیصد سڑکوں پر رہنے والے ہیں، 20 فیصد مڈل کلاس طبقے سے اور 15 فیصد اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں جبکہ کوکین حشیش سے دس گناہ مہنگی ہونے کی وجہ سے اونچے طبقے والے ہی پیتے ہیں۔
حشیش کو عام طور پر گردا کے طور بیچا جاتا ہے جس کے پیکٹ وں کی قیمت 100 روپے، 1000 روپے، 2500 روپے ہوتی ہے اور ان کے ڈیلر کو آگر 25 گاہک بھی روزانہ مل جائیں تو وہ دو لاکھ تک کما سکتا ہے۔
فی کلوگرام کی قیمت میدان میں فصل کے معیار اور کوالٹی پر مبنی ہے اور ڈسٹریبیوٹر اس کو موجودہ مارکیٹ کی شرح کے مقابلے میں 50 سے 60 فی صد کم بک کرتے ہیں۔
پروسیسنگ کے بعد، منشیات کو مارکیٹ میں مختلف مقامات مین جیسے کہ کارخانو مارکیٹ، چرکاس، ڈیرہ آدم خیل اور خیبر پختونخواہ کے دیگر قبائلی علاقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اسٹریٹ وینڈرز اور دکان کے مالکان ان مقامات سے خریدتے ہیں اور ٹرک، نجی گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ، وغیرہ پر مقامی قبائل اور پولیس کی مدد سے ملک بھر میں تقسیم کرتے ہیں۔
پاکستان سوسائٹی کے ڈاکٹر سلیم عاظم کے مطابق، ظائع ہونے کے عمل سے بچنے کے لیے 60 فیصد سے زائد ہیروئینچی سگریٹ سے انجکشن کی طرف آئے ہیں (کیوں کہ ہیروئین دھوئے سے جلدی اڑ جاتی ہے)۔
ڈاکٹر عاظم نے بتایا کہ 70 فیصد سے اوپر حشیش کے عادی مصنوعی منشیات کی طرف چلے جاتے ہیں۔ حشیش 'سوفٹ ڈرگ' کہلاتی ہے اور یہ آج کل کے نوجوان میں بہت مقبول ہورہی ہے خاص طور پر ان نوجوانوں میں جو 'آرام' اور 'خوشی کا جذبہ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔'
چالیس سالہ آصف علی نے کہا کہ حشیش اونچے طبقے میں بھی عام ہوگئی ہے جہاں یہ 'تفریحی ڈرگ' کے طور پر استعمال ہونے لگی ہے۔ یہ خود بھی اپنے کالج کے دنوں میں حشیش کے عادی تھے۔
انہوں نے کہا آج کل کے پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری اور روزمرہ کے مسئلوں سے تنگ آکر حشیش استعمال کرنے لگے ہیں۔
یہ لوگ کچھ پف سے شروعات کرتے ہیں اور پھر اس کے عادی ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے لیے جرائم بھی کرنے لگتے ہیں۔
زیادہ تر نشہ کرنے والے اپنی نوجوانی میں بغیر کچھ سوچے سمجھے حشیش کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہین کہ کیوں کہ اس میں جسمانی انحصار نہین ہوتا اس لیے وہ اسے کسی بھی وقت چھوڑ سکتے ہیں لیکن اصل میں ایسا ہوتا نہیں ہے، یہ لوگ دوسری مصنوعی منشیات کی طرف چلے جاتے ہیں۔
چھیالیس سالہ فرمان جو کہ پیشے سے ٹرانپورٹر ہیں، کہتے ہیں کہ کالج کے دنوں میں انہوں نے ڈوپ کا استعمال کیا تھا۔ 'ان دونوں کوئی تفریح ہوتی بھی نہیں تھی، کبھی کبھی کچھ لڑکے پیا کرتے تھے اور میں نے بھی کچھ دفعہ پی۔' فرمان اب باقائدگی سے پیتے ہیں حالنکہ انہوں نے اس ڈرگ کو چھوڑنے کی کئی دفعہ کوشش کی۔ – اسمائیل خان اور طاہر صدیقی
تبصرے (1) بند ہیں